دعا میں شرک

محمد عرفان شیخ یونس سراجی

اللہ تعالی وہ ذات ہے جو کسی کا محتاج نہیں بلکہ  بندے  اس کے محتاج ہیں۔ جب  کوئی بندہ اللہ سے اپنے ہاتھ بلند کیے دعا کرتا ہے تو اللہ  واحد کو اس کی دعا رد کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ بنابریں  مانگی ہوئی دعاؤں کو  اللہ تعالی  اپنی جناب میں قبول کرلیتا ہے۔لیکن فتنہ تب شروع ہوتا ہے جب بندہ اللہ کو چھوڑ غیر اللہ  کو مشکل کشا، حاجت روا، داتا اور معطی تسلیم کرلیتا ہے۔ یہ بات  اللہ کو قطعی پسند نہیں ہے اور کیوں  کر پسند ہو۔ وہ تو اللہ واحد، مالک، قادر اور رازق  ہے، اس نے پوری کائنات کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔ہر چیز پر اس کا کامل اقتدار  ہے۔ اس کو یہ بات کیسے  پسند ہوسکتی ہے  کہ  اس سے معتزل ہوکر غیر قادر مخلوقات  کو پکاراجائےجو خود لاچار اور بے بس ہیں۔ لہذا انبیا، اولیا اور ان کے علاوہ درویشوں سے ان چیزوں کے حصول کی دعائیں کرنا جن میں تصرف محض  اللہ کا چلتا ہے، جیسے رزق  مانگنا،مرض کی شفایابی کے لیےگہار لگانا،میت کو زندہ کرنے کی دعا کرنا، ایسے تمام امور  کھلم کھلا شرک ہیں، اوراللہ تعالی شرک کوکبھی معاف نہیں کرتا،جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :”إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر مادون ذلك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد افترى إثما عظيما“.(سورہ نساء:۴۸) ترجمہ:”یقینا اللہ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتااور اس کے سوا جسے چاہے بخش  دیتاہے اور جو اللہ  کا شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اوربہتان باندھا“۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ شرک اکبر کی اقسام کو ذکر کرتے ہوئے  رقمطرازہیں : ” شرک اکبرکی  اقسام میں سے اموات سے  اپنی حاجات کی تکمیل کی دعاکرنا،ان سے مدد طلب کرنا، ان کی طرف  ہاتھ پھیلائے متوجہ ہونا،یہ اس پرفتن دنیاکا  بنیادی شرک ہے۔ یقینا اموات کے اعمال منقطع ہوچکے ہیں وہ اپنے لیے کسی نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں چہ جائیکہ ان سے استعانت طلب کی جائے اور  اپنی حاجات وضروریات کی تکمیل کے لیےان (مردہ اجسام غیرقادر)سےسوال کیاجائے“۔(مدارج السالکین،لابن  القیم ۱/۳۷۵)

اللہ کے علاوہ غیر اللہ سے  دعا کرنا شرک ہے،اللہ تعالی کا فرما ن ہے :”ومن یدع مع الله إلها آخر لا برهان له به فإنما حسابه عند ربه  إنه لا يفلح الكافرون“.(سورہ مؤمنون:۱۱۷)  ترجمہ:”جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبودکو پکارے جس کی  کوئی دلیل اس کےپاس نہیں، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے  اوپر ہی ہے، بے شک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں “۔

مزید براں اللہ کا فرمان ہے :”وإذا مس الإنسان ضر دعا ربه منيبا إليه ثم إذا خوله نعمة منه نسی ماکان یدعوا إليه من قبل وجعل لله أندادا ليضل عن سبيله قل تمتع بكفرك قليلا إنك من أصحاب النار.(سورہ زمر:۸)

ترجمہ:”اور انسان کو جب  کبھی کوئی تکلیف پہونچتی ہے تو وہ خوب رجوع کرتے ہوئے اپنے رب کو پکارتا ہے، پھر جب اللہ اسے اپنے پاس سے نعمت عطا فرمادیتاہے تو وہ اس سےپہلے جو دعاکرتاتھا اسے (بالکل)بھول جاتاہےاور اللہ کے شریک مقررکرنے لگتاہےجس سے( اوروں کوبھی) اس کی راہ سے بہکائے،آپ کہہ دیجیے کہ اپنے کفر کا فائدہ کچھ دن اور اٹھالے(آخر) تودوزخیوں میں ہونے والاہے“۔

دعا کی دو قسمیں ہیں :

1- دعاء المسألة والطلب: یعنی  تقرب الہی کے حصول اور اس کی بارگاہ میں مقرب ترین  بننے کے لیے سوال کرنا، یا مدد  طلب کرنا،اس رغبت کے ساتھ کہ اس کی ذات نفع بخش اور مضرات وپریشانیوں کو دور کرنے والی ہے۔

2- دعاء عبادة وثناء: یعنی   اللہ تعالی کی عبادت کرنا، اس کی طاعت وبندگی کرنا، اس کے اوامر کی بجا آوری کرنا اور اس کے منع کردہ  اعمال سے روک جانا۔

شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  متذکرہ بالا دونوں اقسام سے متعلق   فرماتے ہیں : ”یقینا معبود کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ نفع ونقصان کا مالک ہو،پس وہ نفع  کی حصولیابی   کی غرض سےاور نقصان  کو زائل کرنے کے  مطلب سے پکارا جائے، نیز  بطور خوف اور  امید اس کی عبادت کی جائے۔تو معلوم ہوا کہ یہ  دونوں قسمیں  متلازم (باہم لازم وملزوم)ہے“۔(اقتضاء الصراط المستقیم،لابن تیمیہ ۲/۷۷۸)

دونوں قسموں کی معرفت کے بعد یہ چیز واضح ہوگئی کہ یقینا   مذکورہ دونوں اقسام میں شرک واقع ہوتا ہے۔چاہے وہ "شرک  فی المسألۃ  والطلب” ہو یا "شرک فی العبادۃ والثناء”۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں پکا سچا موحد نیز مخلص حامل کتاب وسنت بنائے اور شرک وبدعات سے  کوسوں دور رکھے۔ آمین یا رب العالمین

تبصرے بند ہیں۔