دفتر

محمد حسن

ماجد کی تقرری ہوگئی تھی، دفتر میں آج اس کا پہلا دن تھا، بہت سے اجنبی چہروں کے بیچ وہ گھرا ہوا تھا، آتے جاتے اس کے رفیق کار ہائے، ہلو بولتے اور بناوٹی مسکراہٹ کا گلدستہ پیش کرتے، بہت کوششوں کے بعد اسے یہ جاب ملی تھی، من ہی من بہت خوش تھا، اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا، اس کی گرم جوشی اور صاف، سنجیدہ لہجہ اس بات کا کُھلا ثبوت تھا کہ وہ اندر سے بہت مطمئن ہے، اس کا کیبین مینجر کے کمرے کے بالکل قریب تھا جہاں سے وہ مینجر کے کمرے میں ہونے والی ساری باتیں دروازہ کھلا ہونے کی صورت میں اچھی طرح سن اور سمجھ سکتا تھا وہیں بند ہونے کی صورت میں بھی اسے قدرے تیز آواز میں پکارا جانا بھی صاف سنائی دے سکتا تھا اور وہ مینجر کے پاس بنا کسی تاخیر کے حاضر ہو کر اس کے حکم کو بجالاسکتا تھا، مینجر نے اسے مدھم اور پیاربھرے، سست لہجے میں آواز دی، ماجد! اور وہ دروازہ کھول کر اندر اس کے پاس کھڑا ہوگیا، اتفاق سے جب اس کی نظر کمرے میں دائیں طرف پڑی تو اس نے ایک لیڈی کو دیکھا اور اس کے حیرت کی انتہا نہ رہی، اس لباس میں وہ آج پہلی بار کسی لیڈی کو اپنے بالکل قریب دیکھ رہا تھا، جلدی سے نظریں پھیرتے ہوئے مینجر کی جانب متوجہ ہوا اور آواز دینے کا غرض معلوم کرنا چاہا، مینجر نے اسے بغل میں رکھی کرسی پر تشریف رکھنے کا اشارہ کرتے ہوئےمخاطب ہوا کہ یہ اپنی کمپنی کی ڈائریکٹر ہیں اور تمہاری تقرری پر خاص مبارکباد پیش کرنے حاضر ہوئی ہیں، اس کے من میں طرح طرح کے سوالات اور ذہن میں رنگ برنگے خیالات ابھرنے ہی والے تھے کہ مینجر نے شکریہ بولتے ہوئےباہر جانے کو کہا اور دروازہ بند کرنے کی تاکید کی، وہ واپس اپنی سیٹ پر آ تو گیا لیکن اس کا ذہن اس کی باتوں میں مطابقت تلاش کرنے میں الجھ گیا، کمپنی کی ویب سائٹ یا اس کے کسی کاغذی دستاویز پر کسی عورت کا نام اس نے دیکھا تھا اور نہ ہی اس کا تصور بھی اس کے ذہن کے کسی گوشے میں تھا۔ خیر اس نے اپنے ذہن کو جھٹکتےہوئے اور وہمی خیالات کو دور کرتے ہوئے اپنے کام میں لگ گیا کیوں کہ اسے کمپنی کی کسی شخصیت سے کوئی سروکارتھی اورنہ ہی کسی ہستی سے کوئی مطلب تھا بلکہ وہ ایک ملازم تھا اور اپنے کام سے مطلب رکھنا اس کا پہلا مقصد اور فرضِ اول تھا اور اسی نصب العین پر وہ ابتدا سے عمل پیرا تھا۔

 ڈاکٹر عبدالکلام کی وہ بات ہمیشہ اپنے ذہن میں سجائے رکھتا کہ ’اپنے کام سے محبت کیجئے، کمپنی سے نہیں اس لئے کہ آپ نہیں جانتےکہ کمپنی کب آپ سے محبت کرنا بند کردے گی‘۔ ماجد کے دن گزرنے لگے، آفس آنا جانا چالو رہا، یہ، وہ، کام کا عمل زوروں پر رہا، اس کی کمپنی مختلف طرح کے بزنس میں اپنی کوششیں صرف کرتی، کام کرنے والے مزدوروں اور ملازموں کی اچھی خاصی تعداد تھی، اسسٹنٹ مینجر ہونے کی وجہ سے جیسے جیسے کمپنی کا بزنس بڑھتا گیا اس کی مشغولیات اور مصروفیات بھی بڑھتی چلی گئیں اور اسے وقت کے گزرنے کا احساس رہا اور نہ عمر کے بڑھنے کا، صبح کو دفتر، شام کو رہائش گاہ، کھانا سونا پھر کام پہ لگ جانا، اس کا معمول تھا، وہ ابھی تنہا تھا اس لئے فیملی تناؤ اور ذمہ داریوں سے کافی دور تھا، ماں باپ اور بھائی بہنوں کے اخراجات کے لئے ہر مہنے پیسے ٹرانسفر کردیتا اور اپنی زندگی اپنے طریقے سے جی کر زندگی کاخوب لطف اٹھاتا اور مزہ لٹتا، ویکینڈ پر اس کا کوئی خاص پروگرام رہتا اور ہفتے کے شروع میں ہی اس کا سارا انتظام کر لیتا، جیسے ساحل سمندر کا سیر کرنا اور ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا، قدرتی نظارے کرنا اورجاسوسی ادبی ناولیں پڑھنا اس کا خاص شوق اورذاتی مشغلہ تھا، خالی اوقات میں اس کا من انہیں چیزوں سے بہلتا اور اسے چین وقرار حاصل ہوتا۔

کمپنی جوائن کئے اسے ایک سال ہونے والا تھا، کمپنی کی سرگرمیوں اور بزنس سے وہ اچھی طرح واقف ہو چکا تھا اور اس کے اشارے پر حکم بجا لانے والے بھی دوچار پیدا ہوگئے تھے، اس نوعیت کی یہ پہلی کمپنی تھی اس کے لئے جہاں انڈستری سے متعلق کاروبار ہوتا تھا اس سے پہلے وہ اکثر تعلیمی اداروں میں خدمت انجام دیتا رہا یا تعلیمی سرگرمیاں انجام دینے والی تنظیمیوں سے جڑا رہا، اب اس کا بوجھ کچھ ہلکا ہوگیا تھا اورمصروفیت بہت نہیں لیکن کچھ کم توضرور ہوگئی تھی، اس کے پاس اب کرنے کو کام بہت کم رہتا اور سمجھانے کو زیادہ، جسے وہ منٹوں میں کرکے فارغ ہوجاتا اور گاہے بگاہے رپورٹ طلب کرتا رہتا، وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا تھا کہ جیسے ہی اس لیڈی کے مینجر کےکمرے میں جانے کی آہٹ سنائی دی، وہ مڑ کر دیکھا تو ایسا لگا جیسے کوئی اداکارہ کسی فیشن شو میں جارہی ہو اور غلطی سے اس کے دفتر میں آگئ ہو، آج پھر اس کا ذہن پریشان ہوگیا اور رنگ برنگے خیالات میں کھونے کے بجائے اس کا حقیقی داستان جاننےکے لئے پریشان ہوگیا اور پھر کیا تھا وہ جاسوسی پر اتر آیا، دفتر میں اتنا وقت تو وہ گزار ہی چکا تھا کہ سب اس سے بے تکلف اور اس کے اخلاق سے اچھی طرح واقف ہوگئےتھے، دفتر سے باہر نکل کر وہ آفس بوائے یعنی چائے والےلڑکے کو بولایا جس کی عمر یہی کہی بیس اکیس سال رہی ہوگی ، (یہ عمر لڑکپن اور شرارت کا ہوتا ہے) جو کمپنی کی اسی دفتر میں تین چار سال گزار چکا تھا، اس سے آخر پوچھ ہی ڈالا، یہ میڈم کون ہیں؟ میں ان کو کبھی دیکھا نہیں، شاید کوئی کلائنٹ ہوں گی، ہے نا ؟ جواب میں وہ مسکرایا اور بولا سَر آپ بھی کیا بات کرتے ہیں؟ یہاں سب لوگوں کایہ کہنا ہے کہ آپ ان کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کیوں کہ وہ آپ کی رشتہ دار ہیں، ان ہی کی سفارش پر آپ کی یہاں تقرری ہوئی ہے اور آپ ہی پوچھ رہے ہیں کہ وہ میڈم کون ہیں، میں جب جوائن کیا تھا تو یہ نہیں آتی تھیں یہاں، ان کی آمد تقریبا دو سالوں سے شروع ہوئی ہے،کبھی کبھار نظر آتی ہیں اور پھرغائب ہوجاتی ہیں، یہیں کہیں ایک دو مہینے میں ایک دو بار ان کا آنا ہوتا ہے، اکثر یہ تب آتی ہیں جب آپ باہر میٹنگ میں رہتے ہیں اور آپ کے بارے میں سوال کرتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ باہر ہیں اور سب اس پر اسرار راز کی کڑی آپ سےجوڑتے ہیں اور کسی کو یہ نہیں معلوم کہ اس دفتر میں اس لیڈی کی اصلیت کیا ہے، مینجر صاحب سب کو یہی بتاتے ہیں کہ وہ کمپنی کی دائرکٹر ہیں لیکن دائرکٹری دستاویز میں کہیں ان کا دور دورتک نام ہے اور نہ ہی اس دفتر میں کوئی ان کا نام تک بھی جانتا ہے۔

ماجد دفتر کے باہر کھڑا آفس بوائے کی طرف نظرِ حیرت سے تکتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ کیسا پراسرار دفتر ہے جہاں دائرکٹرکا نام کسی دستاویز پر ہے اور نہ ہی ان کا نام اس دفتر میں کوئی جانتا ہے، جوں ہی درواز کھلا اوروہ لیڈی بنا اس کی طرف دیکھے لِفٹ میں داخل ہوگئی جو اس کی عدم موجودگی میں اسے پکارتی تھی اور جس کا وہ رشتہ دار مشہور تھا۔۔۔۔۔۔ یہ کیساپراسرار دفتر تھا۔۔۔۔اس کے لئے یہ ایک پریشان کن سوال تھا جس کا جواب کسی کومعلوم نہ تھا۔

تبصرے بند ہیں۔