نظم

ادریس آزاد

کل رات کے پچھلے پہر مجھے
اُس کا میسج
موصول ہوا
۔۔۔

“میں کیسی لگتی ہوں تم کو؟”
۔۔

شہزادی؟
حور؟
پری؟
دیوی؟
تم شعر کہو
تم مجھ پر کوئی نظم لکھو
۔۔۔

میں سوچوں کی وادی میں گُم
گم صُم سوچیں
پچھلی یادیں
اگلی اُمیدیں
شام ، شفق
چھَن چھَن تھئی تھئی
۔۔۔

دو جھیل کٹورے چاندی کے
قلزم رنگت
ہرموج مچلتی ہے جن میں
۔۔

یاقوت سے ترشے ہونٹ ترے
اِک دنیا جلتی ہے جن میں
۔۔

یہ زلف لبادہ کعبے کا
یہ اَبرُو، ناک، یہ پیشانی

یعنی

غَزَلُ الغزۡلاتِ سلیمانی
یہ دانت ستارے ہیں جیسے
یہ لب انگارے ہیں جیسے
قدرت نے ترے رخساروں میں
یاقوت کی افشاں ڈالی ہے
یا نور ِ شفق بکھرایا ہے
یا رنگتِ گل، یا جوش ِ لہُو
یا غازۂ دِل پھیلایا ہے
۔۔۔

کیسے تیری فرمائش پر
میں شعر کہوں
میں نظم لکھوں
کیسے تیری تعریف کروں
لفظوں میں کہاں وہ کیفیت
جوخانۂ دِل میں پلتی ہے
جو شریانوں میں چلتی ہے
۔۔

تُو شمّعِ بزم ِ الست نہیں
تُو نغمۂ موج ِ مست نہیں
تو سرو نہیں، تُو پھول نہیں
تُو شاخ نہیں، تُو شام نہیں
نے ابرِ بہار، نہ باد ِ صبا
نے رنگِ حنا، نے شعر و غزل
تُو شاعر کی تصویر نہیں
۔۔۔

تُو چیز نہیں اِک ہستی ہے
اِک جیتی جاگتی بستی ہے
اِک نام ہے، اِک پہچان ہے تُو
اِک جذبہ، اِک ایمان ہے تُو
۔۔

سچ ہے کہ بدن کے حصوں کی
تعریف کوئی تعریف نہیں
تُو حسن ِ مکمل کا پرتو
تُو وہم و گماں سے پاک
بدن کی حد سے پرے
لولاک کے سُتھرے
چاک سے اُتری
خوشبُو کا احساس ہے تو
اور مسند عرش پہ
جلوہ نما
اُس مطلق، حسن کے
تاج کے بیچوں بیچ
جڑا الماس ہے تُو

تبصرے بند ہیں۔