دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے

مولانا سیّد آصف ملی ندوی

                گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر شہر ناندیڑ کے ایک معروف عصری تعلیمی ادارے میں قومی یکجہتی کے عنوان پر منعقد کئے گئے ایک کلچرل پروگرام کی مختصرسی دو منٹ کے دورانئے پر مشتمل ویڈیوکلپ وائرل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح تقریبا پوری ریاست مہاراشٹر میں اس کی تپش محسوس کی جانے لگی، در اصل اس ویڈیو میں عکس بند کئے گئے مناظرہی کچھ ایسے تھے کہ انہیں دیکھتے ہی بدن پر رونگٹے کھڑے ہوگئے اور یوں محسوس ہونے لگا گویا جسم کا سارا لہو دفعتاً خشک ہوگیا ہو،  اوربدن سوکھ کر کانٹا بن گیا ہو ، ملت اسلامیہ کی بھولی بھالی معصوم بیٹیوں کے ذریعے سے ـ "ـــــبھارت ماتا”کی تمثیلی مورتی کی آرتی اتار تے ہوئے پوجا کرائی جارہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بھجن کیرتن کے کچھ اشلوک ان معصوم بچیوں کے ذریعے سے ادا کروائے جارہے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔  معلوم ہوا ہے کہ ماضی میں بھی اس اسکول میں اس طرح کی غیر شرعی و غیر دستوری سرگرمیوں کے لئے (غالبا ً انتظامیہ و ارباب اقتدار سے مراعات یا مادّی فوائد حاصل کرنے کی غرض سے) ملت اسلامیہ کے نونہالوں اور معصوم بیٹیوں کا استحصال کیا جاتا رہا ہے۔

موجودہ پروگرام اور ماضی کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ارباب انتظام دانستہ یا غیر دانستہ ملت اسلامیہ کے مستقبل کے سرمایہ اور Asset کو ایک بوجھ اور Liability میں تبدیل کرنے کی اغیار کی سازشوں کو بروئے کار لانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔  اگر یہ کام غیر دانستہ طور پر محض ایک رسم کی انجام دہی کے لئے کیا گیا ہے (جیسا کہ ارباب انتظام و متعلقین ادارہ کا کہنا ہے)تب بھی یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے کہ کچھ گفت و شنید کے بعد لوٹ پیچھے کی طرف ائے گردش ایام کہ کر آگے بڑھ جایا جائے ۔  اور اگر یہ کام دانستہ طور پر چند مادّی فوائد کے حصول کے لئے کیا جارہا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ ارباب انتظام اپنے مفاد کے لئے ملت اسلامیہ کے مستقبل کے معماروں کو داؤ پر لگا رہے ہیں ۔

 ایسی صورت میں انہیں ذی شعور عوام، علماء کرام اورمفکرین قوم و ملت کی عدالت میں جوابدہ ہونا ہوگا۔ یہ بات دو اور دو چار کی طرح بالکل واضح ہے کہ انسان کی ذہنی،فکری اور مذہبی تربیت میںاسکول و مدرسہ کے تعلیمی ماحول کا بہت ہی اہم رول ہوتا ہے ، اگر وہ انسان شعور کے آغاز اور عمر کے ابتدائی دور میں ہو تو وہ تعلیمی ماحول اور اسکول و اساتذۂ اسکول کے ذریعے کروائی گئی ہر طرح کی سرگرمیاں اس کے کورے دل و دماغ پر پتھر کی لکیروں کی طرح انمٹ نقوش ثبت کرجاتی ہیں، غیر شرعی نظریات و افکار اور اس سے آگے بڑھ کر کہا جائے تو ہندو میتھالوجی اور شرکیہ عقائد کو تہذیبی و ثقافتی سرگرمی کے نام پر انجام دے کر یہ سمجھنا کہـ بخاری شریف کی پہلی حدیث میں کہا گیا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہماری نیت شرک کرنے یا کروانے کی قطعاً نہیں ہے، بلکہ ہم تو طلباء میں حب الوطنی اور قومی یکجہتی و ہم آہنگی کے فروغ کے لئے ایسا کر رہے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ یہ سوچ دراصل خرافات ہے، دیوانوں کی سی باتیں ہیں!  حرج ہی نہیں بلکہ بہت بڑا خسارہ ہے ،  ایک مسلمان کو ہمہ وقت غیر اسلامی نظریات و افکار اور غیر اسلامی و غیر شرعی سرگرمیوںسے گریز کرنا چاہئے، ورنہ انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا اوروہ لاشعوری طور پر دین سے برگشتہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اپنے تئیں یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں بالکل صحیح رخ پر جارہا ہوں۔

                معصوم بچیوں کو بھجن و کیرتن کی ریہرسل کروانے والے نیک نیت افراد ذرا غور تو کریں کہ حضرت عمر فاروق  ؓ جیسی جلیل القدر شخصیت جن کے متعلق خود رسالت مآب  ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے لیکن اب میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، جیسی شخصیت جب رسالت مآب  ﷺ کی مجلس میں توریت پڑھنے لگے تو آپ  ﷺ کا چہرۂ انور غصے سے سرخ ہوگیا،  تو کیا حضرت عمر ؓ  جیسی شخصیت کو توریت جیسی آسمانی کتاب سے (جو موجودہ توریت کی طرح مکمل تبدیل شدہ بھی نہ تھی)کوئی دینی یا مذہبی نقصان ہوسکتا تھا؟ لیکن ہمارے آقا رسالت مآب  ﷺ کی ناگواری کو ملاحظہ فرماکر فوراً پڑھنا چھوڑدیاتو اب کسی کا کیا منھ رہ جاتا ہے کہ وہ جو جی میں آئے پڑھنے یا پڑھانے لگے کہ نیت درست ہے تو حرج ہی کیا ہے ۔  اخیر میں یہ عاجز معزز والدین سے دست بستہ التماس کرتا ہے کہ خدارا!  اپنے بچوں کی تعلیمی صورت حال کا برابر جائزہ لیتے رہیں کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں، انہیں کیا پڑھایا جارہا ہے ؟ کس نوعیت کی سرگرمیاں ان کے ذریعے کروائی جارہی ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ سماجی و ثقافتی سرگرمی کے نام پر ان کے صاف و شفاف دل و دماغ میں غیر اسلامی افکار و نظریات کا زہر بھرا جارہا ہے، ورنہ بقول شاعر ظرافت مرحوم اکبر الٰہ آبادی :

دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے

تبصرے بند ہیں۔