دو روزہ قومی سمینار:عصر حاضر میں بچوں کا ادب اور ہماری ذمہ داریاں

ڈاکٹر عزیز سہیل

 سدی پیٹ کی سرزمین ادب کے اعتبار سے کافی زرخیز ہے۔یہاں وقفہ وقفہ سے اردو کے کامیاب کل ہند مشاعروں کا جناب مسکین احمد بانی انجمن محبان اردو سدی پیٹ کی جانب سے انعقاد عمل میں آتا رہا ہے ان کی کاوشوں سے اب تک 35کل ہند مشاعرے منعقد ہوئے ہیں۔ سدی پیٹ میں ادب کے سازگار ماحول بنانے میں مسکین احمد کا نمایاں کرداررہا ہے۔ تحریک فروغِ اردو کے روح رواں فخر الدین صاحب بھی اردو کے فروغ میں انتھک کوشش کوجاری رکھے ہوئے ہیں ان کے علاوہ اب سدی پیٹ میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر اردو کے ڈاکٹرسید اسرار الحق سبیلی کاڈگری کالج پرتقرر عمل میں آیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار الحق کو اردو دنیا بچوں کے ادب کے حوالے سے جانتی ہے۔

ڈاکٹرسید اسرار الحق نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے تعاون سے دوروزہ قومی سمینار’’عصر حاضر میں بچوں کا ادب اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘ عنوان سے یکم اور دو نومبر2017 کو عظیم الشان پیمانہ پرا انعقاد عمل میں لایا ہے۔یکم نومبربروز منگل کو صبح 11بجے دن گورنمنٹ ڈگری کالج سدی پیٹ میں شعبہ اردو کے زیر اہتمام دو روزہ قومی سمینارکا آغاز تلاوت قرآن سے عمل میں آیا۔ کالج کی طالبات نے حمد، نعت اور ترانہ ہندی پیش کیااس سمینار کی نظامت پرنسپل سرینواس ریڈی نے انجام دی۔ابتداء میں ڈاکٹر عبدالقدوس اسسٹنٹ پروفیسر اردو حسینی عالم ڈگری کالج حیدرآبادنے مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر اسرارالحق صدر شعبہ اردوو کنوینر سمینارنے خطبہ استقبالیہ پیش کیااور سمینار کے انعقاد کے مقاصد کو بیان کیا۔نائب پرنسپل ایم روی کمار نے سمینار کی اہمیت کو جاگر کیا۔ناظم سمینار نے غوث محی الدین موظف ٹیچر کو دعوت خطاب دی۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ تربیت اولاد کے ذرائع کے طور پر ادب کو بھی اہم آلے کے طور پر استعمال کیا گیا اور بچوں کے لئے ہمارے شعرا ء اور ادیبوں نے صالح ادب کی تشکیل کی ہے۔دور حاضر میں بچوں کے ادب پر بہت کم توجہہ دی جارہی ہے ضرورت ہے کہ بچوں کے ادب کے ذریعے بچوں کی تربیت ہو اور صالح معاشرہ کو تشکیل دیا جائے۔ ان کے بعد ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے خطاب فرمایا اور کہا کہ بچے کسی بھی قوم اور ملک کی امانت ہوتے ہیں لہذا اس امانت کا تحفظ ملک کے ہر فرد پر لازم ہے بچوں اور ان کی پرورش کے ساتھ ساتھ ان کی عمدہ ذہنی تربیت کی ذمہ داری بھی ضروری ہے۔

 ان کے بعد ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم سابق چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز اورینٹل اردو عثمانیہ حیدر آبادنے خطاب کیا اور کہا کہ بچوں کا ادب تحریر کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے اس کی وجہہ سے اردو ادب میں بچوں کے ادب پر عصر حاضر میں بہت کم لکھا جارہا ہے اس پر غور وفکر کی ضرورت ہے ہم اپنے علمی، ادبی اور تہذیبی سرمایہ کو ادب کے ذریعے نسل نو میں منتقل کرسکتے ہیں اس کے لئے منصوبہ بندی اور لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا اور بچوں کے ادب سے متعلق شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ناظم سمینار نے پروفیسر مجید بیدارسابق صدر شعبہ عثمانیہ حیدرآباد کو دعوت خطاب دیا، انہوں نے اپنے میں خطاب کہاکہ بچوں کے ادب میں نظمیں، گیت، اخلاقی کہانیاں، تاریخی کہانیاں، مذہبی کہانیاں ‘پریوں کی کہانیاں ‘اخلاقی مضامین، سیرت،ڈرامے، مزاحیہ مضامین اور لوریاں وغیرہ شامل ہیں غرض ہرتخلیق جو بچوں سے متعلق تخلیق کی جائے تو وہ بچوں کاادب کہلاتی ہے۔ نظیر اکبرآبادی کواردو ادب کا اولین عوامی شاعر کہا جاتاہے، جنہوں نے بچوں کے ادب پر بہت ساری اہم نظمیں لکھیں۔

عصر حاضر میں بچوں کے ادب کا فقدان ہے بچوں کی تعلیم وتربیت کے پیش نظر ادب تخلیق کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس سمینار کا کلیدی خطبہ جنوبی ہند کے مقبول عام شاعر جو بچوں کی نظمیں تخلیق کرکے ملک گیر سطح پر پہچان بنائی ہے جن کو اردو دنیا حافظ کرناٹکی کے نام سے جانتی ہے انہوں نے اپنے کلیدی خطاب میں کہاکہ دنیا کے کسی بھی ملک اور قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ بچے ہوتے ہیں بچے نہ صرف یہ کہ ملک وقوم کی سر بلندی کا ذریعہ ہوتے ہیں بلکہ نوع انسانی وقار کے ضامن بھی ہوتے ہیں۔

 تعلیم وتربیت سے بچوں کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے انہوں نے زور دیا کہ والدین اور اساتذہ پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس پر خصوصی توجہہ کی ضرورت ہے تاکہ نسل نوکی صحیح خطوط پر تعمیر ہو لہذا ادب اطفال عصر حاضر کی اہم ضرورت ہے انہوں نے اپنی نظموں کے منتخبہ اشعار کو سنایااور ایک خوبصورت سماع باندھ دیا۔اس سمینار میں بحیثیت مہمان خصوصی روز نامہ ’سیاست‘ کے مدیر اعلیٰ جناب زاہد علی خاں نے شرکت کی اور اپنے خطاب میں کہا کہ بچوں کی پہلی درسگاہ ماں باپ ہیں اور ان کے ہرعمل پر بچوں کی تربیت و نشوونما ہوتی ہے۔ بچوں کو آداب زندگی کیلئے اردو زبان کا جاننا ضروری ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کو اردو زبان سے باشعور بنائیں کیونکہ اردو زبان سیکھنے اور پڑھنے سے بچوں کو ادب و تہذیب کا ذخیرہ ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماں باپ بھلے ہی آج بچوں کی ترقی کیلئے انگریزی میڈیم میں پڑھارہے ہیں لیکن یہ سوچ غلط ہے کیونکہ عثمانیہ یونیورسٹی میں تعلیم کا آغاز اردو سے ہوا اور اس یونیورسٹی میں ڈاکٹر مری چناریڈی، راج بہادر گوڑ، اے مدن موہن جیسی نمایاں ہستیاں تعلیم حاصل کرکے ریاست ہی نہیں بلکہ ملک میں اپنا نام روشن کیا ہے، انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل اردو زبان سے عدم واقفیت کی بناء پر اسلاف کی تاریخ اور تہذیب و تمدن کو بھلا بیٹھی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بچوں کو تاریخ سے واقف کروانا بے حد ضروری ہے کیونکہ ہماری تاریخ کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آج دور سائنس اور ٹکنالوجی کے عروج کا دور ہے جو بچوں کی نشوونما میں معاون ہے۔ اچھی کتابیں پڑھنے کا ذوق بڑھائیں۔

 بچوں میں بہتر ادب سے اپنی زندگی کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کو بھی بہتر بناسکتے ہیں۔ بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کے ساتھ ساتھ ادب و صحافت اور علوم و فنون کی دلچسپی بڑھائیں۔ اس پروگرام میں رکن قانون ساز کونسل فاروق حسین صاحب نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی اور اپنے خطاب میں کہا کہ اردو زبان کی ترقی کیلئے اردو کو روزگار سے مربوط کرنا ضروری ہے جس کے لئے تلنگانہ حکومت اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی تعلیمی کمزوری کو جانتے ہوئے اقلیتوں کے ہمدرد چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ریاست تلنگانہ میں بڑے پیمانے پر اقلیتی اقامتی مدارس قائم کئے اور اس میں اقلیتی بچوں کو کارپوریٹ طرز پر مفت تعلیم دی جائے گی۔ انہوں نے روز نامہ ’سیاست‘ کی جانب سے اردو زبان کی ترقی اور شعور بیداری میں ادارہ کا نمایاں کارنامہ بتایا۔

اس افتتاحی تقریب میں سمینار کے سوانیئر کافاروق حسین صاحب ایم ایل سی کے ہاتھوں اجراء عمل میں آیا۔ڈاکٹر سید الحق سبیلی کی تصنیف ’’بچوں کے ادب کی تاریخ ‘‘ کا بھی رسم جراء عمل میں آیا۔مہمانوں کو منتظمین کی جانب سے تہنیت پیش کی گئی۔ افتتاحی تقریب میں محمد سراج الدین  چیرمین اسلامیہ کالج آف ایجوکشن، محمد خورشید حسین چیرمین میدک کالج آف انجینئرنگ، محمد پرویز،جناب فخر الدین نے بھی خطاب فرمایا۔میرے تجربہ کے مطابق اس سمینار میں تلنگانہ میں منعقد ہونے والے اردو سمیناروں میں سب سے زیادہ شرکاء شریک تھے نہ صرف یہ کہ اس سمینار کا ابتدائی سیشن اپنی طوالت کی وجہہ سے تاریخی ریکارڈ رہا۔

ظہرانہ کے بعد دو ٹکینکل اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا جس میں نظامت کے فرائض ڈاکٹر جہانگیر اور ڈاکٹر عبدالقدوس نے انجام دئے مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر نثاراحمد ایس وی یونیورسٹی تروپتی، ستار فیضی کڑپہ، ڈاکٹر عزیز سہیل محبوب نگر،ڈاکٹر سید سلطان محی الدین ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کرنول، ڈاکٹر حامد مہتاب، محمدخوشتر،ساجدممتاز،انصار احمد،غوثیہ بانو،محمد عبدالوحید،حیدر بیابانی، آفاق عالم صدیقی،ڈاکٹر عبدالقدوس،ابوہریرہ یوسفی،حیدرآباد،ڈاکٹر دانش غنی رتناگیری،سلمان عبدالصمد جے این یو،امیرحمزہ دہلی یونیورسٹی ودیگر نے مقالات پیش کئے۔ اجلاس کی صدارت پروفیسر مجید بیدارو جناب رحیم نشتر اور دوسرے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر سید فضل اللہ مکر م و ڈاکٹر معید جاوید نے فرمائی۔پہلے دن بچوں کے مشاعرہ کا انعقا د عمل میں لایا گیا۔

سمینار کے دوسرے دن پہلے ٹکنیکل سیشن کا انعقاد عمل میں لایا گیا جس کی صدارت بچوں کے عظیم شاعر جناب حیدر بیابانی نے کی۔ اس سیشن میں مقالات پیش کرنے والوں میں محمدشاہد الرشید لیکچرر چیتنیہ ڈگری کالج سدی پیٹ‘ڈاکٹر جعفرجری‘ڈاکٹرابرار الباقی اسسٹنٹ پروفیسرس شاتاواہانہ یونیورسٹی کریم نگر‘ محترمہ رضوانہ بیگم معلمہ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول سدی پیٹ، گورنمنٹ ڈگری کالج سدی پیٹ کی طالبات آفرین، مہرالنساء اور گورنمنٹ گرلز جونیئر کالج سدی پیٹ کی کئی طالبات نے بچوں کے ادب سے متعلق مختلف عنوانات پر مقالات پیش کئے جبکہ ڈاکٹرگوپال سدرشن‘جناب اے وی شرما اور محترمہ معراج فاطمہ لیکچررس گورنمنٹ ڈگری کالج سدی پیٹ نے بچوں کے ادب پرانگریزی میں مقالات پیش کئے۔

بچوں کے شاعر حیدربیابانی نے اپنے صدارتی خطاب میں بچوں کی شاعری پرروشنی ڈالی اورطلبا وطالبات کو ان کی شاعری کے بیش بہا خزانے سے استفادہ کرنے کی ترغیب دی۔ مقالات کی نشست کے بعد قومی سمینار کی اختتامی تقریب کا آغاز ہوا۔ جس کی صدارت کالج کے پرنسپل اے سرینواس ریڈی نے کی اور بحیثیت مہمانان خصوصی ڈاکٹرعبدالرحیم نشتر‘ڈاکٹردانش غنی اورحیدربیابانی نے شرکت کی۔ کالج کے پرنسپل نے اپنے صدارتی خطاب میں ادب طفال کے ذریعہ اپنے تہذیبی ورثہ کی حفاظت پرزوردیا۔ مہمان خصوصی ڈاکٹرعبدالرحیم نشتر نے دوروزہ قومی سمینار کے شاندار انعقاد پر اہلیان سدی پیٹ اورکالج کے اساتذہ کی تعریف وتوصیف کی۔ انہوں نے تمام مقالات کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی ستائش کی اور امید ظاہر کی کہ یہ مقالات کتابی شکل میں بچوں کے ادب میں ایک دستاویز ثابت ہوں گے۔ بچوں کے شاعر حیدر بیابانی نے جن کی کئی نظمیں تلنگانہ کی درسی کتب میں شامل ہیں۔

 اسکول کے طلبا وطالبات کواپنی نظمیں پڑھ کرسنائی۔ رتنا گری سے آئے ہوئے ڈاکٹردانش غنی اسسٹنٹ پروفیسرنے اپنے خطاب میں بچوں کوادب اطفال کے مطالعہ کی ترغیب دی۔ انہوں نے مثال دے کرکہاکہ دوروز سے بچوں کے ادب کی اہمیت‘ افادیت اور خصوصیت پرروشنی ڈالی گئی اگر صرف سیب کی تعریف بیان کی جائے اور اس کو کھایا نہ جائے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔لہذا ہمیں بچوں کے ادب کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

برزگ محقق جناب سید غلام علی بیابانی نے اپنے تاثراتی بیان میں کہاکہ بچوں کا ادب تحریر کرنے والے بہت ہیں لیکن بچوں کے ادب پر تحقیق کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹرخوشحال زیدی‘ ڈاکٹرسیدہ مشہدی‘ڈاکٹرزیب النساء بیگم ارڈاکٹر سید اسرار احق سبیلی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹرسبیلی تحقیق میں بہت بعدمیں آئے اور بہت جلد اپنی انتھک محنت اورجستجوسے بچوں کے ادب پرتحقیق میں ایک مقام حاصل کرلیا۔ بچوں کے ادب کی تحقیق پر ان کی دوکتابیں اورکئی مقالات شائع ہوچکے ہیں۔

ڈاکٹرسید اسرار الحق سبیلی نے اپنے اختتامی خطاب میں بچوں سے مخاطب ہوکر کہاکہ جن شاعر وادیب کوآپ اپنی درسی کتب میں پڑھاکرتے تھے آج وہ آپ کے سامنے موجود ہیں۔ انشاء اللہ جلد ہی بچوں کے تمام اہم شاعروں کوسدی پیٹ میں جمع کرکے عظیم الشان طریقہ پربچوں کا کل ہند مشاعرہ منعقدکیاجائے گا۔ آخر میں بچوں کے شاعر ‘ادیب‘تنقید نگار‘ مہمانان خصوصی‘ ومعززین شہر اور کالج اوراسکول کے اساتذہ کی شال پوشی کی گئی اور انہیں مومنٹوپیش کیاگیا۔ محمدشاہدالرشید کے شکریہ پر دو روزہ قومی سمینار کا اختتام عمل میں آیا۔

تبصرے بند ہیں۔