نوٹ بندی کے معاشی اثرات

عبدالقوی عادل

ماہرین معاشیات کے مطابق انسان اپنے سرمایے کے ایک بڑے حصے کونقد کی شکل میں رکھنے کو ترجیح دیتا ہے جس سے اس کی بہت سی موجودہ، ہنگامی اور متوقع ضرورتیں وابستہ ہوتی ہیں اور اس کا حصول اس کے اعتماد کو بحال کرتا ہے، مگر یہ حصول اس وقت وبال جان بن گیا جب 8نومبر 2016 کی رات ہندوستان کے نچلے اور متوسط طبقے کی عوام کی زندگی میں ایسی سیاہی لائی جس کے چھٹنے میں ایک عرصہ گزر گیا. ملک کے وزیر اعظم نے بڑے ہی جوش و جذبے کے ساتھ کالے دھن اور جعلی کرنسی جیسے ملک کے ناسور کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا اور اس کا علاج نوٹ بندی کی شکل میں پیش کیا یہ قدم ایک حد تک قابل ستائش ہے لیکن اس کے اثرات جو گزشتہ دنوں میں دیکھے گئے وہ علاج کم زخم زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔

دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بڑے فیصلے سے قبل اس کے نفاذ کی صورتوں پر غور کیا جائے اور اس کے لیے راہیں ہموار کی جائیں اور اس کے پس پردہ پیش آنے والے مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور ان مسائل کا حل بھی محل نظر رکھا جائے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی نظر صرف فیصلے کے نفاذ پر تھی نہ کہ اس کے نتائج اور اس کے باعث پیش آنے والی دشواریوں پر ساتھ ہی انتظامیہ نے نئی کرنسی کی فراہمی کے ذرائع کو یکسر پس پشت ڈال دیا جس کے سبب بینک اور اے ٹی ایم عوام کی ضرورت کے مطابق نئی کرنسی مہیا کرنے سے قاصر رہے نتیجتاً نوٹ بندی کے اس فیصلے نے عوام کو مختلف دشواریوں میں مبتلا کردیا. آئیے ہم نوٹ بندی کا کچھ تجزیہ پیش کرتے ہیں جس سے اس کے اثرات کو سمجھنے میں کچھ سہولت ہو.

نوٹ بندی کے اعلان کے وقت اس کا ایک اہم مقصد جو بیان کیا گیا وہ کالے دھن کی روک تھام اور اس کو گرفت میں لینا تھا لیکن شاید حکام اس بات سے بے خبر تھے کہ کالا دھن صرف کرنسی کی شکل میں نہیں ہوتا بلکہ کالے دھن کا بڑا حصہ مادی اثاثوں ، یعنی سونا، زمین، عمارات اور دیگر جائداد و دستاویز کی شکل میں ہوتا ہے اس کے علاوہ شیئر مارکیٹ اور غیر ملکی کرنسی کی شکل میں بھی ہوتا ہے. اب نوٹ بندی کی وجہ سے کتنا کالادھن قبضے میں آیا یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کتنا کالادھن ہمارے ملک کی کرنسی بالخصوص 500 اور 1000 کے نوٹ کی شکل میں موجود تھا.

نوٹ بندی کا دوسرا بڑا مقصد یہ بتایا گیا کہ اس سے جعلی کرنسی کی معیشت میں گردش پر مہر لگے گی  مگر یہ بات بھی اگر ذہن میں رکھی گئی ہوتی تو بہتر ہوتا کہ جس چیز کی شکل و صورت اور پہچان لوگوں کی نظروں میں نمایاں نہیں ہوتی اس کی جعل سازی اور کہیں زیادہ آسان ہوتی ہے. یہی وجہ ہے کہ ایک بڑی تعداد میں جدید جاری کردہ کرنسی کی جعلی نوٹیں گردش کرتی نظر آرہی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ بینکوں کے ملازمین بھی اصلی اور جعلی کرنسی میں تمیز کرنے سے معذور ہیں جس کے باعث دہلی میں اے ٹی ایم سے دوہزار کے جعلی کرنسی نکلنے کے واقعات سامنے آئے ہیں مزید یہ کہ جعلی کرنسی کے سلسلے میں حکومت کا یہ دعوٰی اس وقت خارج ہوگیا جب 97 فیصد سے زیادہ کرنسی بینکوں میں واپس آگئی جبکہ بعض اندازوں کے مطابق حکومت کی طرف سے جاری کی گئی کرنسی سے زیادہ کرنسی بینکوں میں جمع کی گئی.

تیسرا بڑا مقصد یہ بتایا گیا کہ کرنسی کی قلت سے عبور پانے اور اس پر عوام کا انحصار ختم کرنے کے لیے ایک نقد سے مبرا لین دین والی معیشت کا قیام عمل میں لایا جائے لیکن حکومت کا یہ دعوٰی بھی بے بنیاد ثابت ہوا، جب ہم زمینی حقیقت پر بات کرتے ہیں تو آج بھی دنیا کی 37 فیصد ناخواندہ آبادی صرف ہندوستان میں ہے جن کا انٹرنیٹ اور جدید ذرائع تجارت سے دور کا بھی کوئی رشتہ نہیں ہے مزید یہ کہ 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی 34 فیصد آبادی ہی انٹرنیٹ کا استعمال کرتی ہے اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی سروس اور اس کی اسپیڈ بھی قابل غور ہے جب کہ نقدی لین دین سے پاک معیشت کا دارومدار صرف اور صرف انٹرنیٹ پر ہے جو کہ اپنے آپ میں cyber crime کی راہیں واں کیے ہوئے ہے اور اس کی ایک بڑی مثال 16 اپریل 2017 کے The Hindu اخبار کے سرورق پر ملتی ہے جس کے مطابق جولائی 2016 میں تقریباً 171 ملین ڈالر یونین بینک سے غیر ملکی کھاتوں میں سائبر کرائم کے باعث منتقل ہوئے حالانکہ انتظامیہ کے بروقت حرکت میں آجانے کی وجہ سے اس رقم کی تلافی ہوچکی ہے.

ملکی سطح پر لیے گئے حکومت کے اس فیصلے کے متعلق خواہ کتنے ہی پروپیگنڈے کیے گئے ہوں لیکن زمینی حقائق سے اس کے جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں وہ اس کے برعکس ہیں . نوٹ بندی کے اس فیصلے نے ہر طبقے کو بری طرح سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اس نے نہ صرف کچھ وقت کے لیے پوری معیشت کو جامد کرکے رکھ دیا بلکہ ہندوستانی معیشت کو مندی کے دور میں بھی داخل کردیا.

اعداد و شمار کے مطابق 1000 اور 500 کی کرنسی روزمرہ کے لین دین میں استعمال ہونے والی کرنسی کے 86 فیصد کرنسی کا احاطہ کیے ہوئے تھی جس کی وجہ سے روزمرہ کے استعمال میں آنے والی اشیاء کی خرید و فروخت یا طلب میں کمی آئی اور طلب کی کمی نے رسد کی شرح میں گراوٹ پیدا کی ہے. نتیجتاً ملک کی آمدنی اور روزگار میں بھاری گراوٹ اور غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے.

نوٹ بندی کا خاصہ اثر مزدور طبقے پر یوں پڑا ہے کہ جو اجرت انہیں نقدی شکل میں ملتی تھی کرنسی کی قلت کی وجہ سے وہ اپنی نقدی اجرت سے فوری طور پر محروم ہوگئے، دوسری طرف فیکٹریوں اور فرم میں جہاں ملازمین کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے وہاں کرنسی کی قلت کی وجہ سے ملازمین کی تعداد میں کمی کی گئی جو کہ بے روزگاری میں اضافہ کا باعث بنا.

اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب صارف کی آمدنی میں کمی آئی اور اس نے اپنی طلب کو محدود کیا جس کی وجہ سے کھپت میں کمی آئی اور نتیجتاً پیداوار میں بھی کمی آئی جس کے منفی اثرات ملکی آمدنی پر نمایاں ہوئے، آمدنی میں کمی کا ایک منفی اثر سرمایہ کاری پر بھی پڑا ہے(جس کے باعث ملک کی GDP زوال پذیر ہوئی ہے).

طلب اور کھپت میں کمی کے باعث صنعتی اشیاء کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے اور اس کے پہلو بہ پہلو ان اشیاء کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے جس سے سرمایہ کاری مزید متاثر ہوئی ہے. لیکن اس کا ایک مثبت اثر بینک کی ڈپازٹ اور سود کی شرح پر بھی پڑا ہے یعنی بینک کی ڈپازٹ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور سود کی شرح میں کٹوتی ہوئی ہے. جوکہ سرمایہ کے لیے خوش کن ثابت ہوگی.

ہمارے ملک کی تقریباً 50 فیصد سے زیادہ معیشت چھوٹے پیمانے پر کیے جانے والے کاروبار پر مشتمل ہے جن کے تمام کاروباری معاملات 1000 اور 500 کی ہی کرنسی میں طے پاتے تھے، نوٹ بندی کی وجہ سے اس طبقہ کی معاشی حالت میں بھی حد درجہ گراوٹ آئی ہے.

ہندوستانی معیشت حقیقتاً ایک زرعی معیشت ہے اور یہاں کی زراعت کا اس کی GDP میں ایک بڑا حصہ (%14) ہے اور تقریباً 50 فیصد روزگار کا دارومدار بھی اسی پر منحصر ہے، نوٹ بندی کا اس حلقہ پر اس طرح اثر پڑا، چونکہ کسان اور غریب طبقہ عموما جدید ذرائع لین دین سے ناواقف ہے اور ان کے تمام معاشی معاملات نقدی شکل میں ہی ہوتے ہیں لہذا اس سے زرعی پیداوار اور اس سے وابستہ اشیاء کی خرید و فروخت میں کمی آئی ہے مزید اس کی آمدنی اور روزگار بھی بری طرح متاثر ہوا ہے.

نوٹ بندی کا ایک مثبت اثر حال ہی میں ہوئے اسمبلی انتخابات پر بھی پڑا ہے چونکہ اترپردیش اور پنجاب جیسے صوبوں میں ووٹ حاصل کرنے کا ایک رائج طریقہ کار Donation بھی ہے جس کے لیے سیاسی پارٹیاں نقدی کی ذخیرہ اندوزی بھی کرتی ہیں جوکہ ایک غیر منقولہ زر کی شکل میں ہوتی ہے لہذا یہ فیصلہ ان کی الیکشن کیمپین پر بھی اثر انداز ہوا ہے.

مختصراً یہ کہ اگر نوٹ بندی کے اس فیصلے کا عمومی جائزہ لیا جائے تو اس فیصلے سے سہولتوں سے زیادہ دشواریاں ہی آئی ہیں . حکومت کے اس فیصلے نے ہندوستانی معیشت کو ایک لمبے عرصے کے لیے ساکن و جامد کرکے رکھ دیا ہے، ایک بڑے طبقے سے اس کا روزگار چھین لیا ہے، لوگوں کو خود ان کی محنت کی کمائی کی خاطر صفوں میں دھکے کھانے پر مجبور کر دیا، صنعت و حرفت کو پستی کی جانب گامزن کردیا مزید یہ کہ اس فیصلے نے عوام کا اعتماد خود ان کی محنت و مشقت سے حاصل کی ہوئی کمائی سے اٹھا دیا، جدید ٹیکنالوجی کا پروپیگنڈہ بھی بے سود ثابت ہوتا نظر آرہا ہے، یہ تمام نتائج اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ اپنے اندر معاشی ترقی سے زیادہ سیاسی مفاد کی عکاسی کررہا ہے چونکہ حکومت میں زیر اقتدار سیاسی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد دوسرے ممالک میں موجود کالے دھن کو واپس لائے گی علاوہ ازیں ملک کے ہر شہری کو پندرہ پندرہ لاکھ روپیہ دیا جائے گا لیکن حکومت اپنے یہ دونوں وعدے تو پورے نہ کرسکی البتہ اسی ضمن میں نوٹ بندی کا اعلان کرکے  عوام کو اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ حکومت کالے دھن کے سلسلے میں کیے گئے اپنے وعدے پر کاربند ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔