حضرت ابو ذر غفاریؒ

راحت علی صدیقی قاسمی

  قبیلہ غفار کا بانکا، سجیلا، بہادر نوجوان رملہ بنت ربیعہ کا لعل اس کا اسم گرامی جندب ہے۔ کنیت ابوذر۔ قبیلہ غفار کا باشندہ، آسمان شہرت پر ابوذر ہی نقش ہے، جس کے رگ و پے میں شجاعت و بہادری دلیری و چستی پیوست ہے، چاق و چوبند ہے۔ قبیلے کی روایتوں کا پاس دار ہے بزرگوں کے طرز عمل کا پیرو ہے، قوم کی خوشی کا باعث ہے۔ قبیلہ کے ہر فرد بشر کی آنکھ کا تارا ہے۔ ہر شخص اس کی بہادری کی داد دیتا ہے۔ روشن مستقبل کی ضمانت دیتا ہے، قبیلہ غفار کے روایتی طرز عمل پر پوری طرح کاربند ہے، غفار کے راستے سے گذرتے قافلوں کو لوٹنے والے دستہ کا معتبر فرد ہے، قبیلہ کی معاشی ترقی کا علمبردار ہے، کوئی قافلہ اس سے چوک جائے۔ بوڑھیوں کی سسکیاں اس کو رنجیدہ کردیں۔ بچوں کی معصومیت اس کے قلب پر اثر انداز ہو جائے۔ تاریخ کے صفحات اس کے ابتدائی دور کا جو نقشہ پیش کرتے ہیں اس نقشہ پر اس طرز کی کوئی لکیر ابھری ہوئی نظر نہیں آتی۔

زندگی کے اس مرحلہ میں بزدلی، رحم دلی، عفو کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی، پوری جرأت و بے باکی کے ساتھ اپنی کوشش و کاوش میں مصروف رہتا ہے، عرب قبائل کی دولت پر ہاتھ صاف کرتا ہے۔ ان کی ناک میں دم کردیتا ہے، دنیا کی بہادر ترین قوم سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کا نقطۂ آغاز یہی ہے۔ ان کی جوانی کی ابتدا یہی ہے اور یہی ان کی ہدایت و راہ یابی کا پیش خیمہ ہے، فطرت سلیمہ کے جوش میں آنے کا ذریعہ ہے، خداوند تعالیٰ ان کے قلب کو حقائق پر مطلع کرنا چاہتے ہیں ، قوم کی بداخلاقیوں چیرہ دستیوں سے انہیں باخبر کرنا چاہتے ہیں ، قوم کے لالچ حرص و طمع سے معترف کرانا چاہتے ہیں ، منشاء خداوندی ظاہر ہوتا ہے۔

 قوم اشہرحرم کی عزت و حرمت پامال کرتی ہے، اس کے وقار کی دھجیاں اڑا دیتی ہے، ان مہینوں میں بھی لوٹ کوروا رکھا جاتا ہے، قبائل کی گذر گاہ کو مامون نہیں کیا جاتا، ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا قلب اس شدت کو برداشت نہیں کرتا، فطرت سلیمہ پر پڑے پردے چاک ہو جاتے ہیں ، کفر و شرک کی گرد لمحہ بھر میں صاف ہو جاتی ہے، آپ کا قلب موتی کی طرح چمک اٹھتا ہے، شرم و ندامت کے احساسات قلب پر مرتسم ہوتے ہیں ، خدائے واحد کے پرستار ہوجاتے ہیں ، اثبات حق کے باعث قوم سے نبرد آزما ہوتے ہیں ، اشہرحرم کی عزت کا حوالہ دیتے ہیں ، حق پر عمل کرنے کے انعام میں وطن عزیز کو چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں ، تلاش حق کی جستجو دریائے قلب میں موجزن ہے جو شدت کل تک قلب میں تھی آج بھی وہی ہے طرز بدل چکا، کل جو بہتر خیال کرتے تھے، آج اسے کمتر گردان رہے ہیں۔ کل قبیلہ لوٹنا سب سے اہم اور پسندیدہ مشغلہ تھا، آج وہ سب سے زیادہ مبغوض ہے، وطن عزیز سے نکل کھڑے ہوتے ہیں ، ماموں کے گھر قیام کرتے ہیں ، حاسدین کی تدبیریں یہاں سے بھی کوچ کرنے پر مجبور کردیتی ہیں ، رخت سفر باندھتے ہیں ، مکہ کے قریب خیمہ زن ہوجاتے ہیں ، قلب میں حق کی قندیل روشن ہوچکی ہے، اس کی روشنی نے روح کو جگمگا دیا ہے، البتہ ابھی آفتاب ہدایت کی روشنی سے محروم ہیں۔

 اطاعت رسول و حقیقت توحید سے محروم ہیں ، پر قلب فطرت سلیمہ کا خوگر بن چکا ہے، مکہ سے قربت ہوئی تو آفتاب ہدایت کی کرنوں کی تمازت کا احساس ہونا یقینی تھا، آپ کی رسالت کے قصوں کا کانوں تک پہنچنا یقینی تھا، چنانچہ مکہ سے گذرتے قافلوں کی گفت و شنید نے طبیبِ دل کی شخصیت سے متعارف کرا ہی دیا، علم ہو گیا کائنات میں ایک شخص خدائے واحد کی عبادت کی دعوت دیتا ہے، دل کی دنیا میں ہلچل ہوگئی، قلب پر یہ کیفیت طاری ہوئی اڑ کر اس عظیم الشان ہستی کا دیدار کریں اور دل کی کیفیات اس پر وا کردیں ، مگر ادھر بھائی انیس شاعری کے مقابلے میں بکریوں کا ریوڑ جیت چکے تھے، انہوں نے مکہ جانے کی خواہش کا اظہار کیا ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بکریوں کی دیکھ بھال پر مامور کیا۔

 آپ نے بھائی کو اجازت دے دی، قلب میں نہ جانے کیا کیا حسرتیں پیدا ہوئی ہوں گی، کیا کیا خیال آئے ہوں گے، کیا کیا تمنائیں انگڑائیاں لے رہی ہوں گی، مگر ان سب کو برداشت کرتے ہوئے، بھائی کو ہدایت کی حقیقت حال سے باخبر ہو کر آنا، ایک خدا کی طرف بلانے والے کے متعلق معلومات کرنا، چنانچہ انیس گئے، واپس لوٹے ادھر انتظار میں نگاہیں بے چین، قلب پتھر، زبان شکوہ کناں ، انیس تم نے بہت وقت لگایا، کیا خبر لائے ہو وہ شخص کیسا ہے، انیس نے درد دل کا سامان عطا کیا اور یوں گویا ہے، لوگ کاہن کہتے ہیں وہ کاہن نہیں ہیں ، لوگ شاعر کہتے ہیں وہ شاعر نہیں ، وہ یقیناً سچا ہے،حضرت ابو ذر غفاری مکہ کی جانب محمد رسول اللہ کی تلاش و جستجو میں نکلے اور مکہ میں تیس دن گذارے، کائنات کی نورانیت کو تلاش کرنے میں بھوکے پیٹ، زاد سفر چند دنوں میں ختم ہوگیا، تلاش رسولؐ میں رات و دن سفر کیا، مکہ کی گلیوں کی خاک چھانی، مار جھیلی، تکلیف اٹھائی، زم زم کے علاوہ کچھ بھی میسر نہیں تھا، اس سے پیٹ کی آگ بجھاتے اور قلب کے بھڑکتے شعلے کو تسکین بخشنے کے لئے ہدایت کی ابر باراں کو تلاش کرنے نکل پڑتے، صورت حال کی ترجمانی کے لئے فیض کا یہ شعر کافی ہے:

پھر نکلا ہے دیوانہ کوئی پھونک کے گھر کو

کچھ کہتی ہر راہ ہر اک راہگذر سے

تیس دن آپ کی یہی صورت حال تھی، دن بھر مکہ کی گلیوں میں آفتاب ہدایت کو تلاش کرتے، رات کو حرم میں لیٹ جاتے۔ ایک مرتبہ پوچھا تو شدید مار کھائی، قصہ مختصر ہادی عالمؐ سے ملاقات ہوئی، ابوبکر ساتھ، جی چاہتا تھا فوراً ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں ، لیکن ابوبکرؓ نے اپنا مہمان بنایا اور یہ جدائی کتنی بار تھی اس کا اندازہ لفظوں میں کہاں بیاں کیا جاسکتا ہے، جذبات ایک عالم اکبر، الفاظ کی دنیا چھوٹی سی، بے چینی کے عالم میں رات گذاری اور پھر علاج درد دل کی جستجو میں نکل پڑے، حضرت علیؓ کے ذریعہ منزل مقصود کو پہنچے اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئے، قرآن کی ایک صورت ہی آپ کے دل کی دنیا بدلنے کے لئے کافی ہوگئی، یا یوں کہوں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ بدلی ہوئی دنیا پر مہر ثبت کرنے کے لئے کافی ہوگئی، آپ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے غلام ہوگئے، آپ اپنی قوم کو دعوت دینے کی ہدایت دی، تو چل پڑے، پھر رک کر سوال کیا، کیا آپ اس خیال سے بھیج رہے ہیں کہ لوگ مجھے تکلیف دیں گے، حضرت ابوذرؓ نے اپنی محبت کا ثبوت پیش کیا اور خانہ خدا میں کلمۂ حق بلند کیا، اس کی پاداش میں پیٹے گئے، دوسرے دن بھی یہی طرز عمل جاری رہا، پھر پیٹے گئے اور رسول اللہ سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے، ابوذر ڈرتا نہیں ، بزدل نہیں ، اگر آپ کا حکم نہ ہوتا کبھی نہ جاتا، پھر حکم خداوندی کی دعوت و تبلیغ میں مشغول ہوگئے۔

 بھائی کو حق کی دعوت دی، والدہ کو لا الٰہ الا اللہ کا کلمہ پڑھایا اور یہ مختصر جماعت اشاعت حق میں مصروف ہوگئی، آنے جانے والے قبیلوں کو پکڑتے جو حق کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا اسے جانے دیتے، باقی کو خالی ہاتھ روانہ کرتے، ذہنوں میں سوال پیدا ہوسکتا ہے، مال کی خاطر لوگ کلمہ پڑھتے ہوں گے، تاریخ شاہد جس شخص نے آپ کے ہاتھ پر کلمہ پڑھا، پھر کبھی اس کلمہ سے نہیں پھرا اور پوری زندگی اس کی پاسداری کی۔ ابوذرؓ انتہائی کامیاب داعی ثابت ہوئے، آپ کی دعوت پر قبیلۂ غفار اور اسلم ایمان میں داخل ہوا اور بشارت رسول کا مستحق قرار پایا، ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوری زندگی دعوت تبلیغ کے لئے وقف کردی تھی، ہر پل ہر لمحہ خدا کے دین کی اشاعت میں مصروف رہتے تھے، مجمع دیکھتے ہی بیتاب ہواٹھتے تھے، رسول اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ مناظر حسن گیلانی نے ان کے الفاظ نقل کئے ہیں :

 ’’اگر ابوذر کی اس آگ گلو پر تلوار کی دھار بھی رکھ دی جائے اور کسی سچی بات کی تبلیغ اس سے رہ گئی ہو تو وہ اسے ضرور نافذ کرے گا۔‘‘ (مسند احمد حضرت ابوذر غفاری 170)

 یہ جذبہ پوری زندگی باقی رہا، جو رسول پاک سے سنا اس کی تبلیغ ایک لمحہ بھی کسل سے کام نہیں کیا، تکلیفیں جھیلیں وطن چھوڑا، برائیاں جھیلیں ، رسالت حق مآب کا فرمان زندگی بھر لوگوں کے سامنے پیش کرتے، عشق و محبت کی نایاب مثالیں پیش کیں ، رسول پاک کی اتباع کا حق ادا کیا اور دعوت و ارشاد کے فریضہ کو پوری طرح انجام دیا، اصحابی کالنجوم کی عملی تفسیر پیش کی، آنے والی نسلوں کے لئے نقش پا چھوڑے جو جنت کے راستہ اور رضائے الٰہی کا ذریعہ ہیں ، اس راستہ کی پیروی کامیابی ضمانت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔