دہشت گردانہ حملے :ان کے پیچھے کون ہوسکتاہے؟ علاج کیاہے؟

 ڈاکٹرمحمد غطریف شہبازندوی

بلیجیم یوروپ کا ایک نسبتاً چھوٹا ملک ہے۔ حال ہی میں اس کے مشہور شہربرسلزکے ائیرپورٹ پرہوئے سلسلہ واردہشت گردانہ حملوں نے جہاں تین درجن معصوموں کی جان لی اورسیکڑوں کوزخمی کیا وہیں انہوں نے مغرب میں بڑھتے جارہے اسلاموفوبیاکی لہرمیں اوراضافہ کردیا۔ یہ حملے جہاں ہوئے اس کی قریبی کالونی sent jans Molenbeek میں عرب اورمسلمان بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ اوراب ان کی آبادی کوبروسلیزکے لوگوں کے غصہ کا سامناہے۔ بروسلز کے ان حملوں کا مجرم بقراوی برادرز(براہیم اورخالدالبقراوی )کومان لیا گیاہے اوردولت اسلامیہ یاISIS نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے ۔ان حملوں سے ایک دن پہلے ہی عرب نوجوان صلاح عبدالسلام کوپیرس بم دھماکوں کا ماسٹر مائند بتا کر گرفتارکرلیاگیا تھا۔ وہ ان کا بچپن کا دوست بتایاجاتاہے۔ برسلزکے مسلمان طویل مدت سے وہاں رہ رہے ہیں اوران کی نوجوان نسلیں وہاں کے کلچروثقافت میں رنگ چکی ہیں۔ وہ ان کا لباس پہنتے اوران کی زبان بولتے ہیں، لیکن اب انہیں یہ تشویش ہے کہ ان کے نوجوانوں میں انتہاءپسندی کے رجحانات کیوں پنپ رہے ہیں! اب یوروپ میں ایک طبقہ تارکین وطن کے سلسلہ میں قوانین سخت کرنے کا مطالبہ کررہاہے۔ شامی مہاجرین جویوروپ کے کئی ممالک میں دردربھٹک رہے ہیں ان کوکھدیڑدینے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اندیشہ ظاہرکیا جارہا ہے کہ وہ یوروپ کے کلچرکے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ امریکہ میں صدارتی امیدوارڈونالڈٹرمپ اوران کے حامی اپنی ہرزہ سرائیوں کوجوازدے رہے ہیں۔CNN کوانٹرویودیتے ہوئے ٹرمپ نے صاف صاف اوربغیرکسی لاگ لپیٹ کے کہا کہ :عرب اورمسلمان ہمارے لیے ایک نفرت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اورہمیں اس نفرت کواپنے گھرآنے سے روکناچاہیے“۔(راقم نے یہ انٹرویوخود سنا)۔

ان حملوں سے چند سوال بھی اٹھے ہیں جن کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ مثلاًعام طورپر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اوراس میں اپنے اورغیرسبھی شامل ہیں کہ علماء،مدرسوں کے طلبہ اورمذہب پسندعام طورپر ظلمت پسند، تاریک خیال، متعصب اورلہٰذامتشدد ہیں اوردہشت گردی پھیلاتے ہیں۔ ہندوستان وپاکستان کے مدارس اسلامیہ خاص طوررپرنشانہ پررہے ہیں۔ ممکن ہے کہ کہیں ایک آدھ کیسے میں مدارس کے لوگ ملوث پائے گئے ہوں ورنہ عموما اب تک جتنے بڑے بڑے کیس دہشت گردی کے ہوئے ہیں ان میں نہ توعلماء اورطلبہء مدارس ملوث پائے گئے ہیں نہ مذہبی طبقہ کے اورافراد۔ اکثرکیسوں میں جدید تعلیم یافتہ، پڑھے لکھے پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے عناصرہی پکڑے گئے ہیں۔ بقراوی برادرزاورصلاح عبدالسلام کاکیس خود اس کا گواہ ہے۔ ایک بڑامعمہ یہ ہے کہ یوروپ اورامریکہ میں اب تک متعدد کیس ایسے سامنے آئے ہیں جن میں شامل مجرم اورخودکش بمبارکبھی بھی مذہب یاروحانیت کے قریب نہیں رہے۔ پیرس کے خودکش بمباروں کے بارے میں جورپورٹیں آئیں ان میں ایک نوجوان کا لائف اسٹائل سراسرغیراسلامی تھا۔ وہ ناچ ورنگ کا دلدادہ، نائٹ کلبوں میں شبیں بسرکرنے والاشخص تھا۔ چوری کے جرم میں ملوث ہوکرجیل جا پہنچا اوروہاں اس کی کایا پلٹ ہوگئی، جیل سے نکلتے ہی وہ سیدھے انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ ایک دوسرا نوجوان ماری جوانا میں دھت رہتا، کبھی مسجد کا منہ نہ دیکھا، جب وہ بھی جیل کاٹ کرباہرنکلاتونکلتے ہی ”جہادیوں“کی صف میں جاکھڑاہواآخرکیوں؟ اس سوال کا جواب ملنا باقی ہے۔ اکثرکیسوں میں جب صورت حال یہ ہوتوکیسے مانا جاسکتاہے کہ وہ ”سیاسی اسلام “یا ”ریڈیکل اسلام “کے کارکن ہوگئے تھے۔ دوسرابڑاسوال یہ ہے کہ وہ کیاچیز ہے جوان سرپھروں کواپنی جان کویوں قربان کردینے پر اورلوگوں کوخاک وخون میں نہلانے پرآمادہ کرتی ہے؟ اب تک کی مقبول عام تھیوری یہ تھی جس سے ہرحادثہ کی توجیہ کرلی جاتی تھی کہ ”ڈائرکٹ جنت میں جاپہنچنے“ کی شدید خواہش میں اور”وہاں کی حوریں“ملنے کے لالچ میں وہ یہ مہلک قدم اٹھالیتے ہیں۔ لیکن یہ جورپورٹیں آرہی ہیں جن کا ذکرپروین سوامی نے 24 مارچ کوانڈین ایکسپریس میں چھپے اپنے مضمون میں کیاہے، ان سے تویہ تھیوری ہی غلط ثابت ہوجاتی ہے جوذہن مذہب کوہی نہ مانتا ہواس کے لیے کہاں کی جنت اورکیسی حور!

ایک اورزاویہ سے دیکھا جائے توبرسلزپر ہوئے حملوں پر خوب چرچا ہوا اورایساہونا فطری بھی تھا۔ میڈیا میں بھی یہ موضوع گرماگرم بحث کا موضوع بنارہا اورمختلف ماہرین اس کومزعومہ پولیٹیکل اسلام سے جوڑتے رہے اوراس کے علاج کا نسخہ شفاء جوتجویز کیا گیا اورہمیشہ کیا جاتاہے کہ صوفی اسلام کوبڑھاوا دیاجائے۔ دنیاکی حکومتیں اس پروجیکٹ کوآگے بڑھائیں۔ خیرسے ہماری حکومتِ ہندتو پہلے ہی سے اس کارِخیرمیں لگی ہوئی ہے اوراسی لیے اُس نے حال ہی میں وزیراعظم نریندرمودی کی سرپرستی میں ایک عالمی صوفی کانفرنس کواسپانسربھی کیاجس میں مودی جی نے بھی صوفی اسلام کوخوب سراہا۔ مگراس کانفرنس کے ذمہ داران کی نگاہوں سے یہ بات کیسے اوجھل رہ گئی کہ صوفیاءکرام توہمیشہ اقتدارِوقت سے کنارہ کشی اختیارکرتے رہے ہیں۔ وہاں تو حال یہ ہوتاتھاکہ بادشاہ وقت ملاقات کے لیے آتا تووقت کا شیخ دوسرے دروازہ سے گھرسے باہرنکل جاتا!

ایک تھیوری یہ دی جاتی ہے کہ غربت، ناداری اورزندگی کی دوڑمیں ناکامی کی وجہ سے نوجوان مزعومہ جہاد کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ لیکن صلاح عبدالسلام اوراس کا بھائی براہیم توبڑے ثروت مند اورعیاش نوجوان تھے۔ ان کے پڑوسیوں نے بتایاکہ اکثر جب ان کی گلی کے لوگ نمازکے لیے جمع ہوتے تویہ دونوں اپنے ٹیریس پر ماری جوانا کے کش لیتے ہوئے دکھائی دیتے۔ صلاح کئی کئی گرل فرینڈ رکھتا تھا۔ معلوم ایساہوتاہے کہ بہت سے مغربی نوجوان اپنے گلیمر والے اپنے کلچرسے تنگ آکراُس سے بغاوت کربیٹھتے ہیں اور رفتہ رفتہ ذہنی ونفسیاتی مریض بن جاتے ہیں جن کوان کے ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اپنے مقاصدکے لیے استعمال کررہی ہیں؟ حالاں کہ راقم الحروف سازشی تھیوری کا بالکل بھی قائل نہیں ہے تاہم میرے اس تجزیہ کواِس حقیقت سے تقویت ملتی ہے کہ بہت سارے کیسوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خود کش بمبار نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ محمد اموازی عرف جہادی جان (برطانوی نژاد) اورہند نژاد سدھارتھ دھرکے بارے میں توخود اکانومسٹ نے رپورٹ شائع کی ہے۔ کیا یہ عجیب نہیں لگتا کہ یہ نومسلم نوجوان سیدھے القاعدہ اور ISIS میں جاکربھرتی ہوتے ہیں”خلافت “کے قیام کے نعرے لگاتے اورمغرب کے خلاف اعلان جنگ کررہے ہیں؟ یہ بھی توہوسکتا ہے کہ یوروپی خفیہ ایجنسیاں اپنے تربیت یافتہ ایجنٹوں کوقبول اسلام کے بہانے مسلم ملکوں میں مسلکی جنگ کی آنچ کوتیز کرنے اوراسلام پسندوں کی شبیہ مزید داغدارکرانے کے لیے ان سے یہ کرتوت کرواتی ہوں؟

کہتے سبھی ہیں کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اُسے دہشت گردہی قراردینا چاہیے اورکسی بھی مذہب سے اُس کونہ جوڑنا چاہیے مگرخواہی نہ خواہی ہردہشت گردانہ حادثہ کواسلام ہی سے جوڑاجاتاہے۔ کچھ ہی دن ہوئے ہیں جب 19 فروری کوترکی کے شہرانقرہ میں فوجی ہیڈکوارٹراورپارلیمنٹ کے قریب بم دھماکہ ہوا جس میں 29 افراد اورسیکڑوں زخمی ہوئے ۔اس کے بعد 13 مارچ کوپھراسی انقرہ میں ایک اورشدیدبم دھماکہ ہواجس نے 37 معصوموں کی جان لی اور125 کوشدید زخمی کیا اوربالکل کل ہی کی بات ہے جب پڑوسی پاکستان کے لاہورمیں27مارچ کوجوزبردست خودکش حملہ ہوا اس میں64 لوگ جان بحق ہوگئے اورسینکڑوں کی تعداد میں زخمی، لیکن کیابا ت ہے کہ میڈیا میں اس پر کوئی چرچانہیں ہوا! کوئی بحث نہیں اٹھائی گئی کیوں؟

بم دھماکہ جہاں بھی ہوقابل مذمت ہے اوراس کے مجرموں کوسخت سے سخت سزادی جانی چاہیے، یہ دہشت گرد کسی بھی مذہب اورقوم سے تعلق رکھتے ہوں ان پرکوئی رحم نہیں کیاجاناچاہیے۔ لیکن جولوگ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کردہشت گردی کے مسئلہ پر چرچاکرتے ہیں وہ کبھی سیریا کے بارے میں کیوں نہیں بولتے جوپانچ سال پہلے تک ایک جیتاجاگتا ملک تھا اب وہاں قبرستان ہی قبرستان ہیں۔ جس پر روس، امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے ISIS اوردوسرے دہشت گرد گروپوں پر حملہ کی آڑمیں دولاکھ ہزارروپوں تک کے بم برسا ڈالے ہیں اورپورے ملک کوکھنڈروں میں بدل دیاہے۔ سیریااورعراق دونوں مسلم دنیاکے قلب میں آتے ہیں اوروہاں سے مسلمانوں کا Depopulation ہورہاہے ۔عرب حکمرانوں کی ناک کے نیچے ہورہاہے! ہم لکھنے بولنے والے ہمیشہ امت مسلمہ امت مسلمہ چلاتے رہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ کہاں ہے؟ اس کے سب حکمراں مرگئے؟ اس کے سب عالمی ادارے مردہ ہیں کیوں؟

شرق اوسط کے پورے خطہ کی بدقسمتی ہے کہ دوسوسال سے اس کی قسمت کے فیصلے کہیں اورہوتے آئے ہیں۔ مغرب ہی پہلے اس کے فیصلے کرتاتھا اورمغرب ہی اب بھی کررہاہے۔ شروعات انگریزاورفرانسیسوں نے کی تھی اوراب امریکہ اورروس کررہے ہیں۔ اس خطہ کے لوگ اتنے بدقسمت کیوں ہیں کہ وہ سیریا میں، مصرمیں بحرین، یمن میں، لیبیامیں جمہوریت کی، بنیادی حقوق کی اورعزت وآبرو کی اورامن وسکون سے رہنے کی چاہت کرتے ہیں توبدلے میں ان کے نصیب میں بم، بربادی، قتل وغارت گری اورہولناک تباہی، تعذیب وٹارچرہی آتاہے !

اوپرہم نے سیریائی بے خانماں برباد پناہ گزینوں کا ذکرکیا تھاجن کوسربیا، یونان اوریوروپ کے دوسرے ملکوں میں شدید مسائل کا سامناہے۔ یوروپ میں کئی لوگوں کولگتاہے کہ وہ ان کے لیے مسئلہ بن جائیں گے۔ کئی ملکوں میں ان کی امدادکے سلسلہ میں بڑی ہچکچاہٹ ہے۔ کبھی ان کو سربیا اپنی سرحدوں میں آنے نہیں دیتاکبھی یونان ان کو ترکی طرف کھدیڑتاہے!! ایک سوال مغرب کے لوگوں سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ شرق اوسط اورخاص کرسیریا کاجو براحال ہے اس کے لیے آخری تجزیہ میں مغرب بھی ذمہ دارہے (دوسرے بھی ہیں، مثلاخلیج کے عرب ممالک اورایران ) ان کی بالواسطہ اوربلاواسطہ مداخلتوں نے ہی توان بے چاروں کے سرسے چھت چھین لی ہے تواب ان بے سہاروں کوامدادوتعاون دینے میں ہچکچاہٹ کیوں دکھائی جارہی ہے؟

بہرحال ان حملوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اوران کا سب سے بُرا اورعالمی اثراسلام اورمسلمانوں کی شبیہ پر پڑتاہے۔ ان کی شبیہ جودنیا بھرمیں انتہاپسندوں کی بنادی گئی ہے اس میں ہرحملہ سے مزید اضافہ ہوجاتاہے۔ تاہم دہشت گردانہ حملے صرف یوروپ میں نہیں بلکہ مختلف مسلم اورغیرمسلم ممالک میں ہورہے ہیں اس لیے اس تشددکوکسی ایک مذہب سے جوڑنے کی بجائے ایک چیلنج کے طورپر لینا چاہیے ۔ یہ مہذب دنیا کا چیلنج ہے اوراس کا مقابلہ انتہاپسندوں کوکچل کران پر بے محابا بمباری کرکے نہیں کیاجاسکتا بلکہ ان کو engage کرنے کی، ان کی بات سننے کی اوران کوقائل کرنے کی ضرورت ہے۔ جس آئڈیالوجی کے بطن سے وہ پیداہورہے ہیں جس میں صرف اپنے آپ کومسلمان سمجھنا اور دوسرے مسلمانوں کی تکفیرکرنا بھی شامل ہے۔ اس آئڈیالوجی کوتوڑنے کی ضرورت ہے ۔اس کے بغیردنیا اس عفریت سے نہیں نمٹ سکے گی۔ انفرادی اورتنظیموں کی دہشت گردی کو مٹانے کے لیے دنیا بالعموم سرکاری دہشت گردی کا استعمال کررہی جس سے کچھ دہشت گرد ختم ہوجاتے ہیں تو ردعمل میں کئی گنا دہشت گرد جنم لے لیتے ہیں۔ فوجی مداخلتیں کاریپٹ بمباری آبادیوں کے صفایے اورملینوں کو اپنے گھربار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور کرنا یہ دہشت گردی کاکوئی حل نہیں۔ ان چیزوں سے حالات صرف پیچیدہ ہی ہوتے ہیں اوردہشت گردی کا ناختم ہونے والا سلسلہ جنم لیتا ہے۔ آج کی مہذب دنیا یہ بات سمجھنے کے لیے تیار کیوں نہیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔