اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ

مدثراحمد، شیموگہ

تعلیم سے زیادہ ہمارا رویہ اہم ہوتا ہے کیوں کہ بعض اوقات ہماری تعلیم ناکام ہوجاتی ہے اور رویہ ہی معاملات سدھارتاہے اور یہ رویہ اس وقت تبدیل ہوتاہے جب ہم اپنی نسلوں کو ایسے تعلیمی ماحول میں تعلیم دیں جہاں پر علم کے ساتھ ساتھ عمل اور اخلاقیات کی تعلیم ملتی ہے۔ یوں تو آج کل ہر ایک اپنے بچے کو بہتر سے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانے کے خواہشمند ہیں اور کبھی یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ جن اعلیٰ عمارتوں میں بنائے گئے اسکول و کالجس ہیں وہاں پر کیا ہمارے بچے حقیقی علم سے آشنا ہورہے ہیں، ایسے بہت کم لوگ ہیں جو تعلیم کو عمل اور اخلاقیات سے جوڑ کر دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نسلیں تعلیم یافتہ تو ہیں لیکن بااخلاق نہیں ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہمارے بچے جنہیں ہم اچھی تعلیم کے نام پر ایسے اداروں میں داخلہ دلوار ہے ہیں وہ آگے چل کر یقینا بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں، حالاں کہ وہ اچھی انگریزی بول لیتے ہیں، ان کا مارکس کارڈ بھی اچھے نمبرات سے لیز ہوتا ہے مگر ان میں اخلاقیات کا فقدان ہوتاہے۔ آج مسلمان اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی اداروں میں داخلے دلوانے کے دلدادہ ہیں جہاں پر تعلیم ایک فتنہ سے کم نہیں ہے، یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو بولنا تو سکھا یا جاتاہے لیکن یہ نہیں سکھا یا جاتاکہ کب بولنا ہے، کیسے بولنا اور کتنا بولنا ہے، یہی چیز مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے اداروں میں سکھائی جاتی ہے جس کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔ آج قوم کو صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بااخلاق نوجوانوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنے والے ہوں بلکہ قوم و ملت کا جذبہ بھی رکھنے والے ہوں۔ مگر ایک خاص بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ مسلمانوں کو خود انکے اپنے تعلیمی اداروں پر یقین نہیں ہے اور غیروں کو ان کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انکے بچے اگر مسلمانوں کے درمیان ہی رہ کر تعلیم حاصل کریں گے تو وہ مستقبل میں کامیاب نہیں ہوں گے، لیکن کیا ہم نے کبھی سوچاہے کہ ہمارا مستقبل صرف دنیا ہی نہیں بلکہ آخر ت بھی ہے اور آخر ت میں یہ نہیں پوچھا جاتاکہ تم نے کس کلاس میں کتنا ٹاپ کیا ہے بلکہ یہ پوچھا جاتاہے ہے کہ تم نے دنیا میں اپنے پڑوسیوں کا کتنا حق ادا کیا، ماں باپ کے فرمانبردار کتنے تھے، کھانا بیٹھ کر کھانے کی سنتیں ادا کی تھیں یا نہیں ، بیٹھ کر پیشاب کیا کرتے تھے یا جانوروں کی خصلت اپناتے تھے ۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرنا ہوتو اس کے لئے ہمیں مسلم زیر انتظامیہ تعلیمی اداروں کا انتخاب کرنا ہوگا اور یہی ہمارے مستقبل کی کامیابی کی نشانی ہیں۔ بعض اوقات ہماری سوچ اس قدر محدود ہوجاتی ہے کہ اگر ہم مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ دلوانے کی بات کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا اسکول ہے، یہ اہل حدیث کا ادارہ ہے ۔ یہ تبلغیوں کا کالج ہے، اس کا ڈائرکٹر بریلوی ہے لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ غیروں کے جس ادارے میں اپنے بچے کا داخلہ دلوارہے ہیں اس کے ذمہ دار تو ان سب سے ہٹ کر کافرہیں ۔ ہاں ان باتوں پر بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچے کو مدرسے کا داخلہ نہیں بلکہ اسکول کا داخلہ کروارہے ہیں تو اس میں یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کون سے مذہب کا ادارہ ہے بس ہمارے بچوں کا مستقبل اچھا ہوجا ئے، آخر کیا برائی ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں جس کی وجہ سے ہم انہیں نظر انداز کرتے ہیں، جب تک ہم اپنے تعلیمی اداروں کے فروغ کے لئے خود اپنے بچوں کا داخلہ نہیں دلواتے اس وقت تک ہمارے یہ تعلیمی ادارے آگے نہیں آئیں گے اور تعلیم کا میعار تب بدلے گا جب ہم خود بدلیں گے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے اسکولوں میں داخلہ دلوائیں لیکن مسلم انتظامیہ کے اداروں کو ترجیح دیں تاکہ ہمارے بچوں کی دنیا و آخرت سنور جائے ۔ اسی لئے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں کہاہے کہ

”اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ

 املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ “۔

تبصرے بند ہیں۔