’’دینِ الٰہی ‘‘ کا تحقیقی مطالعہ 

مولانا محمد شمیم اختر قاسمی
یہ امر کسی مستند تاریخی حوالے سے متحقق نہیں ہے کہ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر 1؂ نے اسلام کی ضد میں ایک نئے دین ’دینِ الٰہی ‘ 2؂ کی بنا ڈالی اور پورے ملک میں اس کو رواج دیا۔ اکبر کے درباری مورخ ملا عبدالقادر بدایونی 3؂ اور ابو الفضل 4؂ نے جو تاریخ لکھی ہے ، اس میں اس کی صراحت نہیں ملتی ۔ البتہ اکبر نے جو طریقہ ہندوستان میں رائج کرنا چاہا اور جس کے لیے اس نے باضابطہ لوگوں کو مرید بھی کیا، اسے دونوں مؤرخوں نے آئین رہ نمونی 5؂ ارادت، مریدی، روش اور اخلاص 6؂ وغیرہ کانام دیا ہے ۔ بدایونی نے یہ بھی لکھا ہے کہ بادشاہ نے نبوت کا دعوی کیا تھا ۔ 7؂ ابوالفضل نے اکبر کے دینی عقائد و عبادات کے بیان میں ابہام و اجمال سے کام لیا ہے ، جب کہ بدایونی کے یہاں تفصیل ملتی ہے ، جو بظاہر مبالغہ سے خالی نہیں ہے ۔ فرشتہ 8؂ ، نورالحق محدث 9؂ اور دوسرے مؤرخین نے بھی جو جہاں گیر 10؂ کے عہد میں رہے ، اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ 11؂ خافی خاں مصنف منتخب اللباب کے بیان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اکبر کے مذہبی معاملات کے سلسلہ میں بدایونی نے حد درجہ غلو کیا ہے اور اسے ایک نئے دین کا بانی ٹھہرایا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’عبد القادر مؤلف تاریخ بدایونی بادشاہی امام دربار کاعالم اور مقربِ بارگاہ تھا، دینی عقائد کے سلسلہ میں اسی عہد کے دوسرے علماء کی طرح اس کو بھی شیخ مبارک کے بیٹوں شیخ فیضی اور شیخ ابو الفضل سے اختلاف تھا۔ یہ دونوں بھائی بادشاہ کے محرم راز اور مقرب خاص تھے۔ بدایونی نے اپنی تاریخ میں ان دونوں بھائیوں اور انہی کے ساختہ پرداختہ درباریوں کے خلاف ، جو بادشاہ کے پاس بڑے دخیل ہوگئے تھے ، یہ الزام لگایا کہ ان کے بعض خیالات عقیدۂ اسلام کے خلاف ہیں، اسی طرح اس نے خود اکبر (عرش آشیانی) کے بارے میں چند نا گفتنی اور نانوشتنی کلمات لکھے ہیں جنھیں عقل کسی طرح قبول نہیں کرسکتی ‘‘۔ 12؂
خافی خاں نے بدایونی کے اس بیان کی بھی تغلیظ کی ہے ، کہ مرزا عزیز کو کہ 13؂ اور بادشاہ کے درمیان خط و کتابت ہوئی جس میں کو کہ نے بادشاہ کو سخت سست لکھا اور اسے گم راہ ٹھہرایا ، یہاں تک کہ ایک نئے دین کے بانی مبانی ہونے پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ 14؂
شیخ محمد اکرام کی کتاب ’رودِ کوثر‘ کے اندراجات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ نے ’دینِ الٰہی ‘ نام سے کوئی نیا مذہب ایجاد نہیں کیا تھا، بلکہ اس نے جو طریقہ اختیار کیا تھا اسے ایک روش یعنی طریقہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہماری نظر سے بدایونی کی کوئی ایسی تحریر نہیں گزری جس میں اس نے دینِ الٰہی کو اکبر یا ابوالفضل سے منسوب کیا ہو ، زیادہ سے زیادہ اس نے یہ کہا ہے: ’’وروش خود را بہ توحید الٰہی موسوم ساختند‘‘ (اپنی روش کو توحید الٰہی سے موسوم کیا )۔ ابو الفضل نے سب احکام کے لیے ’آئین رہ نمونی‘ کی ترکیب استعمال کی ہے ۔ انھوں نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ اکبری احکام کے لیے ’دینِ الٰہی ‘کی ترکیب شاید پہلی مرتبہ ’’دبستانِ مذاہب‘‘ میں اکبر کی وفات کے کوئی ساٹھ ستّر سال بعد استعمال ہوئی۔ غلام حسین طباطبائی مؤلف سیر المتاخرین نے بھی بعد میں ’مذہب الٰہی ‘ کی ترکیب بے تعصبی اور طریقۂ ’صلح کل‘ کے معنوں میں استعمال کی ۔ 15؂ اس کے بعد شیخ اکرام نے اس بنیادی غلطی کی عقدہ کشائی کی ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے طریقہ اور روش کے بجائے ’دینِ الٰہی‘ کا نام دے کر عوام میں مشہور کردیا ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ لیکن جب اکبر کے متعلق معاصرانہ مواد اس قدر موجود ہے ، اسے نظر انداز کرکے بعد کے ایک اہلِ قلم کی تحریر کو ، جس کی اصل حال سے کوئی ذاتی واقفیت نہ تھی، اہمیت دینا فن کے خلاف ہے ، بلاک مین نے سہو سے یا عیاری سے آئینِ اکبری کے پہلے انگریزی ایڈیشن میں طریقہ اور روش کا ترجمہ ’دین الٰہی‘ کیا ،جو بعد کی درسی کتابوں میں رائج ہوکر مسلّمات کی حیثیت اختیار کرگیا ۔۔۔ ہمارے خیال میں کوئی وجہ نہیں کہ بلاک مین کی پیروی کی جائے اور ایک غلط فہمی یا غلط نمائی کو برقرار رکھا جائے ۔ اکبر کے آئین و احکام کو اکبر اور ابو الفضل ہی نہیں ، بدایونی بھی دین نہیں ،روش یعنی طریقہ کہتا ہے ، یہ ایک مذہب نہ تھا، ارادت و عقیدت کا سلسلہ تھا جس کی بنیاد ماننے والوں کی کم زوریوں یعنی طمع اور خوشامد اور رائج کرنے والے کی خود فریبی و خود پسندی پر قائم تھی‘‘۔ 16؂
معلوم ہونا چاہیے کہ بادشاہ کے حرم میں ہندو رانیاں 17؂ بھی داخل تھیں، جن کا اثرو رسوخ دربار میں بڑھا ہوا تھا اور ان کے طفیل بہت سی دوسری ہندورانیاں، جو ان کی سہیلی تھیں، دربار میں اکثر و بیش تر ان کے ساتھ رہتی سہتی تھیں 18؂ اور انہی کی وجہ سے بہت سے ہندو امراء نہ صرف اکبر کے رشتہ دار ہوئے ، بلکہ سلطنت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے، جن کی قربت اور خواہش کا پاس کرکے بعض اوقات بادشاہ ہندوانہ رسم بھی ادا کرتا تھا۔ 19؂ بدایونی نے بھی اپنی تاریخ میں آگے چل کر اس بات کی صراحت کی ہے کہ اکبر نے جو طریقہ اسلام کی ضد میں اختیار کیا وہ کفار ہند میں رائج کرنا چاہتے تھے۔ مگر تاریخ سے اس بات کا کہیں پتا نہیں چلتا کہ بادشاہ نے جو طریقہ ایجاد کیا تھا سوائے بیر بل 20؂ کے کسی اور ہندوامیر یا مقربین میں سے کسی نے قبول کیا ہو۔ اسی وجہ سے بادشاہ کے مریدوں کی تعداد انیس سے آگے نہ بڑھ سکی۔ راجپوت راجاؤں نے بھی اکبر کے نئے مذہب کو قبول نہیں کیا ۔ جب اکبر نے اپنے طریقہ کے متعلق امراء کبار سے مشورہ کیا تو مخالفت کرنے والوں میں امیر الامراء راجہ بھگوان داس 21؂ بھی تھا، اس نے بادشاہ سے کہا کہ ہم یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ ہندو اور مسلمان دونوں مذہبوں میں خرابیاں موجود ہیں، لیکن یہ تو بتایا جائے کہ ان سے بہتر فرقہ کون سا ہے ، تاکہ ہم اس کے قائل ہوسکیں۔ 22؂ کچھ دنوں بعد جب راجا مان سنگھ 23؂ کو بہار کا گورنر بناکر بھیجا جارہا تھا تو اکبر نے اسے خلوت میں بلایا اور اس کے ساتھ ہم دردی اور شفقت سے پیش آنے کے بعد کہا کہ میری مریدی قبول کرلو۔ اس نے جواب دیا: ’’حضور، اگر مریدی سے مراد جاں نثاری ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جان ہتھیلی پر لیے پھر تاہوں، امتحان کی حاجت نہیں۔ اگر حضور کی مراد مذہب سے ہے تو ہندو ہوں، فرمائیے ، مسلمان ہوجاؤں، دوسرا راستہ مجھے معلوم نہیں کون سا ہے کہ اختیار کروں‘‘۔ 24؂ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندو امرا اور عوام بھی بادشاہ کے اس رویہ سے خوش نہ تھے۔
ان بیانات کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ بادشاہ نے کوئی نیا مذہب نہیں، بلکہ ایک طریقہ اختیار کیا تھا جسے بالخصوص مسلمانوں میں کچھ لوگوں نے طمع و حرص میں قبول کیا، مگر وہ اندر سے اس سے خوش نہ تھے اور نہ انھوں نے اس پر عمل کیا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ بعض لوگوں نے اسے ایک مذہب کی حیثیت سے قبول کیا تھا تو پھر انھیں دین اسلام سے خارج سمجھنا چاہیے۔ کیوں کہ بدایونی کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ جن لوگوں نے بادشاہ کے طریقہ کو قبول کیا انھوں نے ترکِ اسلام نہیں کیا اور احکامِ اسلام پر عامل رہے۔ مثلاً ملتان کے مشہور بزرگ حضرت موسیٰ پاک شہید بھی رسمی طور پر بادشاہ کے مریدوں میں شامل ہوگئے تھے ۔ 25؂ اس کے بعد بدایونی موسیٰ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: اگر شیخ موسیٰ بادشاہ کے حضور میں ہوتے اور نماز کا وقت ہوجاتا تو وہ دیوان خانہ خاص و عام میں اذان دے کر نماز شروع کردیتے اور کوئی انھیں کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ 26؂ بعد کے عہد میں موسیٰ شہید کے ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اسلام کی بڑی خدمات انجام دیں۔
اکبر کے مذہبی خیالات کے متعلق شروع سے اختلاف رہا ہے ۔ ایک جماعت اس بات پر مصر ہے کہ بادشاہ نے دین اسلام کی ضد میں اپنا ایک نیا دین بنایا اور خود کو نبوت کے مرتبہ پر پہونچادیا، جب کہ دوسرے گروہ نے اس نظریہ سے کلی طور پر انکار کیا ہے اور اسے مکمل ’صلح کل‘ کا حامل بتایا ہے ، جو کہ درست نہیں ہے ، ان لوگوں نے تحقیق و جستجو سے کام نہ لیا اور صرف بدایونی اور مصنف دبستانِ مذاہب کے اندراج کو کافی سمجھا۔ اگر بالفرض بدایونی کے اندراجات کو ہی دلیل بنایا جائے تو اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بادشاہ نے ایک نئے دین کا اختراع کیا اور مدعئ نبوت ہوا، بلکہ اس سے صرف اتنا نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ اس نے ایک طریقہ ایجاد کیا جو اسلام سے متضاد تھا۔در اصل مسئلہ کی حقیقت اور اصلیت یہ ہے کہ انگریز مورخین نے اکبر کے مذہبی رجحانات کو کتر بیونت کرکے عوام میں پیش کیا، اسے بہت سے لوگوں نے قبول کرلیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا محققانہ تبصرہ غلط فہمی کا ازالہ کرتا ہے، وہ اپنی کتاب The Muslim Community of the Indo Pakistan Subcontinant میں لکھتے ہیں :
’’دورِ حاضر کے مصنفوں نے اکبر کے مذہبی خیالات کی نسبت بہت کچھ لکھا ہے ۔ بعض نے زیادہ تر بدایونی پر انحصار کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس نے اسلام کو بالکل ترک کردیا اور ایک نئے مذہب کی بناڈالی۔ دوسروں کی رائے ہے کہ وہ مسلمان رہا اور مذہب اسلام سے اس کا تجاوز (Deviation) اہم نہ تھا۔ یہ صحیح ہے کہ بعض مصنفین نے بدایونی کے بیانات کو زیادہ وسیع مفہوم دیا ہے ۔ اس کے لیے اس کے (مغربی) مترجمین ذمہ دار ہیں، بدایونی ایک ذہین اور چالاک اہلِ قلم تھا، اس میں اتنی قابلیت تھی کہ جو کچھ وہ کہے اس سے زیادہ سمجھا دے، اس کے کئی اندراجات ذو معنٰی ہیں اور ان کا ترجمہ بڑا مشکل ہے ۔ جہاں ایسی صورت حال نہیں وہاں بھی اس کتاب کے (انگریزی) ترجمے درست نہیں اور کئی اہم الفاظ جن سے اس کے الزامی اندراجات میں کمی ہوتی ہے چھوڑدیے گئے ہیں۔ بعض مصنّفین نے پرتکیزی پادریوں کے جن بیانات سے اپنی رائے کے لیے تائید حاصل کی ہے ، ان بیانات کو غلط یا انتہائی طور پر مبالغہ آمیز کہا جاسکتا ہے ، لیکن یہ سب کچھ تسلیم کرنے کے بعد ان لوگوں کی رائے ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ اکبر نے اسلام سے تجاوز نہیں کیا، صحیح نہیں۔ یہ سچ ہے کہ جان بوجھ کر ترکِ اسلام (کا اظہار) بہت خفیف معلوم ہوتا ہے (It is true that of conscious abjuring of Islam there was very little) ۔ اکبر کو یقین تھا کہ اسلام کا جو مفہوم اس کا تھا وہ ان علماء ( کی ترجمانی) سے زیادہ معقول تھا، جن سے اس نے اختلاف کیا۔ عبد اللہ خان ازبک کے نام خط میں جب اس نے ترکِ اسلام کے الزام پر احتجاج کیا تو غالباً اس کا اظہار دیانت دارانہ تھا۔ اس کا ذہن پیچیدہ (Complex) تھا اور اس کی اتنی تربیت نہ ہوئی تھی کہ وہ اپنے زاویہ ہائے نگاہ کے تناقض کو سمجھ سکتا۔ اس نے کئی ایسی چیزیں کیں، بلکہ اس کے کئی معتقدات ایسے تھے جن سے معمولاً آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ، مثلاً آفتاب کے لیے اس کی تعظیم عقیدۂ توحید کے منافی ہے ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ خیال نہ تھا اور اس معاملہ میں وہ اس ذہنی انتشار کو شاید انتہائی صورت میں پیش کرتا ہے ، جو کئی مسلمانوں میں پایا جاتا ہے ‘‘ ۔ 27؂
عہدِ اکبری کے واقعات کے عینی شاہد کئی تھے۔ 28؂ جن میں سے اکبر کی مذہبی تاریخ کی تفصیلات کے راوی صرف تین ہیں: ابو الفضل ، بدایونی اور پرتکیز پادری ۔ ان تینوں کا بیان ہے کہ وہ مسلمان نہ رہا اور وہ اسلام کا سخت دشمن تھا۔ بلکہ پرتکیز نے یہاں تک کہا ہے کہ بادشاہ نے حکم دیاتھا کہ ملک میں کوئی نئی مسجد تعمیر نہ ہو اور کوئی قدیم مسجد، جو خستہ ہوگئی ہو، اس کی مرمت بھی نہ کی جائے ۔ حکومت کے آخری ایام میں لاہور شہر میں کوئی مسجد نہیں بنائی گئی اور مسجدوں کو اصطبل بنادیا گیا تھا۔ 29؂ جب کہ ایک اور پرتکیز نے اپنے مذہب کی برتری ثابت کرنے کے لیے یہ بھی لکھا ہے کہ اکبر نے عیسائیت قبول کرنے کے لیے ایک کے سوا سب بیویاں اپنے درباریوں میں تقسیم کردیں اور پرتکیزپادری سے وعدہ کیا کہ میں حج کے بہانے گوا آؤں گا اور وہاں عیسائی ہوجاؤں گا۔ اس کے بر خلاف ہمیں اس کی بھی دلیل مل جاتی ہے کہ اکبر جب کابل کے سفر پر جارہا تھا تو پرتکیز مشنری ساتھ تھے۔ اسی درمیان اکبر اورابو الفضل نے انجیل پر کئی الٹے سیدھے اعتراضات کیے اور یہ بھی کہا کہ تم جو چیز انجیل میں ثابت کرتے ہو وہ قرآن مقدس میں بھی موجود ہے ۔ 30؂ جب یہ لوگ دارالخلافہ پہونچ گئے تو پادریوں سے مناظرہ ہوا اور اکبر نے علماء کی طرف سے انھیں لاجواب کردیا۔ 31؂
اب دینِ الٰہی کے عناصر کو سامنے رکھا جائے اور مذکورہ تینوں مؤرخوں کے بیانات کا موازنہ کیا جائے تو سب میں اختلاف اور سوائے کذب و اتہام کے کچھ نہیں نظر آتا۔ کیوں کہ اکبر نے اس قسم کا کوئی نیادین ایجاد نہیں کیا، البتہ جو طریقہ اختیار کیا وہ اسلام سے متصادم تھا اور پادریوں نے جو کچھ اکبر کے حوالے سے لکھا ہے وہ سراسر ایک الزام ہے ۔ بادشاہ کے ایما پر نہ کوئی مسجد منہدم ہوئی اور نہ اس کے تقدس کو پامال کیا گیا۔حالاں کہ اس بات کی شہادت موجود ہے کہ بادشاہ نے اس کے بعد بھی کئی مسجدیں بنوائیں اور اس کی عقیدت اب بھی صحابۂ کرام سے باقی تھی۔ اسی سفر میں بادشاہ ایک مسجد کے قریب سے گذرا تو وہاں قیام کیا اور اس کی زیارت کی۔ 32؂
اس سلسلے میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرتکیز کے بیان کے مطابق مسجدوں کی تعمیر موقوف کردی گئی اور اس کی مرمت پر بھی پابندی لگادی گئی، مسجدوں کو اصطبل بنادیا گیا اور اکبر اسلام کا سخت دشمن ہوگیا۔ اگر اس کو نہ مانا جائے ، تو پھر حضرت مجدد الف ثانیؒ 33؂ کے ان بیانات اور خطوط کی تردید ہوتی ہے جن میں انھوں نے تاسف کے ساتھ یہ وضاحت کی ہے کہ کفار بر ملا شعائرِ اسلام کی توہین کرتے ہیں، مسلمانوں کی جان و مال غیر محفوظ ہے ، مسجدیں شہید کی جاتی ہیں، اسلامی احکام کی انجام دہی ممنوع قرار دی گئی ہے اور مسلمانوں کو دینی امور کی انجام دہی سے باز رکھا جاتا ہے۔ وغیرہ۔ 34؂ اس کا جواب یہ ہے کہ مجدد الف ثانیؒ نے کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ یہ سب چیزیں بادشاہ کے حکم یا اس کی خواہش پر انجام دی جاتی تھیں، بلکہ ان بیانات کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چوں کہ اس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کش مکش جاری تھی ، دہلی سلطنت کے آخری عہد اور اکبر کے ابتدائی حالات پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا، پورے ملک میں چھوٹے بڑے راجا مہاراجہ حکومت کرتے تھے ، مسلمان حکم راں ان لوگوں سے لڑتے بھڑتے اور پورے ملک کو مرکزی حکومت سے جوڑنے میں لگے ہوئے تھے۔ اس افراتفری کا سب سے زیادہ اثر مسلمانوں پر پڑا اور وہ اسلام کا اعلان کروفر سے نہیں کرسکتے تھے، بلکہ مصلحت کے تحت بعض وقت وہ لوگ ہندوؤں کے رسم و رواج کو انجام دیتے اور اسے اپنی عملی زندگی میں بھی اختیار کرلیتے تھے۔
رہی بات دعوئ نبوت و پیغمبری کی تو اصل واقعہ یہ ہے کہ بادشاہ اکبر نے ایسا کچھ نہیں کیا، بلکہ لوگوں نے اس کی طرف یہ بات غلط منسوب کردی ہے ۔ یہ افواہ پھیلانے میں اس وقت کے ایک خاص طبقہ کا اہم رول رہا، کیوں کہ ان کے اختیارات و امور کو بادشاہ نے چھین لیا تھا اور دین اسلام کی غلط نمائندگی کرنے کی وجہ سے ان کے ساتھ سخت سلوک کیا تھا۔ اس سلسلے میں شیخ اکرام کی کتاب سے ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے جس سے حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ اکبر نامہ کی ایک اور دل چسپ دستاویز اکبر کا وہ خط ہے جو اس نے اپنے خیالات کی توضیح میں ابو الفضل سے لکھواکر عبد اللہ خان از بک والئ ترکستان کو اگست 1586ء میں ارسال کیا، عبد اللہ خان نے اکبر کو ایک خط لکھا تھا کہ آپ کی نسبت پیغمبری بلکہ خدائی کے دعوے سننے میں آتے ہیں، اکبر نے جواب میں ایک طویل خط ارسال کردیا جس کے دو مختلف مسودے اکبرنامہ اور انشائے ابو الفضل میں ہیں۔ اس خط میں بعض علمائے دربار کی شکایت کی ہے کہ وہ نہ صرف عقل و خرد سے خالی تھے ، بلکہ کلام مجید کی غلط ترجمانی کرتے تھے اور اس کی بنا پر شاہی اختیارات میں شرکت چاہتے تھے ( و فرمان آسمانی ونامۂ جاودانی راکہ فرستادۂ خدا ورسانیدہ پیغمبر است از شاہ راہ گردانیدہ برنگ دیگروامے نمایندہ ومجملات نصوص را تاویلات و تسویلات نمودہ مے خواہند در فرماں روائی و کارگزاری شریک بادشاہی باشند) جب ان باتوں کی تحقیق اور اختلافی امور کی تفتیش کے دوران ظاہر بینوں 35؂ کا پول کھلا اور وہ پایۂ اعتبار سے گرگئے تو انھوں نے حسد اور عداوت سے غلط افواہیں پھیلانی شروع کیں اور ہماری نسبت نبوت کے دعوے منسوب کیے۔ ورنہ کہاں بندۂ عاجز اور کہاں یہ دعوی ‘‘ ۔ 36؂
اس سلسلہ کی بعض اور دلیلیں آگے بیان کی جائیں گی۔ یہاں اس امر پر بحث کرنی مناسب ہے کہ کیا واقعی بادشاہ نے نبوت کا دعوی کیا اور ایک نئے دین کی ایجاد کی تھی؟ اگر کیا تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت پورے ملک میں بڑے بڑے علما، فقہا اور صوفیا بڑی تعداد میں موجود تھے، ان میں سوائے چند ایک کے ، جن کو بادشاہ نے درباری مراعات سے محروم کردیا تھا ، کسی نے بادشاہ کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اور نہ اس مذہبی معاملہ کو لے کر احتجاج کیا۔ اب تاریخ کے ہر دور پر نظر ڈالیے ، دعوئ نبوت کرنے والوں کے ساتھ لوگوں نے کیا سلوک کیا، مسیلمہ کذاب سے لے کر مرزا غلاماحمد قادیانی تک جس نے بھی ایسا کیا اس کا انجام برا ہوا ۔ مسلمانوں نے تو سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے لوگوں تک کو برداشت نہیں کیا ۔ اس طرح کے واقعات پر قیاس کرکے ہم اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ بادشاہ اکبر نے دعویٰ نبوت نہیں کیا، بلکہ اس نے اپنی جہالت اور لوگوں کے بہکاوے میں آکر کچھ اس طرح کے کام کیے جو اسلامی تعلیمات کے منافی تھے اور ایسا ہر زمانے اور ہر عہد میں ہوتا رہا ہے ، اکبر نے کچھ زیادہ ہی کیا ، مگر ایسا کرتے وقت اس کے پیش نظر کچھ دوسری بات تھی، چناں چہ واقعات دارالحکومت دہلی کے مصنف نے لکھا ہے :
’’ اس اہم معاملہ پر چوں کہ بڑے بڑے مستند ارباب قلم فرسائی کرچکے ہیں ، میرا کچھ عرض کرنا چھوٹا منہ بڑی بات ہے ، لیکن امرِ حق نگلا نہیں جاتا، انگریزوں نے اکبر کے مذہب کا خاکہ جیسا اڑایا ہے وہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں، مسلمان مؤرخین نے بھی اس بارے میں کچھ کمی نہیں کی ، اس لیے مسلمانوں کے اقوال نقل کرنا بے سود ہے ، میرا خیال یہ ہے کہ اس سارے قضیۂ نا مرضیہ کا لبِّ لباب یہ ہے کہ اکبر ایک وسیع الخیال، بلندنظر، بالکل بے تعصّب اور اعتدال پسند بادشاہ تھا او راپنی تمام رعایا پر جاکو بلاقیدِ مذہب و ملت یکساں دیکھتا تھا۔ وہ مذہبی رکاوٹوں کو دوٗر کرکے سب کو ملادینا چاہتا تھا، لیکن یہ بات فطرتِ الٰہی کے خلاف ہے ، مذہبوں کا اختلاف تاقیامت رہے گا، دنیا میں چاہے لاکھوں مباحثے ہوں، مگر دین کی تفریق نہ مٹی ہے ، نہ مٹے گی، اکبر ایسا نادان نہ تھا کہ وہ ایسی موٹی بات نہ سمجھتا ہو، پھر بھی وہ نیک نیتی سے اس مغایرت کو دور کرنے کی کوشش کرتا تھا جو ایک مذہب والے کو دوسرے سے ہوتی ہے کہ آپس میں کٹے مرتے ہیں اوراس مدعا کاحصول اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک کہ وہ اعتدال کی پالیسی اختیار نہ کرتا اور اعتدال کی پالیسی جب ہی باور ہوسکتی ہے کہ ہم دوسرے مذہب والوں کا دل نہ دکھائیں۔ اکبر کی مذہبی پالیسی کا فیصلہ دولفظوں میں ہے ، مرنج و مرنجان اور اسی پر ہم اس بحث کوختم کرتے ہیں ۔ ‘‘37؂
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اپنی کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کی چوتھی جلد میں اکبر کے حالاتِ زندگی اور مجدد الف ثانیؒ کے حیات اور کارناموں پر سیرحاصل بحث کی ہے ۔ انھوں نے اکبر کے رویّہ پر بڑی کاری ضرب لگائی ہے اور اس کے کردار و افعال کواسلام کے منافی ٹھہرایا ہے اور اس سے اسلام کے وقار کو مجروح قرار دیا ہے ، مگر اس بحث میں مولانا نے بڑا معتدل رویہ اپنا یا ہے۔ انھوں نے کسی جگہ یہ نہیں تحریر کیا ہے کہ اکبر نے دین الٰہی کے نام سے کوئی نیا مذہب ایجاد کیا تھا۔ بلکہ اس نے جو طریقہ اختیار کیا تھا اسے مولانا نے تفصیل سے بیان کردیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ لوگ اکبر سے دین الٰہی منسوب کریں۔ در اصل اکبر ایک سچے مذہب کا ماننے والا تھا جس کے دل میں صداقت اور حق کی آگ لگی ہوئی تھی، مگر وہ امرِ حق کی تلاش و جستجو میں گم راہی کے دہانے پر پہنچ گیا ، اس میں اس کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا کہ علمائے دربار کا تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے بالکل درست لکھا ہے :
’’ سچ یہ ہے کہ عہدِ اکبری کے تمام فتنہ وفساد کے اصل ذمہ دار یہی علمائے عبید الدنیا ہیں، نہ کہ ابو الفضل و فیضی، حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ اسی عہد کی نسبت اپنے مکاتیب میں بار بار لکھتے ہیں: ’’ ہر فتوے کے دریں زمان در ترویج ملت ودین ظاہر گشتہ از شومی علمائے سوء است کہ فی الحقیقت اشرار مردم ولصوص دین اند ‘‘ 38؂ اولئک حزب الشیطان الا ان حزب الشیطان ہم الخاسرون۔ المجادلہ: 19( وہی لوگ شیطان کی ٹولی ہیں، اور یاد رکھو شیطان کی ٹولی ہی نقصان اٹھانے والی ہے )۔ اکبر نے تمام حاملینِ مذہب کا یہ حال دیکھا تو سرے سے مذہب ہی کو خیر باد کہہ دینا چاہا۔ خود ابوالفضل اور فیضی 39؂ کو بھی انہی لوگوں نے اپنی ہوا پرستیوں اور ظلم و عدوان کے نمونے دکھلا کر اس طریقہ میں آنے کی دعوت دی تھی، جس کی بے اعتدالیاں دیکھ دیکھ کر وہ خود بھی متاسف ہوتے ہوں گے کہ مقصود کیا تھااور کیا سے کیا ہوگیا؟ انھوں نے علماء سوء کے غرور و پندار کا بت توڑنے کے لیے ایک دوسرا بت تیار کیا، جس کا نام اکبر تھا، لیکن آگے چل کر خود اسی بت کی پرستش شروع ہوگئی۔ فیضی نے اگر علمائے وقت کی نسبت یہ کہا تھا تو کیا غلط کہا تھا؟

زبان کشیدہ بدارالقضائے عُجب وریا شہود کذب زدعویٰ گر انِ ایمانی
اگر حقیقت اسلام در جہاں ایں است ہزار خندۂ کفر است بر مسلمانی ‘‘ 40؂
واقعہ یہ ہے کہ اکبر ابتدائی عمر سے ہی مذہب پرست تھا اور دین سے اس کو خاصا لگاؤ تھا، 41؂ یہی چیز اکبر کے ابتدائی عہدِ حکومت میں نظر آتی ہے ، بلکہ اس زمانے میں تو اس نے مذہبی علما پر اتنا اعتماد کیا کہ سلطنت کے بیش تر اہم امور ان کی تصویب پر ہی چھوڑ دیے تھے، جنھوں نے ان امور میں انصاف سے کام نہیں لیا اور اپنے مفاد کے پیشِ نظر دینی معاملات میں آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی تاویلیں غلط ڈھنگ سے کیں ، اس وجہ سے بادشاہ علما سے بد ظن ہوکر دین کے معاملہ میں شکوک و شبہات کرنے لگا، پھر ایک دوسرے گروہ نے اکبر کو دینی معاملات میں اس قدر گم راہ کیا کہ وہ دین اسلام کی حمایت کیا کرتا اور اس کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کیا کرتا اس نے سرے سے اسلام کو خیر باد کہہ دیا اور ایسے ایسے غلط امور انجام دیے جو ایک مسلمان بادشاہ کے لیے صحیح نہ تھے۔ ان کاموں کو لوگوں نے دین الٰہی کا نام دیا ہے، مگر درباری مورخین نے اسے دین رہ نمونی ، روش، طریقہ اور بعد کے مورخین ’’صلح کل‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ بدایونی نے ان اصطلاحات کے باوجود اسے گم راہ ٹھہرایا ہے ، حالاں کہ خود بدایونی بادشاہ کی چاپلوسی کرنے میں ابو الفضل ، فیضی اور دیگر مقربین بادشاہ سے آگے نہ تھے تو ان سے کم بھی نہ تھے۔ 42؂ انھوں نے عہدِ اکبری کی جو تاریخ لکھی وہ اتنا چھپ چھپا کر لکھی کہ سوائے اللہ اور بدایونی کے کسی کو اس کا علم نہ ہوسکا، یہی وجہ ہے کہ جب یہ کتاب منظر عام پر آئی تو جہاں گیر نے اس کو نذرِ آتش کروادیا۔ 43؂
بہر حال اکبر کے حق میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مروجہ اسلام کے دائرے سے باہر آجانے کے بعد اس نے علی الاعلان خدا یا نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ کسی کو اپنا نیا مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا۔ 1001ھ میں فیضی کے انتقال کے بعد اس نوساختہ دین کے دو بڑے ستون گر پڑے۔ 1007ھ میں ابو الفضل کو دکن کی مہمات پر بھیج دیا گیا تو دربار میں دین الٰہی کی سرگرمیاں مدھم پرگئیں اور بقول جہاں گیر ابو الفضل کے خا تمے (1011ھ) کے بعد اکبر کی بد اعتقادی کا بھی خاتمہ ہوگیا اور وہ ایک پاک عقیدہ مسلمان کی طرح دنیا سے خدا کے حضور میں گیا۔ اگر چہ اکبر کی وفات کے ساتھ دین الٰہی کا خاتمہ ہوگیا، لیکن اس کی بدولت ملک کے اندر بے دینی اور بدعت کی جو رَو چل نکلی تھی وہ دورِ جہاں گیری میں بھی ایک عرصے تک جاری رہی ۔اس کے خلاف راسخ العقیدہ مسلمانوں کی طرف سے نہایت شدید ردِّ عمل کا اظہار ہوا جس کی نمائندگی نقشبندیہ تصوف میں حضرت شیخ احمد سرہندیؒ نے اور علوم دینیہ میں شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ 45؂ نے کی۔ 46؂
جن لوگوں نے اکبر کی اس بے دینی کو ’صلح کل‘ کا نام دیا ہے ، وہ بھی اس مسئلہ کو اچھی طرح نہ سمجھ سکے ، در اصل صلح کل کی پالیسی اکبر کے ابتدائی عہد حکومت سے ہی شروع ہوجاتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس کے ابتدائی عہد حکومت سے ہندو مسلم درباری رکن اور عہدہ دار تھے جن کی مخالفت درباری عالموں نے بھی نہیں کی ۔ مگر بعد میں اس نے اس صلح کل سے ہٹ کر ایک دوسری روش اختیار کی جو ایک مسلمان حکم راں کے لیے درست نہ تھی اور جس نے اسلام کو بہت نقصان پہونچایا۔ چنانچہ شیخ اکرام اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’ اکبر کے جن اقدامات نے مسلمانوں کو زیادہ دکھ پہونچایا اور جن کی بجاطور پر سخت مخالفت ہوئی وہ اس کے کوئی پندرہ سال بعد عمل میں آئے ، اور وہ قواعد و احکام تھے جن کو ’دین الٰہی‘کا نام دیا جاتا ہے ۔ ان کی بنیاد عبادت خانہ 47؂ کی تلخ اور شر انگیز بحثوں میں رکھی گئی۔ ان کا نتیجہ 1579ء کا محضر 48؂ تھا جس کے مطابق بعض حالات میں بادشاہ کو اختلافی مسائل کے فیصلے کا اختیار دیا گیا۔ خوشامدیوں نے کہنا شروع کیا کہ پرانی پیشین گویوں کے مطابق اختلافوں کے مٹنے کا وقت آگیا ہے ۔ دکن میں ایک بادشاہ نے ’جگت گورو‘ کا لقب اختیار کیا۔ اکبر نے بھی ، جو زیادہ اختیارات اپنے پاس چاہتا تھا، دنیوی حکومت کے ساتھ دینی راہ نمائی کے میدان میں قدم رکھا اور مریدوں کا سلسلہ شروع کیا ۔ جن کے آئین و طریقے مختلف مذہبوں سے جمع کیے گئے تھے اورجنھیں بعد کے مورخین نے ’دینِ الٰہی‘ کا نام دیا۔ ایک مسلمان بادشاہ کی طرف سے یہ اقداماتمسلمانوں کو سخت ناپسند تھے، لیکن ان کا طریق صلح کل سے ، جس کی جہاں گیر اتنی تعریفکرتا ہے ، کوئی تعلق نہ تھا اور فی الحقیقت ایک حاکم کا ایک خاص سلسلہ کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک کرنا اور اسے ایک خاص درجہ دینا طریقِ صلح کل کی خلاف ورزی ہے۔‘‘ 49؂
اکبر کے مذہبی معتقدات کے سلسلے میں اربابِ قلم اور دانش وروں نے انصاف سے کام نہیں لیا ۔ یہ بات صحیح ہے کہ وہ ’صلح کل‘ کا پیام بر تھا اور اس کے ذریعہ اس نے مغلیہ حکومت کو استحکام بخشنے کی کوشش کی۔ یہ پالیسی ابتداء عہدِ حکومت سے شروع ہوجاتی ہے، اس کا اس کی بے دینی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی پالیسی دوسرے مسلم سلاطین کے عہد میں بھی دیکھی جاسکتی ہے ، البتہ اکبر نے اس میں زیادہ ہی غلو کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ اکبر نے ایسے بہت سے کام کیے جو سراسر اسلام کے منافی تھے، مگر اس کا ذمہ دار ہم پوری طرح صرف اس کو نہیں ٹھہراسکتے، وہ ایک عام آدمی کی طرح تھا، جس کو نوشت و خواند سے پوری طرح واقفیت نہ تھی، اس کا ذہن کورے کاغذ کی طرح تھا، علمائے دربار نے اس پر غلط یا صحیح جو کچھ لکھ دیا وہ نقش کالحجر ہوگیا۔ اگر معاصر علما اختلاف کا شکار نہ ہوتے اور اسلام کی نمائندگی ٹھیک طرح کرتے تونوبت یہاں تک نہ پہنچتی ۔ باوجود اس خامی کے اکبر کی حکومت ایک مستحکم حکومت تھی ، اس حکومت میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور اسلامی علوم و فنون کو کافی عروج حاصل ہوا ، اس کے بعد اس سلسلے کو اس کے جانشینوں نے آگے بڑھایا، جس کی وجہ سے آج بھی مغلیہ حکومت کے کارنامے سنہری حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں اور اس میں اکبر کا نام نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ در اصل اکبر نے محسوس کیا کہ کثیر التعداد ہندوؤں کو قرآن کے زیر اطاعت نہیں رکھا جاسکتا ، اس کے لیے اس نے ایک اور ناپسندیدہ طریقہ تلاش کیا، اس لیے سنی مسلمان برہم ہوگئے اور انھوں نے جہاں گیر کو اکبر کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا۔ جہاں گیر اپنے باپ کے سلسلے میں لکھتا ہے کہ انھوں نے بت شکنی کو حکماً بند کردیا ، جب میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو جواب ملاکہ ملک کی پانچ حصہ آبادی ہندوؤں اور غیر مسلموں کی ہے ، اگر میں ایسا نہ کروں تو اس کا مطلب ہوگا کہ میں اپنی رعایا کو تہہ تیغ کرادوں۔ 50؂ اکبر اور جہاں گیرکی گفتگو سے اس کا نقطہ نظر سمجھا جاسکتاہے ۔ صحیح بات یہ کہ وہ اسلام کے موقف سے بے خبر تھا۔ اسلام نہ تو غیر مسلم رعایا کو تہہ تیغ کرنے کا حکم دیتا ہے اور نہ ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرتا ہے ۔ وہ ان کی پوری پوری حفاظت کرتا اور انھیں مذہبی آزادی عطاکرتا ہے ۔
آخر میں ہم اپنی گفتگو سید صباح الدین عبد الرحمن کی کتاب کے ایک اقتباس پر ختم کرتے ہیں۔ وہ اکبر کے ’دینِ الٰہی ‘ اور بدایونی کے بادشاہ اور علما کے سلسلے میں بیانات کاموازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اکبر روادارانہ میل جول کا سب سے بڑا علم بردار سمجھا جاتا ہے ، ملا مبارک ناگوری کی ساری مجتہدانہ قوتیں اس کی حمایت میں صرف ہوئیں، ابو الفضل نے اپنی انشا پردازی کا سارا کمال بھی اکبر کو اکبر اعظم بنانے میں دکھایا، لیکن ملا عبد القادر نے اس کے خلاف اپنی تحریروں سے فضا پیدا کردی اور اس سے اکبر پر بہترسے بہتر کتابیں لکھنے کے باوجود مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقہ کے دلوں میں اس کے خلاف جو آزردگی بلکہ اسلام دشمنی کی کدورت پیدا ہوگی تھی وہ آج تک دور نہیں ہوئی اور یہ طبقہ اب کچھ اکبر سے اس لیے مطمئن نظر آتا ہے کہ نئی تحقیقات سے ثابت کیاجارہا ہے کہ وہ اپنے مذہبی خیالات سے تائب ہوکر آخر وقت میں ایک سچا مسلمان ہوگیا تھا اور اس کا خاتمہ بالخیر ہوا، لیکن پھر بھی وہ اکبر کو عالم گیر پر ترجیح دینے کے لیے تیار نہیں، حالاں کہ عالم گیر کی مخالفت میں تاریخی لٹریچر کا بڑا ڈھیر لگادیا گیا ہے۔ 51؂

حواشی و مراجع
1؂ اکبر بن ہمایوں حمیدہ بیگم کے بطن سے بمقام امر کوٹ 1543ء /949ھ میں پیدا ہوا ، وہ شروع سے ہی پڑھنے لکھنے سے جی چرانے لگا تھا، اور اس کی دل چسپی کھیل و تفریح اور ملکی سیاست میں مرکوز ہوگئی تھی،1556ء میں ہمایوں کی موت کے بعد تخت سلطنت پرمتمکن ہوا، اس وقت اس کی عمر تیرہ سال نو ماہ کی تھی۔ اس کی وفات 1605ء میں ہوئی ۔ (تفصیلی مطالعہکے لیے ملاحظہ فرمائیں: تاریخ فرشتہ ، محمد قاسم فرشتہ ہندو شاہ ، اردو ترجمہ از عبد الحی خواجہ ، مکتبہ ملت دیوبند، 1983ء، ج: 1،ص: 731۔680)
2؂ دینِ الٰہی کے عناصرِ ترکیبی میں ان امور کو شامل گیا گیا ہے جو عین اسلام کی ضد ہیں، مثلاً زکوٰۃ و جزیہ کو ختم کردیا گیا، شراب اور جوئے کو جائز قرار دیا گیا ، ذبیحۂ گاؤ کی ممانعت کردی گئی، سن ہجری کو موقوف کردیا گیا، ملائکہ ، بعث بعد الموت ، وحی اور رسالت کا انکار کردیا گیا ، بادشاہ کے سجدۂ تعظیمی کو جائز قرار دیا گیا، چچا زاد بھائی اور بہن کے درمیان مناکحت کو ممنوع کردیا گیا وغیرہ ۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : منتخب التواریخ، ملا عبد القادر بدایونی ، مرتبہ احمد علی وولیم ناسولیس ، مطبوعہ کلکتہ ، 1865ء ، ج:2، ص:306۔305۔ دربار اکبری ، مولوی محمد حسین آزاد ، مکتبہ کلیاں لکھنو، 1910ء، دولۃ المغول فی الہند، یوسف کوکن عمری ، مدراس، 1987ء، ص: 53۔ Muslim rule in India, Vidya Dhar Mahajan, S.Chand & Com.Delhi, 1965. Part IInd P:104 دینِ الٰہی اور اس کا پسِ منظر ، پروفیسر محمد اسلم ، ندوۃ المصنفین دہلی، 1969ء ، ص:156۔91۔
3؂ ملا عبد القادر بدایونی قصہ تھونڈہ ، قدیم ریاست جے پور 1540ء/947ھ میں پیدا ہوئے ، 1559ء میں وہ اپنے والد ملوک شاہ کے ساتھ آگرہ آئے اور شیخ مبارک ناگوری سے تعلیم حاصل کی ، 1574ء میں اکبر کے دربار میں پہونچے اور دربار کی مسجد کے امام مقرر ہوئے، ان کی وفات 1610ء میں ہوئی ۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ، ان کی کتاب منتخب التواریخ تاریخ کی اہم کتابوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ انھوں نے مہا بھارت کا بھی ترجمہ کیا ہے۔ (ملاحظہ کیجیے اردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ ، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور ، 1969ء ، ج: 4، ص:144۔ 143) تذکرہ علمائے ہند، رحمن علی، لکھنو، 1914ء ،ص: 130۔
4؂ ابو الفضل بن شیخ مبارک ناگوری 6؍ محرم 958ھ /14؍ جنوری 1551ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے ، پندرہ سال کی عمر میں معقول و منقول سے فارغ ہوگئے ،جب ان کے بڑے بھائی فیضی دربارِ اکبری میں پہونچے توحالات ایسے پیدا ہوگئے کہ یہ بھی 981ھ/1574ء میں اکبر کی خدمت میں پیش کیے گئے ، بتدریج وہ اکبر کے خاص معتمدعلیہ بن گئے ، دین الٰہی کی تشکیل اور تنفیذ میں اس خاندان کا بہت ہاتھ تھا، دکن کی ایک مہم سے واپس آرہے تھے کہ انھیں راستے میں قتل کردیاگیا، (4؍ ربیع الاول 1011ھ/12؍ اگست 1602ء ) ابو الفضل بڑے پایہ کے مصنف تھے، ان کااکبر نامہ مع آئین اکبری اس عہد کی تاریخ کا بیش بہا ماخذ ہے ، اس کے علاوہ عیاردانش، انشائے ابو الفضل (مکتوبات) ان کی معروف تصانیف ہیں۔ (تذکرہ، مولانا ابو الکلام آزاد، مرتب مالک رام ، ساہتیہ اکادیمی دہلی ، 1990ء ، ص: 362۔ 363)۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: آئین اکبری ، ابو الفضل ، مترجم مولوی محمد فدا علی طالب ، سنگ میل پبلیکیشنز لاہور، ج:2، ص: 389۔426۔ طبقات اکبری، نظام الدین احمد، کلکتہ ، 1913ء، ج:2، ص:458۔ مآثر الامرا، شہنواز خاں ، مرتب اشرف علی و عبدالرحیم ، کلکتہ ، 1891ء، ج:2، ص:608۔622۔ تذکرہ علمائے ہند، ص: 4۔5۔ نزہۃ الخواطر، سید عبد الحی الحسنی، حیدر آباد، 1947ء ،ج:5، ص:24۔26۔دربار اکبری،ص: 521۔584۔
5؂ آئین اکبری ، ج:2، ص: 315، ح:2۔
6؂ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’منتخب التواریخ ‘‘ ج: 2، ص:330۔255
7؂ ایضاً
8؂ فرشتہ کا نام ملا محمد قاسم ہندوشاہ ہے ، 1552ء میں اپنے آبائی وطن استرآباد میں پیدا ہوا۔ بچپن میں احمد آباد آگیا، وہیں اس نے تعلیم حاصل کی ۔1560ء میں بیجا پورمیں ابراہیم عادل ثانی کی ملازمت اختیار کرلی۔ یہیں اس نے سب سے پہلے ’’اختیاراتِ قاسمی‘‘ کے نام سے طب کے موضوع پر ایک کتاب لکھی۔ ابراہیم عادل شاہ کو جب علم تاریخ سے فرشتہ کی دلچسپی کاحال معلوم ہوا تو اس نے اسے ہندوستان میں اسلامی عہد حکومت کی تاریخ لکھنے کا حکم دیا۔ فرشتہ نے یہ تاریخ 1606ء میں لکھنی شروع کی اور پانچ سال کی محنت شاقہ کے بعد اسے مکمل کرلیا۔ فرشتہ کی تاریخ وفات معلوم نہیں۔ (تفصیل کے ملاحظہ ہو: تاریخ فرشتہ، محمد قاسم فرشتہ ، دیباچۂ مترجم اور مولف کتاب کا ابتدائیہ، ج:1،ص:44۔35۔ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ ،1987ء ،ج:15، ص:270۔265۔
9؂ شیخ نور الحق محدث شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے بڑے صاحب زادے تھے ، عہدِ شاہ جہانی میں آگرہ میں قاضی رہے ، صاحب تصنیف ہیں، بانوے سال کی عمر میں 1073ھ/ 1632۔1633ء میں انتقال کیا۔ (تذکرہ، ص : 470) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: نزہۃ الخواطر ، ج:5، ص: 424۔425۔ ابجد العلوم، صدیق حسن خاں قنوجی، بھوپال، 1295ھ، ص: 901۔ حدائق الحنفیہ، فقیر محمد دیلمی، نول کشور لکھنو، 1886ء ، ص:148۔ اتحاف النبلا المتقین باحیاء مآثرفقہاء المحدثین ، صدیق حسن خاں،کانپور، 1280ھ، ص:426۔427۔ مآثر الکرام ، میر غلام علی آزاد بلگرامی، مرتبہ عبد اللہ خاں ، آگرہ، 1910ء، ص:201۔202۔
10؂ جہاں گیر سلطنتِ مغلیہ کا چوتھا حکم راں اور شہنشاہ اکبر کا بیٹا تھا، 1569ء میں پیدا ہوا، اکبر کو شیخ سلیم چشتیؒ سے بڑی عقیدت تھی، اس لیے انہی کے نام پر اس نے اس کانام سلیم رکھا، شیخ کا جب انتقال ہوگیا تو اکبر نے انہی کے مکان سے قریب ایک عالی شان عمارت بنوائی اور اس کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔ یہ فتح پور سیکری میں واقع ہے ۔ اکبر کے انتقال کے بعد 1605ء/ 1014ھ میں جہاں گیر تخت نشیں ہوا۔ (ہندوستان کے مسلمان حکم رانوں کے عہد کے تمدنی جلوے، سید صباح الدین عبد الرحمن، مطبع معارف اعظم گڑھ، 1962ء، ص: 53)۔ منتخب التواریخ ، ص:2، ص: 108۔105۔120۔
11؂ منتخب اللباب، ہاشم علی (خافی خاں نظام الملک ) مترجم محمود احمد فاروقی، نفیس اکیڈمی کراچی ، 1963ء ، ج:1، ص:220،۔
12؂ ایضاً ، ج:1،ص:219۔
13؂ خان اعظم مرزا عزیز کو کہ، شمس الدین محمد اتگہ خاں (خان اعظم) کا بیٹا، اکبر نے اس کی ماں جی جی اتگہ کا دودھ پیا تھا اور دونوں کی پرورش ایک ساتھ ہوئی تھی۔ 1033ھ/ 1623۔1624ء میں احمد آباد میں رحلت کی ۔ شعر بھی کہتے تھے۔ (تذکرہ ، ص: 358) تفصیلی حالات کے لیے ملاحظہ ہو: منتخب التواریخ ، ج:2، ص:300۔301۔ طبقات اکبری ، ج:2، ص: 148۔ دربار اکبری ، ص:283۔318۔
14؂ منتخب اللباب ، ج:1، ص: 224۔223
15؂ بحوالہ رود کوثر، شیخ محمد اکرام ، ادبی دنیا ، مٹیا محل ، دہلی ، 1998ء ، ص:128
16؂ ایضاً ، ص:129۔128
17؂ مثلاً اکبر نے امبیر ( جے پور) اور بیکانیر کے راجاؤں کی لڑکیوں سے شادی کی تھی۔ مورخین نے جو دھہ بائی کا بھی نام لیا ہے ، جوجودھہ پور کی رانی تھی، مگر اس میں اختلاف ہے ۔ (تاریخ دعوت و عزیمت ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنؤ، 2000ء ، ج:4، ص:107۔ واقعات دار الحکومت کے مصنف نے جودھہ بائی کو سلیم کی بیوی بتایا ہے ۔ (واقعات دارالحکومت دہلی، بشیرالدین ، شمسی مشیر پریس آگرہ، 1919ء، ج:1، ص: 335۔
18؂ ہندوستان کے سلاطین ، علما اور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر ، سید صباح الدین عبد الرحمن، معارف اعظم گڑھ ، 1964ء ، ص:64
19؂ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، منتخب التواریخ ، ج:2،ص: 262۔260۔ علماء ہند کا شاندار ماضی، مولانا سید محمد میاں ، ج:1،ص:28۔29۔ تاریخ دعوت و عزیمت ،ج:4، ص:107
20؂ بیر بل اکبر کے نورتن میں سے تھا، اس کا اصل نام مہیش داس تھا، 1528ء میں پیدا ہوا، اپنی ظرافت طبع کی خوبی سے اکبر کے دربار سے جڑگیا اوربتدریج اس کے کے قریب ہوتا گیا، یہاں تک کہ مقربین خاص میں شامل ہوگیا ، اس کے لطائف و ظرائف آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں، بادشاہ نے اسے دوہزاری منصب عطاکیا تھا، 1586ء میں اس کا انتقال ہوا۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : Muslim rule in India. 2nd Part P.121۔ واقعات دارالحکومت دہلی، ج:1، ص: 137)
21؂ راجہ بھگوان داس امبیر کے راجہ بہاری مل کا لڑکا تھا اور اکبر کی بیوی مریم زمانی کا بھائی ، اکبر نے اس کو پنج ہزاری کامنصب عطا کیا تھا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: Muslim rule in India. 11nd Part P.121 ۔ واقعات دارالحکومت دہلی، ج:1، ص: 337)۔ دولۃ المغول فی الہند، ص: 98
22؂ منتخب التواریخ ، ج:2، ص: 313
23؂ راجہ مان سنگھ راجہ بھگونت کا لڑکا اور ایک بڑا سپہ سالار تھا، اس نے بادشاہ کی طرف سے بڑے بڑے جنگی معرکے سر کیے، اس کی وفات 1597ء میں ہوئی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: منتخب التواریخ ،ج:2، ص:364۔
24؂ ایضاً ، ج:2، ص:364 25؂ ایضاً ، ج:3، ص:92
26؂ ایضاً۔
27؂ The Muslim Community of the Indo Pakistan Subcontinant P:144-145 بحوالہ رود کوثر ،ص:132۔133
28؂ مثلاً نظام خاں بدخشی( مصنف طبقات اکبری) ، ابو الفضل (مصنف اکبرنامہ و آئینِ اکبری) ، ملا عبد القادربدایونی(مصنف منتخب التواریخ )، اسد بیگ (مصنف اکبرنامہ) ، شیخ عبد الحق محدث( مصنف تاریخِ حقی)، نور الحق دہلوی(مصنف زبدۃ التواریخ) اور پرتکیز پادری۔
29؂ رود کوثر،ص:112 30؂ ایضاً، ص:116
31؂ ایضاً۔ 32؂ ایضاً۔
33؂ شیخ احمد سرہندیؒ ،مجدد الف ثانی کے لقب سے مشرف، شوال 971ھ/مئی جون 1564ء میں سرہند میں پیداہوئے ۔ سترہ برس کی عمر میں علومِ عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم مختلف اساتذۂ عصر سے مکمل کی ، اس کے بعددرس و تدریس، تصنیف و تالیف اور بیعت و ارشاد میں مشغول ہوگئے،یہ زمانہ جہاں گیر کی حکم رانی کا ہے ، لوگوں نے ان کے خلاف اس کے کان بھرے ، جہاں گیر نے انھیں دربار میں طلب کیا اور بالآخر گوالیار کے قلعے میں قید کردیا، تین برس (صحیح ایک برس ) کے بعد اس شرط پر رہائی ملی کہ لشکر کے ساتھ رہیں، چناں چہ آٹھ برس لشکرِ جہاں گیری کے ساتھ رہے، بعد میں شاہ جہاں نے جو ان کا معتقد تھا، اس سے آزادی دلائی ، اس کے بعد وہ سرہند آگئے اور یہیں 27؍ صفر 1034ھ/ یکم نومبر 1624ء کو رحلت کی ۔ مزار سرہند میں ہے ، ان کی تصنیفات میں ’مکتوبات‘ بہت مشہور ہیں جو تین ضخیم جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ (تذکرہ: 364) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: تذکرۂ علماء ہند ، ص:10۔12۔ سبحۃالمرجان، میر غلام علی آزاد بلگرامی، بمبئی ، 1303ھ ، ص: 47۔ 52۔ حدائق الحنفیہ، ص: 403۔ 406۔ نزہۃ الخواطر ، ج:5،ص:41۔ حیات مجدد ، پروفیسر محمد فرمان، مجلس ترقی ادب لاہور، 1958ء ، ص:8۔1۔ روضۃ القیومہ ، کمال الدین محمد احسان ، اردو ترجمہ: ولی اللہ صدیقی، مطبوعہ فرید کوٹ پنجاب ، ج:1،ص:13۔73۔ تصوف اور شریعت ، ڈاکٹر عبد الحق انصاری، (اردو ترجمہ مفتی مشتاق تجاروی) مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی ، 2001ء ، ص:31۔33۔ سرمایۂ عمر ، محمد اسلم، ندوۃ المصنفین، لاہور، 1976ء، ص: 113۔131۔ علمائے ہند کا شاندار ماضی ، ج:1،ص:249۔1۔
34؂ مکتوبات امام ربانی ، (مجدد الف ثانی) مرتب نور محمد ، مطبع نور کمپنی ، لاہور ، 1384ھ ، ج:1، ص:81۔162۔225، م:47
35؂ ظاہر بینوں سے مراد بالخصوص مخدوم الملک ملا محمد جون پوری اور صدر الصدور ملا عبد النبی ہیں۔ بادشاہ اپنے ابتدائی عہدِ حکومت میں ان دونوں کی بہت عزت اور قدر کرتا تھا، سلطنت کے دینی امور انھیں کے ذمہ تھے، مگر یہ دونوں آپس میں لڑتے بھڑتے اور ایک دوسرے کی تجہیل و تکفیر کرتے تھے ، جس سے بادشاہ ان دونوں سے بہت بدظن ہوگیا، اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات میں پڑگیا ، یہاں تک کہ اسلام سے ہی پھر گیا۔
36؂ رود کوثر ، ص: 111 37؂ واقعات دار الحکومت دہلی، ج:1، ص: 386
38؂ ترجمہ: اس زمانہ میں ہر وہ فتویٰ جو دین و ملت کی اشاعت کے لیے ظاہر ہوا، علماء سو کی بد بختی کی وجہ سے ہوا جو کہ در حقیقت بدترین لوگ اور دین کے لصوص ہیں۔
39؂ شیخ ابو الفیض فیضیؔ شیخ مبارک کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ وہ 954ھ/ 1547۔1548ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے ، تعلیم اپنے والد سے پائی۔ انھیں مختلف علوم و فنون میں مہارت تامہ حاصل تھی، پورے قرآن کی تفسیر صنعت غیر منقوط میں ’’سواطع الالہام‘‘ کے نام سے قلم بند کی ۔ رامائن، بھگوت گیتا اور لیلاوتی کا ترجمہ فارسی میں کیا، اکبر نے انھیں ملک الشعراء کا خطاب دیا تھا۔ ان کا دیوان طبا شیر الصبح کے نام سے چھپ چکا ہے ۔ یکم صفر 1004ھ/5؍ اکتوبر 1595ء کو آگرہ میں وفات پائی۔ (تذکرہ، ص:363۔364) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: آئین اکبری ، ج:2، ص:389۔426۔ منتخب التواریخ ، ج:3، ص: 299۔310۔ مآثر الکرام ، ص: 198۔ 200۔ تذکرۂ علمائے ہند ، ص:4۔ ابجد العلوم ، ص: 897۔ مفتاح التواریخ ، طاس ولیم بیل ، نول کشور ، لکھنو، 1867ء، ص: 200۔201۔ دربار اکبری ، ص: 406۔ 473۔
40؂ تذکرہ ، ص: 42۔ ترجمہ یہ ہے : عجب و ریا کے دار القضا میں زبان نکالے ہوئے ، ایمان کے دعوے داروں سے جھوٹی گواہی ، اگر دنیا میں اسلام کی حقیقت یہی ہے تو ایسی مسلمانی پر کفر کی ہزار خندہ زنی ہے ۔
41؂ اکبر شروع میں مذہب کا پابند تھا، نماز روزہ اور دینی امور کی بڑی پابندی کرتا تھا ، نماز کا وقت ہوجانے پر کبھی کبھی اذان خود ہی دیتا تھا اور مسجد میں جھاڑو بھی اپنے ہاتھ سے لگاتا ، حدیث کی سماعت کے لیے ملاعبد النبی کے گھر جاتا اور کبھی کبھی ان کی جوتی سیدھی کردیتا تھا، ملاہی نے ایک تقریب میں بادشاہ کو بھرے دربار میں اپنے ڈنڈے سے مارا، مگر بادشاہ نے ان سے کچھ نہیں کہا، جمعہ کی پوری پوری رات علما اور مشائخ کی صحبت میں گزار تا، اہل اللہ سے عقیدت اور اس کے احترام میں ان کے روضہ پر کوسوں پاپیادہ چل کر حاضری دیتا اور وہاں فاتحہ پڑھتا اور نذرو نیاز چڑھاتا۔
42؂ تفصیل کے لیے دیکھیے : دربار اکبری، ص: 473۔521
43؂ منتخب اللباب ، ج:1، ص: 220۔
44؂ شیخ مبارک ناگوری ایک یمنی الاصل خاندان کے چشم و چراغ تھے، جو آکر ریل (سندھ) میں بس گیا تھا، یہاں سے ان کے والد شیخ خضر نقلِ مکان کرکے ناگور(نزد اجمیر) چلے آئے ، شیخ مبارک یہیں ناگور میں 911ھ/1505۔1506ء میں پیدا ہوا ۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں بعض اساتذہ سے حاصل کی۔ پھرناگور سے نکلے تو احمد آباد میں وہاں کے بعض مشہور علما سے استفادہ کیا۔ برسوں کے بعد 1551ء میں واپس وطن آئے ، لیکن اب ناگور کے بجائے انھوں نے آگرہ (چارباغ) میں اقامت اختیار کی ، شیخ کے دونوں بڑے بیٹے شیخ ابو الفیض فیضی ؔ اور شیخ ابو الفضل یہیں پیدا ہوئے ۔ ملا مبارک اپنے خیا لات و معتقدات میں بہت آزاد تھے ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک فیضیؔ اور ابو الفضل کو اکبر کے دربار میں عروج حاصل نہیں ہوا، ملا مبارک مذہبی حلقوں اور ان کے زیر اثر اہلِ اقتدار کا تختۂ مشق بنے رہے ، جب یہ اکبر کے مصاحبوں میں شامل ہوئے تو انھیں چین کا سانس لینا نصیب ہوا، بلکہ ان کا عروج شروع ہوا۔ اکبر کے مذہبی خیالات کی تشکیل میں شیخ مبارک (اور ان کے دونوں بیٹوں) کا بہت ہاتھ تھا۔ شیخ مبارک کئی کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں سب سے مشہور ان کی تفسیر ’’منبع العیون المعانی ومطلع الشموس المثانی‘‘ (چار جلدیں) ہے، نوّے سال کی عمر میں 17؍ ذی قعدہ 1001ھ/ 4؍ دسمبر 1593ء کو انتقال کیا ۔ (تذکرہ ، ص: 353۔ 355) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : منتخب التواریخ، ج:3، ص: 73۔75۔ آئین اکبری، ص: 243۔262۔ طبقات اکبری، ج:2، ص:472۔ مآثر الکرام ، ص: 197۔ 198۔ حدائق الحنفیہ، ص: 394۔ تذکرۂ علمائے ہند، ص:174۔ نزہۃ الخواطر، ج:5، ص: 320۔321۔ دربار اکبری ، ص: 370۔460۔
45؂ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کا خاندان سلطان علاء الدین خلجی کے عہد میں بخارا سے ہندوستان آیا ، ان کے والد شیخ سیف الدین بن سعد اللہ تھے، شیخ عبد الحق محرم 958ھ/جنوری 1551ء میں دہلی میں پیدا ہوئے ، قرآن شریف حفظ کیا اور علومِ متعارفہ میں مہارت حاصل کی ۔ 20۔22؍ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوگئے ، اس کے بعد کچھ عرصہ درس و تدریس کا مشغلہ رکھا،پھر 996ھ/1587۔1588ء میں وہ حجاز چلے گئے ،تین برس تک وہاں کے علماء سے استفادہ کرنے کے بعد 1000ھ میں وطن واپس آئے ، اس کے بعد مدۃ العمر ہندوستان میں علومِ دینیہ بالخصوص حدیثِ نبوی کی اشاعت میں گزاردی ۔ اس ملک میں علمِ حدیث کی ترویج بہت حد تک انہی کی مساعی کا نتیجہ ہے ، مختلف موضوعات مثلاً تفسیر، تصوف، حدیث ، فقہ ، عقائد وغیرہ سے متعلق کم و بیش ساٹھ کتابیں لکھیں، 21؍ ربیع الاول 1052ھ/ 9؍جون 1642ء کو انتقال کیا، (تذکرہ، ص: 350) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: تکملۂ اخبار الاخیار ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی، دہلی ، 1332ھ۔ اتحاف النبلا ، ص: 303۔305۔ حدائق الحنفیہ ، ص: 409۔412۔ منتخب التواریخ ، ج:3، ص: 112۔117۔ تذکرہ علماء ہند، ص: 109۔110۔ ابجدالعلوم، ص: 900۔901۔ مفتاح التواریخ ، ص: 246۔ نزہۃ الخواطر ، ج:5، ص: 201۔ 210۔ حیات شیخ عبد الحق محدث دہلوی، خلیق احمد نظامی ، دہلی ، 1953۔
46؂ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو اردو دائرۂ معارف اسلامیہ ، پنجاب یونیورسٹی لاہور، 1972،ج:9، ص: 568 ۔
47؂ یہ عمارت بادشاہ اکبر نے 1578ء/983ھ میں فتح پوری سیکری میں بنوائی تھی، اس کے اندر بادشاہ متعین اوقات میں بیٹھتا اور علما بھی تشریف لاتے اور دینی مسائل پر بحث و تمحیص کی جاتی اور بادشاہ اس بحث سے مستفیض ہوتا۔
48؂ محضر کی تفصیل بدایونی کی تاریخ جلد2، ص:271 پر دیکھی جاسکتی ہے ۔ یہاں اختصار ملاحظہ فرمائیں: ’’ خدا کے نزدیک سلطانِ عادل کا مرتبہ مجتہد کے مرتبہ سے زیادہ ہے اور حضرت سلطان کہف الانام امیر المومنین ظل اللہ علی العالمین ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ غازی سب سے زیادہ عدل والے، عقل والے اور علم والے ہیں ، اس بنیاد پر ایسے دینی مسائل میں جن میں مجتہدین باہم اختلاف رکھتے ہیں اگر وہ اپنے ذہن ثاقب اور رائے صائب کی روشنی میں بنی آدم کی آسانیوں کے مد نظر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اسی کو معین کردیں اور اس کا فیصلہ کریں تو ایسی صورت میں بادشاہ کا فیصلہ قطعی اور اجتماعی قرار پائے گا اور رعایا اور برایا کے لیے اس کی پابندی حتمی و ناگزیر ہوگی۔‘‘ تاریخ دعوت و عزیمت ، ج: 4، ص: 109۔
49؂ رود کوثر، ص:87
50؂ اسلامیان ہند، خدابخش اورینٹل لائبریری ، پٹنہ، 1993ء ، ج:6، ص:28۔29
51؂ ہندوستان کے سلاطین ، علما اور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر ، ص:54۔

تبصرے بند ہیں۔