کشمیر میں روسی سفیدے کی ستم ظریفی

رُوسی سفیدے کی ارتقاء اور کشمیری سفیدے کی بقاء، ایک مدعو کی ہوئی اُلجھن

احمد کشمیری۔ ٹنگمرگ
پراگ جسے عام طور پر سفیدوں کی روئی کہا جاتا ہے اب کشمیر میں ایک اور مصیبت بن کر اُبھر آئی ہے،جو کہ کم از کم ایک مہینے تک جاری رہتی ہے۔پہلے زمانے میں ہمیں سفیدوں سے خارج ہونے والی اسطرح کی شگوفوں کی خاک نظر نہیں آتی تھی۔ کہا جارہا ہے کہ اِس نویلی مصیبت کا آغاز اُس وقت ہوا جب تقریباً تیس برس قبل کشمیر میں سفیدوں کی ایک پرائی قسم، روسی سفیدے، متعارف کرائے گئے۔ تب سے ہی ان سفیدوں سے خارج ہونے والی پراگ سے ہمیں تکلیف ہورہی ہے۔ اس مخصوس قسم کے سفیدے کی ان تمام برسوں سے یہاں زبردست نشوونما جاری و ساری ہے۔ ہم لوگوں کی مشکل یہ ہے کہ ہم تمام خارجی چیزوں کو ایکدم قبول کرتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ کیا یہ یہاں کشمیر کے جغرافیائی حالات سے موافقت رکھتے بھی ہیں یا نہیںیا پھر دردِ سر بن کر کسی وقت اُبھر آئیں گے۔برسوں پہلے، مجھے وہ دِن یاد ہے جب لوگوں نے ہارٹیکلچر دفتروں کے سامنے جم گٹھا کیا تھا ان سفیدوں کو حاصل کرنے کے لئے، جو غالباً تب محکمہ سوشل فارسٹری کی جانب سے تقسیم کئے جارہے تھے۔ اگلے روز بھیڑ سے بچتے ہوئے محکمہ کے لوگوں نے نسبتاً ایک خلوت جگہ پر ان سفیدوں کو بانٹ لیا تھا اورمجھے وہاں موجود ایک جان پہچھان والے آدمی کی سفارش پر ایک گٹھا دیا گیا، جس میں ایک سے دو انچ موٹے سفیدے کے پندرہ سے بیس تک پودے تھے۔ آج جب کہ کشمیر میں یہ سفیدے پورے شباب پر ہیں اور چاروں اطراف میں پائے جاتے ہیں اور ایک مصیبت بن گئے ہیں، میں لیکن دیکھتا ہوں کہ لوگ اب بھی اُسی جذبے سے ان سفیدوں کو حاصل کرنے اور زمین میں لگانے کے لئے ’’جدوجہد ‘‘کررہے ہیں۔ ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے کہ ان سفیدوں نے ہمیں فائدہ پہنچھایا بھی ہے یا پھر اُلٹا نقصان ہی کیا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ اب انہوں نے ہمارے صحت کو گویا یرغمال بنالیا ہے۔جو روئی نماپراگ ان سفیدوں سے خارج ہوتی ہے وہ بہت ضرر رساں ہے اور انسانوں کے لئے باعثِ پریشانی ہے۔ ماہرین کا ماننا بھی ہے اور انسان کا زاتی مشاہدہ بھی کہ ان سفیدوں سے خارج ہونے والی اس پراگ سے طرح طرح کی الرجیاں ہوجاتی ہیں، اور بدن کے انتہائی حساس اعضاء جیسے پھیپھڑوں، گلہ، ناک اورآنکھوں میں جلن پیدا ہوجاتی ہے۔کئی لوگ جو طبعی لحاظ سے الرجی کے تئیں زیادہ حساس ہوتے ہیں، ان دِنوں گھروں میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں، اور مجبوری کی حالت میں اگر گھر سے نکلنا پڑے جیسے دکان یا دفتر پر یا ہسپتال جانا ہو تو پھر ماسک(منہ اور ناک کو ڈھک لیتے ہیں) کا استعمال کرتے ہیں۔سکولی طلباء بھی جلن اور الرجی سے کسی قدر بچنے کے لئے ان دِنوں ماسک کا استعمال کرتے ہیں۔ کشمیر ی نژاد سفیدہ جسے عرفِ عام میں کشمیری سفیدہ ہی کہتے ہیں سے جو پراگ خارج ہوتی ہے وہ تعداد میں بھی انتہائی کم ہوتی ہے اور صحت پر بھی اسکا کوئی بُرا اثر نہیں پڑتا ہے۔یہ سفیدہ ظاہر ہے کہ کشمیر کے ماحول سے بالکل موافقت رکھتا ہے،بلکہ اسے کشمیر کی پہچھان بھی مان لینا چاہیئے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روسی سفیدے کے پرائے قسم
کے درآمد سے کیا کسی قدر کشمیر کی اقتصادیات کو کوئی فائدہ پہنچھا بھی ہے یا پھر اس سے الٹا ہمیں لینے کہ دینے پڑ ے ہیں؟ اس بات کو جاننے کے لئے ہمیں دو باتوں پر غور کرنا ناگزیر ہے۔ اول یہ کہ اس درآمد شدہ قسم سے یہاں ایک مہینہ سے زیادہ عرصے تک ان سفیدوں سے خارج ہونے والی پراگ سے ماحول کافی پراگندہ رہ جاتا ہے اور لوگوں کی صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔نظامِ تنفس پر بُرا اثر پڑتاہے، عام شکایتیں چھینکیں آنا،کھانسی آنا،بلکہ اس سے بھی سخت علامات کا وقوع پذیر ہوناجیسے Allergic Rihinitis,Allergic Asthmaحتیٰ کہ Allergic Conjuctivitisکی بیماریاں تک لاحق ہوجاتی ہیں۔
دوسری مصیبت یہ ہے کہ تقریباً ایک مہینے تک یہ پراگ ایک سماجی قنوطیت پیدا کرتا ہے، وہ اسطرح کہ یہ روئی نما پراگ راہ چلتے لوگوں کے پیچھے پڑتا ہے، دکانوں، دفتروں اور مکانوں میں کھڑکیوں اور دروازوں سے اندر داخل ہوجاتا ہے اور لوگوں کے کپڑوں سے چمٹ جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہسفیدے کی یہ مخصوص قسم اقتصادی لحاظ سے فائدہ بخش ہے کیونکہ اس سے میوہ پیٹیوں کے لئے قدرے نرم لکڑی حاصل ہوجاتی ہے۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ محض ایک نقطے کے کسی قدر فائدے کی بنیاد پر لوگوں کے حفظانِ صحت کو داو پر لگایا جائے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سفیدہ کے نقصانات اسکے فوائد سے زیادہ ہیں۔
دوسری جانب جہاں تک کشمیر کے اپنے سفیدہ یعنی کشمیری سفیدہ کا تعلق ہے تو وہ گویا ایک ہمہ جہت قسم کا درخت ہے جس میں کئی لحاظ سے سفیدہ کے دیگر اقسام کے مقابلے میں کئی طرح کے اضافی فاعدے ہیں۔ اولاً تو یہ سفیدہ مقامی ہونے کی وجہ سے ماحول دوست ہے، اس کا قدزیادہ لمبا ہے،اور جنگلات کی لکڑی مثلاً دیودار اور کائیرو وغیرہ کے بعدیہ تعمیراتی لکڑی کے لئے سب سے زیادہ موزوں بھی ہے اور مظبوط بھی۔ کشمیر میں ایک اور قسم کا سفیدہ جسے عرفِ عام میں پنجابی سفیدہ کہا جاتا ہے بھی اچھی خاصی تعداد میں اُگایا جاتا ہے۔ یہ سفیدہ دیگر دو اقسام کے مقابلے میں موٹائی میں تیزی سے بڑھتا ہے۔اگرچہ یہ تعمیراتی لکڑی کے لئے موزوں نہیں ہے تاہم یہ تجارت کے حوالے سے فائدہ بخش ہے۔ اس سفیدے کی شاخوں اور پتوں سے ایک مادہ خارج ہوجاتا ہے جو جسم اور کپڑوں سے چمٹ جاتا ہے اور داغدار بنا کر خراب کردیتا ہے۔اسلئے لوگ اسکی شاخ تراشی کرتے وقت آرضی کپڑے پہنتے ہیں،جو گویا ایک قسم کی وردی کہلاتی ہے۔
کشمیر میں روسی سفیدے کی تیس برس سے چل رہی خاص پرورش کی وجہ سے مقامی کشمیری سفیدے کو کافی دھچکہ لگا ہے، کیونکہ حکام اور عوام دونوں شعوری یا لاشعور ی طور پر’’ مقامیت سے بیمار‘‘ہیں، یعنی کہ ہم لوگ مقامی سونے کو ناپسند کرتے ہیں اور پرائی چاندی کو پسند کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ روسی سفیدے کو اندھا دھند طریقے پر اُگایا جاتا رہا ہے اور اسکے مضرات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے یہاں تک کہ یہ ہمارے لئے اب ایک مصیبت بن کر اُبھر گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ بھی ہوگئی کہ سڑکوں کی کشادگی کے سلسلے میں بالخصوص سرینگر مظفر آباد شاہراہ پر اور پھر ناربل ٹنگمرگ روڑ پر کشمیری سفیدے کی بے تحاشا کٹائی سے گویا اس نباتاتی وسیلے کی آبادی گھٹ کر رہ گئی۔ کشمیری سفیدے کی آبادی دیگر اقسام کے مقابلے میں بہت حد تک کم ہوگئی ہے بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ خزانہ اب گویا ناپید ہورہا ہے۔ اور یہ ایک ایسے وقت میں ناپید ہورہا ہے جبکہ تعمیراتی لکڑی کا جنگلات کے کٹاو، حصولیابی کے پیچیدہ مراحل اور دیگر کئی وجوہات کی بناء پر حاصل کرنا انتہائی دشوار بلکہ ایک خواب بن گیا ہے۔
گزشتہ برس میں نے ایک اخباری خبر میں یہ پڑھا تھاکہ روسی سفیدے سے خارج ہونے والی مضرِ صحت روئی سے نجات حاصل کرنے کے لئے سِول سوسائٹی کے لوگ مفادِ عامہ کے مقدے کے زریعے عدالتِ عالیہ سے رجوع کرنے کی سوچ رہے ہیں، تاکہ اس نقصان دہ قسم کے سفیدے کے اُگانے پر پابندی عائد کردی جائے۔ تاہم اس برس مسلسل بارشوں کی وجہ سے ان سفیدوں سے روئی جیسی پراگ کے اخراج میں کمی کی وجہ سے قدرے راحت حاصِ ہوگئی، اور نہیں معلوم کہ اُس مفادِ عامہ کے مقدمے کو داخلِ عدالت کیا گیا تھا یا کرنا باقی ہے۔
تکمیلہ: جب تک کوئی سول سوسائٹی گروپ مثلاً سول سوسائٹی فورم کشمیریا کوئی اور جماعت مفادِ عامہ کے اِس کارِ خیر کو انجام دینے کے لئے آگے آتا ہے، آیئے اِس اہم نوعیت کے ماحولیاتی مسلئے کے حوالے سے! ہم بھی زرا بیدار ہاجائیں، اپنی ذمہ داریوں کا زرا احساس کریں ، اور ضرر رساں پیڑ پودوں کونہ اُگانے کی خود بھی سعی کرلیں گے اور دوسروں کو بھی بیدار کریں گے ۔ عوام کو بھی اور حکام کو بھی اس بات کا اندازہ کرلینا چاہئے کہ اپنے چیزوں کو پسِ پشت ڈالکر اور پرائے چیزوں کو گلے لگا کر ہمیں بلآخر کس قدر نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس بات کو جتنا جلد ہم جان لیں گے، اُتنا ہی بہتر ہوگا ہمارے لئے۔ اور یہ کام جلد ہی ہاتھ میں لینا ہوگا، اس سے قبل کہ کوئی’’ حقوقِ نباتات کا علمبردار‘‘ہمیں یہ مضر درخت کاٹنے سے منع کرے۔

تبصرے بند ہیں۔