دیوان احمر ؔ لکھنوی

مرتب : ڈاکٹرعمرغزالی

مبصر :محسن خان

ای میل :[email protected]

فون:9397994441

                شعروادب کے معاملہ میں شمالی ہند لکھنو کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ خصوصی طورپر زبان کا صحیح تلفظ اوراملا لکھنو کی اپنی ایک ادبی پہچان رکھتا ہے۔ دابستان لکھنو سے بہت سے شعراء کرام وابستہ رہے اور انہوں نے اصلاح زبان پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی۔ لکھنو کی سرزمین سے وابستہ ایک مقبول شاعر جسے اُردودنیا احمرؔلکھنوی کے نام سے جانتی ہے۔ ڈاکٹرمختاراحمدفردین صدر آل انڈیا اردوماس سوسائٹی فارپیس نے’’ دیوان احمر لکھنوی ‘‘مجھے پڑھنے کے لیے دیا۔ مختاراحمدفردین کی زمین کولکتہ کوجب احمرلکھنوی پہنچے تو ان کووہاں کا ادبی ماحول بہت راس آیا۔ وہاں شاعروں اور اساتذہ فن سے ان کی ذہنی وابستگی ہوئی اور محسوسات شعر کے قالب میں ڈھلنے لگے۔ احمرؔلکھنوی6؍مارچ1938ء کو نادان محل لکھنو میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ فرقانیہ چوک لکھنو پھر مدرسہ دارالمبغلین پاٹانالہ لکھنو سے ہوئی۔ اس کے بعد وہ لکھنو سے کلکتہ تشریف لے گئے۔ انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز 16سال کی عمر میں کیا۔ 1954ء سے وہ شاعری کے میدان میں مسلسل طبع آزمائی کررہے تھے۔ انہوں نے معتبر استاد شاعر حضرت جرمؔمحمدآبادی کے آگے زانوے تلمذ طئے کیاتھا۔ ساتھ ہی دینی علوم کی اشاعت میں سرگرم عمل رہے۔ بالآخر 8ڈسمبر 1995ء کو انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند تیسیر محمد (کینڈا) اوربرادران نے ان کے کلام کو دیوان کی شکل میں شائع کرنے کا تہہ کرلیاتھا۔ کئی دن بعد ڈاکٹرعمر غزالی(ایسوسی ایٹ پروفیسر۔ شعبہ اُردو‘ہگلی محسن کالج ( بردوان یونی ورسٹی) نے اس کو مرتب وتدوین کیا۔ اس دیوان کا پیش لفظ تیسیر محمد(کینڈا) نے لکھا ہے جواحمرؔلکھنوی کے صاحبزادہ ہیں۔ انہو ں نے اپنے پیش لفظ میں احمرلکھنوی کا تعارف ‘ سماجی‘ثقافتی ‘ علمی اورادبی خدمات کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے احمرلکھنوی کی شاعری پر مفصل روشنی ڈالی ہے اوران کے کلام سے متعلق لکھا ہے کہ ان کی لکھیں نعتیں ‘مناجات ‘ مرثیہ اور نظموں میں وسیع سوچ جھلکتی ہے۔ عاشق رسولؐ ہونے کے ساتھ ساتھ اولاد رسول ؐ کی محبت میں لکھے گئے مرثیے اچھے دلائل پیش کرتے ہیں۔ صوفیانہ تخیل اور مجذوبانا پہلو ان کی غزلوں میں عام ہے۔

  احمرلکھنوی دابستان جرؔ م سے وابستہ رہے۔ انہوں نے تقریباً 35سال تک اس ادارہ سے استفادہ کیا۔ احمرؔلکھنوی کی شاعری کو دوادوار میں تقسیم کیاگیا ہے۔ پہلادور 1954ء سے 1968ء جبکہ دوسرا دور 1983ء سے 1995ء تک۔ پہلے اوردوسرے دور کے درمیان تقریباً سولہاسال تک وہ گوشہ گمنامی میں رہے کیوں کہ اس دوران وہ گھریلوذمہ داریوں میں مصروف تھے۔ احمرلکھنوی کی شاعری کا پہلا دور جس میں ان کی شاعری پررومانیت کا اثرنظرآتا ہے ساتھ ہی صوفیانہ عکس‘ زلف ورخسار ‘ہجرووصال کومحسوس کیاجاسکتا ہے۔ دوسرے دور میں وہ ایک ناصح کے طورپرنظرآتے ہیں۔ اس دورمیں انہوں نے جدید طرز کواختیار کیا۔ اس دور میں ان کی شاعری میں توازن درآیا اور انہوں نے سنجیدگی اختیار کی اور صوفیانہ طرز شاعری پر توجہ مرکوز کی۔

 دیوان احمرؔ کو ڈاکٹرمحمدعمرغزالی نے مرتب کیاہے۔ انہوں نے ایک مفصل مقدمہ احمرؔلکھنوی سے متعلق لکھا ہے جس میں احمرؔلکھنوی کی شخصیت اور ان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ شامل ہے۔ انہوں نے احمرؔلکھنوی کی نعتیہ شاعری سے متعلق لکھا ہے کہ احمرؔلکھنوی کا نعتیہ کلام دعوت فکردیتا ہے کہ خارجی حقائق سے ہٹ کران کاکلام باطنی اور داخلی کیفیتوں سے مالامال ہے۔ نعت کے عمدہ شاعر ہیں۔ نعتیہ کلام کے علاوہ انہوں نے ایک سلام بھی رقم کیاہے جس میں ان کے دل کی دھڑکنیں شامل ہوگئی ہیں مثلاً یہ شعر :

آرہے ہیں دشمنوں سے شاہ لڑنے کے لیے

حیدری شمشیر کا اب رن میں جوہر دیکھنا

  دیوان احمرؔ لکھنوی کے ابتداء میں ایک مُناجات کوشامل کیاگیاہے۔ جس کے اشعار کچھ اس طرح ہیں :

سزائیں مل چکیں عہد وفا کے بھول جانے کی

عطا کر اب ہمیں توفیق یارب در پہ آنے کی

ہوایسی چلے ھر سے عمرؓ کا دور آجائے

رسول اللہؐ کا صدقہ پلٹ دے رُت زمانے کی

 دیوان احمر لکھنوی میں 18نعتوں کوشامل کیاگیاہے۔ احمرؔلکھنوی نے بہت ہی خوبصورت نعتیں کہی ہیں۔ جس میں حُسن بیان کے بہت سے نمونے نظرآتے ہیں۔ احمرؔلکھنوی ایک سچے عاشق رسول ؐ تھے۔ انہوں نے عشق رسولؐ میں ڈوب کر نعتیں کہی ہیں۔ دیوان میں شامل پہلی نعت کے دواشعار اس طرح سے ہیں :

بتوں کی بدولت خدا مل گیا

محبت کا ہم کو صلہ مل گیا

بنی تھی یہی پردئہ درمیاں

خودی جب مٹی تو خدا مل گیا

  احمرؔلکھنوی کے کلام میں سلاست اور روانی کو خوب محسوس کیاجاسکتاہے۔ ان کے نعتیہ اشعار کے موضوعات میں کافی تنوع نظرآتا ہے۔ انہوں نے بہت ہی خوبصورت پیکرتراشی بھی کی ہے جوان کے کلام کے مطالعہ کے بعدمحسوس کی جاسکتی ہے۔ اس دیوان میں 88غزلیں بھی موجودہیں جواحمرؔ لکھنوی کی غزل کے فن کو ظاہر کرتی ہے۔ احمرؔلکھنوی نے صنف غزل میں بھی خوب طبع آزمائی کی ہے۔ بڑی مشکل سے محمدعمرغزالی اور ان کے فرزند تیسیر محمدنے ان غزلوں کو بڑی محنت سے جمع کیاہے۔ ان کے بہت سے کلام تک رسائی نہیں ہوپائی ہے لہذا اس مجموعہ میں صرف 88غزلوں کوہی شامل کیاگیاہے۔ دیوان احمر میں شامل پہلی غزل کے چند اشعار اس طرح ہیں ملاحظہ ہوں :

شعلہ میری آنکھوں سے عیاں کیوں نہیں ہوتا

ایسا ابھی اے سوز نہاں کیوں نہیں ہوتا

آیا ہوں صنم خانہ میں کعبہ سے نکل کر

حاصل مجھے دیدار بتاں کیوں نہیں ہوتا

جب پُرسشِ احوال پہ مائل ہیں وہ خود ہی

حال دل بیتاب بیاں کیوں نہیں ہوتا

ہروقت تصور میں رہا کرتا ہوں پھر بھی

آباد میرے دل کاجہاں کیوں نہیں ہوتا

        احمرلکھنوی کی غزلوں میں سنجیدگی ‘حسن وجمال کی باتیں ‘ہجرووصل کے تذکرے ‘تہذیبی جھلکیاں ‘صالح روایات‘ رمزیت وایمائیت کے پہلو نمایاں طورپر نظرآتے ہیں۔ ان کے کلام میں الفاظ کی باریک بینی‘ صرف ونحو کا تال میل‘ فاعلاتن‘ فاعلن جیسی ترکیبیں نظرآتی ہیں۔ احمر لکھنوی کی غزلوں میں لکھنوی تہذیب نمایاں نظرآتی ہے۔ اظہار بیان بھی قابل تعریف ہے۔ اس دیوان میں چند ایک قصائد بھی شامل ہے جس میں اکثروبیشتر ماہ رمضان کی عظمت اور اس کی آمد کا ذکرملتا ہے۔ عید کے دن اور دیگرموضوعات پر چند ایک نظمیں بھی اس دیوان میں شامل کی گئی ہیں۔ دیوان کے آخر میں چند ایک قطعات کو شامل کیاگیاہے ساتھ ہی لکھنو کی تاریخی مساجد اورمدرسوں کی تصاویر کو شامل کیاگیا ہے جن سے احمرلکھنوی کا تعلق رہا ہے۔ 8ڈسمبر 1995ء کو جب وہ کولکتہ سے لکھنو اپنے کسی رشتہ دار کی تعزیت میں تشریف لے گئے تو لکھنومیں ان کا انتقال ہوا۔

 احمرؔ لکھنوی ایک عظیم المرتبت شاعر تھے۔ انہوں نے اردوزبان وادب کی عظیم خدمات انجام دیں۔ ساتھ ہی اپنی اولاد کی صالح خطوط پرتربیت فرمائی۔ جس کا نتیجہ ہے کہ آج یہ دیوان منظرعام پرآیاہے۔ اس دیوان کی اشاعت میں جہاں احمرؔلکھنوی کے فرزند کا اہم رول رہا ہے وہیں ڈاکٹرعمرغزالی نے بڑی محنت اورجانفشانی کے ساتھ احمرؔلکھنوی کے کلام کو اکھٹا کرکے دیوان کی شکل میں پیش کیاہے جو ایک عظیم کارنامہ ہے۔ ڈاکٹرعمرغزالی نے جو مقدمہ اس کتاب کے آغاز میں لکھا ہے اس کے مطالعہ سے احمرؔلکھنوی کی زندگی کے مختلف پہلوئوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ احمرلکھنوی کی شاعری کابھی انہوں نے بڑی باریک بینی سے جائزہ لیاہے۔ اس دیوان کی اشاعت پر سب سے پہلے ڈاکٹرعمرغزالی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے اس دیوان کی اشاعت کویقینی بنایا۔ ساتھ ہی تیسیر محمدکوبھی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے والد محترم کے بیاضوں میں محفوظ کلام کواکھٹا کرنے کا تہہ کیا اور عمرغزالی جیسے ذمہ دار اور مخلص شخص کے ہاتھوں میں یہ کام سونپا۔

تبصرے بند ہیں۔