ذہن ملتا ہے اب نہ دِل خود سے
افتخار راغبؔ
ذہن ملتا ہے اب نہ دِل خود سے
جنگ جاری ہے مستقل خود سے
…
خود فریبی میں کھو گیا ہے تو
تھوڑی مہلت نکال مل خود سے
…
بات کرتی ہے کس کے بارے میں
میری تصویرِ آب و گِل خود سے
…
فیصلہ تیرا کیوں نہ ہو منظور
تجھ کو سمجھا ہے معتدل خود سے
…
آبیاری کی آس کس سے ہے
اے گُلِ دل نواز کھِل خود سے
…
تیرے بارے میں اے مکینِ دل
دیکھ کیا کہہ رہا ہے دل خود سے
…
چاہتوں کا حصار تھا راغبؔ
کیسے ہوتا میں منتقل خود سے
تبصرے بند ہیں۔