ذہن ملتا ہے اب نہ دِل خود سے

افتخار راغبؔ

ذہن ملتا ہے اب نہ دِل خود سے

جنگ جاری ہے مستقل خود سے

خود فریبی میں کھو گیا ہے تو

تھوڑی مہلت نکال مل خود سے

بات کرتی ہے کس کے بارے میں

میری تصویرِ آب و گِل خود سے

فیصلہ تیرا کیوں نہ ہو منظور

تجھ کو سمجھا ہے معتدل خود سے

آبیاری کی آس کس سے ہے

اے گُلِ دل نواز کھِل خود سے

تیرے بارے میں اے مکینِ دل

دیکھ کیا کہہ رہا ہے دل خود سے

چاہتوں کا حصار تھا راغبؔ

کیسے ہوتا میں منتقل خود سے

تبصرے بند ہیں۔