رزق کے معاملے میں اللہ پر بھروسہ (دوسری قسط)

عبدالعزیز

 مسلمان کے نزدیک توکل کا لب لباب یہ نکلا کہ دل کے سکون و اطمینان کے ساتھ کام میں لگا رہے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے اور یقین کامل رکھے کہ جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اچھا عمل کرنے والے کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔ لہٰذا مسلمان اپنے رزق کے معاملے میں مطمئن ہوکر زندگی گزارتا ہے اس لئے کہ روزی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو وعدہ خلافی نہیں کرتا اور نہ اپنے بندے کو ضائع کرتا ہے۔ اس نے زمین کو گہوارہ اور فرش بنایا ہے، اس کو پھیلایا ہے۔ اس میں برکت رکھی ہے اور اسی میں اس کی ضروریات مقدر فرما رکھی ہیں ۔ اس کے ذرائع معاشی بھی اسی میں رکھے ہیں ۔ اور بندوں سے روزی پوری کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس کی ذمہ داری لی ہے ، بار بار اس کا یقین دلایا ہے، تاکید فرمائی ہے اور اس کی قسم کھائی ہے۔ فرمایا:

 ’’اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمہ ہے‘‘۔ (سورہ ہود:6)

 دوسری آیت میں فرمایا: ’’ اور بہت سے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے خدا ہی ان کو بھی رزق دیتا ہے اور تم کو بھی، اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ (العنکبوت:60)

 ان خدائی وعدوں پر بندۂ مومن اپنے رزق کے معاملے میں امن و اطمینان سے زندگی گزارتا ہے، اسے یقین رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھوکا نہ مارے گا۔ اللہ تعالیٰ تو پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں اور درندوں کو جنگلوں میں رزق عطا کرتا ہے۔ سمندر کی تہہ میں مچھلیوں کو غذا فراہم کرتا ہے۔ کیڑوں مکوڑوں کو پہاڑوں کی چٹانوں کے اندر کھلاتا ہے۔

 مناوی نے حدیث توکل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ صبح پرندے بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ واپس آتے ہیں ، دوڑ دھوپ سے رزق نہیں ملتا۔ رزق تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ توکل کا مطلب ہاتھ باندھ کر بیکار بیٹھ رہنا نہیں ہے بلکہ حدیث پاک کے اندر لام کا لفظ کوئی وسیلہ اپنانے کے مفہوم پر مشتمل ہے۔اس لئے کہ پرندہ کو کوشش کے بعد صبح کو نکلنے اور ادھر ادھر اڑنے ہی سے رزق میسر آتا ہے۔ اس لئے امام احمدؒ نے فرمایا: حدیث کے اندر ایسے الفاظ یا معانی نہیں ہیں جو روزی کیلئے کوشش کے ترک کا مفہوم رکھتے ہوں بلکہ اس میں تو طلب رزق کی فکر کے معنی پائے جاتے ہیں ‘‘۔ (تحفۃ الاحوذی: ج7)

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو توکل کی تعلیم و تربیت اس کے وسیع معنی میں دی ہے۔ اسی لئے چڑیوں کی انوکھی مثال بیان کی ہے کہ وہ صبح جلد بیدار ہوکر خدا کی تسبیح بیان کرتی ہیں ، بولتی اور چہچہاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

  ’’اور (مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے‘‘۔ (بنی اسرائیل:44)

 اس پاک و پسندیدہ عبادت کے بعد پرندے اپنے گھونسلوں سے نکل کر تلاش رزق میں کھیتوں ، باغوں اور ان جگہوں کی طرف اڑ نکلتے ہیں جہاں کہیں بھی ان کو دانہ اور سامان رزق میسر آتا ہے، وہ اس کی تلاش میں دن بھر سرگرم عمل رہتے ہیں اور جب سورج ڈوبنے لگتا ہے تو اپنے گھونسلوں کی طرف پرے بناکر ایک لائن سے اڑتے ہوئے واپس آجاتے ہیں ، اس طرح کہ ان کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے، یہ گویا اس قرآنی آیات کی عملی تفسیر ہوتی ہے۔

 ’’اور رات کو پردہ مقرر کیا اور دن کو معاش (کا وقت) قرار دیا‘‘۔ (سورہ النبا:11-10)

  پرندے کی زندگی اس اعتبار سے توکل کے ساتھ اسباب کو اپنانے میں نشاط و حرکت پر عمل پیرا رہنے کی ایک عملی مثال اور شان امتیاز رکھتی ہے۔

  بندۂ مومن بھی اسی طرح سے جب اسباب کو اختیار کرتا ہے اور اس پر عبادت کا جو بار امانت رکھا گیا ہے، حقوق و واجبات کی جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کو ادا کرتے ہوئے خدا پر بھروسہ رکھتا ہے اور دل میں اس کے وعدہ کا یقین جمائے رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو پرندوں کی طرح روزی دیتا ہے اور من حیث لا یحتسب ہر ضرورت اپنے اپنے وقت پر پوری ہوتی رہتی ہے۔

 ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ یہ توکل ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ (اور ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ) ۔(سورہ الفاتحہ:4) کے درجوں میں سے عبادت کا ایک درجہ ہے۔’’ و علی اللہ فتوکلوا ان کنتم مؤمنین‘‘  (اور خدا ہی پر بھروسہ رکھو بشرطیکہ صاحب ایمان ہو)۔ (المائدہ:23)۔ دوسری آیت میں فرمایا: ’’اے ہمارے پروردگار تجھ ہی پر ہمارا بھروسہ ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ اور تیرے حضور میں (ہمیں ) لوٹ جانا ہے‘‘۔ (الممتحنہ:4)۔ایک اور آیت میں فرمایا: ’’اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو۔ بے شک خدا بھروسہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ (آل عمران:159)

  اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کے توکل کے بارے میں فرماتا ہے: ’’ہم کیوں کر خدا پر بھروسہ نہ رکھیں حالانکہ اس نے ہم کو ہمارے (دین کے سیدھے) رستے بتائے ہیں ‘‘۔ (سورہ ابراہیم:12)

  اپنے محبوب نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے بارے میں فرمایا: ’’(جب) ان سے لوگوں نے آکر بیان کیا کہ کفار نے تمہارے (مقابلے کے) لئے (لشکر کثیر) جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو۔ تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوگیا اور کہنے لگے ہم کو خدا کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے‘‘۔ (آل عمران:173)

دوسری آیت میں فرمایا: ’’مومن تو وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈرجاتے ہیں ۔ اور جب انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے۔ اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں ‘‘۔ (سور الانفال:2)

  صحیحین کی اس حدیث میں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ستر ہزار ایسے لوگ ہوں گے جو بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے۔

’’وہ بندگانِ خدا ہوں گے جو منتر نہیں کراتے اور شگونِ بد نہیں لیتے اور نہ داغتے ہیں اور اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں ‘‘

   صحیحین ہی کی ایک روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ’’اے اللہ میں نے تیری اطاعت کیلئے سر جھکایا اور میں تجھ پر ایمان لایا۔ اور میں نے تجھ پر بھروسہ کیا۔ اور میں تیری طرف رجوع ہوا۔ اور تیری قوت سے میں نے (دشمنوں سے) جھگڑا کیا۔

 سنن میں حضرت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنے گھر سے نکلتے وقت یہ الفاظ کہے ’’بسم اللہ توکلت علی اللہ ولاحول ولا قوۃ الا با للہ یقال لہ ہدیت و وفیت و کفیت‘‘ (میں اللہ کا نام لے کر نکل رہا ہوں ، اللہ ہی پر میرا بھروسہ ہے، کسی خیر کے حاصل کرنے یا کسی شر سے بچنے میں کامیابی اللہ ہی کے حکم سے ہوسکتی ہے) تو عالم غیب میں اس آدمی سے کہا جاتا ہے (یعنی فرشتے ہیں ) اللہ کے بندے تیرا یہ عرض کرنا تیرے لئے کافی ہے، تجھے پوری رہنمائی مل گئی اور تیری حفاظت کا فیصلہ ہوگیا‘‘۔

  توکل نصف دین ہے، دوسرا نصف دعا و اِنابت (یعنی اللہ تعالیٰ سے مانگنا اور رونا اور گڑگڑانا) دین اللہ سے طلب کرنے اور عبادت کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ توکل مدد طلب کرنے ہی کے مترادف ہے اور انابت و توجہ الی اللہ تو عبادت ہے ہی۔ اولیاء اللہ بالخصوص ایمان باللہ، اس کے دین کی مدد اوراعلاء کلمۃ اللہ اور جہاد میں اس کے حکموں کو نافذ کرنے میں ، غرض ہر چیز میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں یعنی ان کی نظر اسباب نے زیادہ نصرت خداوندی اور غیبی مدد پر ہوتی ہے۔

   توکل کی بہترین صورت واجبات و حقوق کی ادائیگی کی فکر ہے، یعنی حقوق العباد، خود اپنے نفس و ذات کے حقوق۔

   کسی دینی یا دین سے خرابی کو دور کرنے کے سلسلے میں ظاہری و خارجی طور پر اپنا اثر دکھانے کیاعتبار سے سب سے زیادہ وسیع اور نفس توکل انبیاء کرام کا توکل ہوتاہے جس کو وہ دین کو قائم کرنے، زمین سے فسادیوں کے فساد کو دور کرنے کے سلسلے میں ذات باری پر اعتماد و بھروسہ کرکے انجام دیتے ہیں ۔ یہ اعلیٰ درجہ کا توکل انھیں حضرات کا توکل انھیں حضرات کی شان ہے، انبیاء کرام اور رسولوں کے بعد مومن بندوں کا توکل ان کی ہمت و مقاصد عمل کے اعتبار سے ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ کوئی حصولِ ملک کیلئے توکل سے کام لیتا ہے۔ کوئی حصولِ رزق میں توکل اپناتا ہے۔

   توکل کے معنی اور اس کے درجات: امام احمدؒ فرماتے ہیں توکل قلب کی کیفیت عمل سے تعلق رکھتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ احساس و شعور قلب سے تعلق رکھتا ہے، اس کا زبان سے توکل کا لفظ ادا کر دیا جائے، نہ اس کا تعلق اعضاء انسانی ہی سے ہے اور نہ یہ علم و ادراک سے تعلق رکھتا ہے۔ بعض حضرات توکل کا تعلق حصول معرفت رب سے جوڑتے ہیں کہ دل کا یہ جان لینا کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی کفایت کرے گا یعنی ہر طرح بندہ اس کی نگہبانی میں ہوگا۔

 یحییٰ بن معاذ سے پوچھا گیا کہ کوئی شخص (متوکل اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے والا) کب ہوسکتا ہے؟ انھوں نے جواب میں فرمایا: جب بندہ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا کارساز سمجھ لے اور اسی پر یقین رکھے۔ بعض توکل کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا کارساز سمجھ لے اور اسی پر یقین رکھے۔ بعض توکل کی تشریح اس طرح کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر اعتماد و اطمینان اور اسی پر سکون قلب کا ہونا یہ توکل ہے۔

 ابن عطا فرماتے ہیں کہ جب شدید فاقے کی حالت میں بھی دل کا سکون برقرار رہے اور اسباب اختیار کرنے میں گھبراہٹ سے کام نہ لو تو یہی توکل کہلائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔