طلاق پر بل لانے یا قانون بنانے کے ذمہ دار کون ہیں؟

عبدالعزیز

اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی یا اس کی مدر پارٹی آر ایس ایس اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کو ملک ہندستان میں دیکھنا پسند نہیں کرتی اور اہل اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتی ہے، جہاں تک طلاق ثلاثہ اور تین طلاق کا مسئلہ ہے اسے ہم مسلمان یا مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں نے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ ایک مجلس میں تین طلاق ایک ایسا مسئلہ ہے جو اختلافی اور تنازع کا مسئلہ رہا ہے۔ بہت سے مسلم ملکوں میں اسے حل بھی کرلیا گیا ہے۔ 1929ء میں جامعہ ازہر کے علماء کی تجویز پر حکومت مصر نے ایک قانون بنایا جو 10مارچ 1929ء کو منظورکیا گیا۔ یہ قانون طلاق سے متعلق ہے۔ اس میں بہت سی دفعات ہیں ۔ اس میں ایک دفعہ نمبر 3میں ہے ’’وہ طلاق جس کے بعد اشارتاً یا لفظاً عدد ہوں ان سے ایک طلاق رجعی ہی واقع ہوگی‘‘۔

اسی قسم کا قانون سوڈان نے 1935ء میں ، اردن نے 1951ء میں ، شام نے 1953ء ، مراکش نے 1958ء، عراق نے 1959ء میں اور پاکستان نے 1961ء میں نافذ کیا۔(Muslim Law Refrom by Tahir Mahmood)

  ہندستان میں کئی جید علماء نے آزاد ہند سے پہلے اور بعد میں اس طرف توجہ دلائی تھی۔ 1973ء میں گجرات کے شہر احمد آباد میں ایک وقت کی تین طلاق کے موضوع پر ایک سمینار حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن کے زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ہر مکتبہ فکر کے علماء نے شرکت کرکے اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا۔ سب نے اس ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں سہولت کتاب و سنت میں موجود ہے۔ اس کو مسلکی تعصبات سے بالا تر ہوکر اختیار کرنا وقت کا تقاضا ہے۔

 اس سمینار میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا شمس پیر زادہ، مولانا محفوظ الرحمن قاسمی، مولانا عروج احمد قادری ، ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری اور مولانا مختار احمدندوی جیسے علماء جید شریک تھے۔

  ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ نے اس سمینار کے سارے مقالات پر مشتمل ایک خاص نمبر شائع کیا تھا۔ کلکتہ میں مولانا سلیمان میرٹھی نے اس کے چند مقالات پر مشتمل ایک کتاب شائع کی تھی۔ یہ کتاب جولائی 1986ء میں شائع ہوئی تھی، اس کی ایک کاپی راقم کے پاس بھی موجود ہے۔ افسوس کہ ’زندگی نو‘ کا نمبرکسی وجہ سے میری ذاتی لائبریری میں نہیں ہے۔

 ’’خاص نمبر‘‘ یا مذکورہ کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ طلاق دینے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ اور ایک مجلس کی تین طلاق کو کس حکمت کے پیش نظر ایک قرار دیا گیا ہے۔ آج جب مسلمانوں کے ساتھ ایک خاص جماعت کی دشمنی کامیاب ہورہی ہے۔ ضرورت ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں سے مل کر کہا جائے کہ تین طلاق کو ایک طلاق رجعی قرار دیا جائے تاکہ میاں بیوی پھر ایک دوسرے سے رجوع کرسکیں اور Reconcilation کا موقع باقی رہے۔موجودہ بل بالکل سیاسی قسم کا ہے اور طلاق کو فوجداری قانون میں بدل دیا گیا ہے جو عقل و منطق کے لحاظ سے بالکل غلط ہے۔ اس سے خاندان برباد ہوں گے اور رشتوں میں ایسی دراڑ پیدا ہوگی کہ پھر وہ ایک دوسرے سے زندگی بھر نہ مل سکیں گے۔

 اس سمینار میں ایک مقالہ حضرت مولانا سعید احمد آبادی سابق صدر شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی علیگڑھ نے بھی پڑھا تھا ۔ مولانا قدیم اور جدید دونوں علم سے آراستہ تھے بہت دنوں تک علمی رسالہ ’’فاران‘‘ کے ایڈیٹرتھے ۔ آپ کی کئی کتابیں ہیں جو ملک اور بیرون ملک میں پڑھی جاتی ہیں اور حوالہ کیلئے استعمال کی جاتی ہیں ۔ مولانا کے درج ذیل مقالہ سے پہلے اور آج کی صورت حال واضح ہوگی کہ ہم مسلمان کس غفلت میں تھے اور آج تک اسی غفلت میں بری طرح مبتلا ہیں ۔

 مولانا کا مقالہ ملاحظہ فرمائیں ۔

   اسلام میں طلاق کی تین قسمیں ہیں :

  (1رَجْعِیَّہْ: جس میں عدت گزرنے سے پہلے پہلے مطلِّق اپنے قول یا عمل سے طلاق واپس لے سکتا ہے۔

 (2 بَائِنَہْ: جس میں مطلِّق عدت ختم ہونے کے بعد تجدید نکاح کرسکتا ہے۔

  (3  مُغَلَّظَہْ: اس میں مطلِّق حلالہ کے بغیر تجدید نکاح نہیں کرسکتا۔

   اس وقت موضوعِ بحث یہی تیسری طلاق ہے، اس لئے ہم اس پر ہی گفتگو کریں گے۔ اس طلاقِ مغلّظہ کا حکم قرآن مجید کی حسب ذیل آیات سے بطریق نصّ ثابت ہے:

  اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانِ ط (البقرہ)۔

’’طلاق (جس کے بعد رجوع بھی ہوسکتا ہے) وہ تو دو ہی مرتبہ ہے۔ اس کے بعد یا تو معروف کے ساتھ عورت کو روک لیا جائے یا اس کو احسان کے ساتھ چھوڑ دیا جائے‘‘۔

  اس کے بعد ارشاد ہوا:

فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدِ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہٗ ط

’’اگر دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد پھر ایک طلاق اور دے دی تو اب جب تک عورت کسی اور سے نکاح نہیں کرے گی وہ پہلے مرد کیلئے حلال نہیں ہوگی‘‘۔

  ان آیات کا صاف مطلب یہ ہے کہ طلاق مغلّظہ اس وقت واقع ہوگی جبکہ مرد آگے پیچھے دو طلاق دینے کے بعد یہ فیصلہ کرلے کہ اسے اب عورت کو اپنی زوجیت میں نہیں لینا ہے اور اس فیصلہ کے مطابق وہ ایک طلاق اور واقعہ کر دے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگر کوئی شخص آگے پیچھے نہیں بلکہ طلاقیں ایک ساتھ واقع کرے گا تو اس کا یہ فعل قرآن کے مذکورہ بالا حکم کے خلاف ہوگا، چنانچہ ایک حدیث جس کی اسناد امام مسلم کی شرط پر ہے، اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں تو آپ غیظ و غضب کے عالم میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا:

  ’’کیا ابھی جبکہ میں تم لوگوں میں موجود ہوں کتاب اللہ سے اس طرح کھیلا جائے گا‘‘۔

  علاوہ ازیں مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رُکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں اور پھر ان کو اس کا شدید غم اور صدمہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ’’تم نے طلاق کس طرح دی تھی؟‘‘ رکانہ نے جواب دیا۔ ’’میں نے تین طلاقیں دی ہیں ‘‘۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’کیا ایک مجلس میں ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا۔ ’’جی ہاں ! ایک مجلس میں ‘‘۔ اب آپ نے فرمایا: ’’فانما تلک واحدۃٌ فارجعھا (یعنی یہ تو ایک ہی طلاق ہوئی، تم اسے واپس لے لو اگر تم چاہتے ہو)۔ رکانہ کا بیان ہے کہ اس ارشاد نبویؐ کے مطابق میں نے رجوع کرلیا۔ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام احمد فرماتے ہیں کہ اسی روایت کی روشنی میں حضرت عبداللہ بن عباس کی رائے بھی تھی کہ طلاق ایک ساتھ نہیں بلکہ طہر میں الگ ہونی چاہئے اور یہی طلاق سنت بھی ہے۔ (مسند امام احمد، مرتبہ شیخ ساعاتی، ج 17، ص7)

     حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: عہد نبوی اور عہد صدیقی اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو برس تک تین طلاقیں جو ایک مجلس میں اور دفعتہ دی جائیں ان کا حکم یہی تھا کہ وہ ایک سمجھی جاتی تھیں ، لیکن اپنی خلافت کے دو برس گزرنے بعد حضرت عمر نے مذکورہ بالا تین طلاقوں کو تین طلاق مغلظہ ماننے کا حکم صادر فرمایا۔ کیوں ؟ حضرت عبداللہ بن عباس اس سلسلہ میں خود حضرت عمرؓ کے الفاظ نقل کرتے ہیں کہ آپؓ نے فرمایا:

’’وہ چیز جس میں (قرآن و سنت کے مطابق) لوگوں کیلئے سوچنے کا بڑا موقع تھا، اس میں انھوں نے بڑی جلد بازی سے کام لیا ہے۔ پس بہتر ہے کہ ہم ان پر اپنا حکم نافذ کریں ‘‘۔(مسند امام احمد، ج 17، ص7)

  حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں : فأمضاہ علیہم (چنانچہ حضرت عمرؓ نے یہ حکم نافذ کردیا)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے اس ارشاد سے یہ بات تو صاف طور پر معلوم ہوگئی کہ حضرت عمر کا یہ اقدام بے وجہ نہیں تھا، بلکہ لوگوں نے کسی وجہ سے ایک راہ جلدی بازی کی اختیار کر رکھی تھی جو سر تا سر قرآن مجید کے منشا و مقصد کے خلاف تھی۔ اس بنا پر حضرت عمرؓ نے ان لوگوں کو متنبہ کرنے کے خیال سے یہ اقدام فرمایا، تاکہ انھیں محسوس کہ اس جلد بازی کے باعث انھوں نے کس طرح شریعت کے یُسر کو عُسر بنالیا ہے اور اس باب میں ان کا حال ان بنی اسرائیل کا سا ہوگیا ہے جن کی نسبت قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ اللہ نے سب کھانے کی چیزیں ان لوگوں کیلئے حلال کی تھیں مگر جب انھوں نے خود اپنے اوپر بعض چیزیں حرام کرلیں تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر ان چیزوں کو حرام کر دیا۔

  اب رہی یہ بات کہ وہ وجہ آخر کیا تھی جس کے باعث حضرت عمرؓ کے زمانہ میں لوگوں نے جلد بازی کی راہ اختیار کی تھی؟ اس سوال کے جواب میں عہد حاضر کے مشہور اور بلند پایہ مصنف محمد حسین، ہیکل اپنی معرکۃ الآرا کتاب عمر الفاروق میں لکھتے ہیں:

 ’’غالب گمان یہ ہے کہ عہدِ فاروقی میں جو لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دیتے تھے وہ طلاق دینے کے بعد ان سے شفقت اور نرمی کا برتاؤ نہیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی عراق و شام کی کنیزیں بکثرت آگئی تھیں اور مدینہ اور جزیرۃ العرب کے لوگ ان پر فریفتہ تھے اور وہ اپنی ان من موہنیوں کو خوش کرنے کیلئے بیویوں کو بعجلت و شدت بیک وقت لفظ تین طلاقیں دینے لگے، تاکہ ان کی محبوبہ کو اطمینان ہوجائے کہ اب وہ ان کے دل پر تنہا قابض ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور اسباب بھی تھے جن کے باعث صدرِ اوّل کے مسلمانوں کی ایک جماعت نے طلاق ثلاثہ کو از راہ بے پروائی و ایذا رسانی ایک ہنسی کھیل بنالیا تھا۔ ان میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ جب کوئی مرد کسی آزاد عربی یا عجمی عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا تو وہ یہ شرط پیش کرتی تھی کہ وہ مرد اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تاکہ وہ اس کیلئے حلالہ کے بغیر حلال ہی نہ ہوسکے۔ اب اگر حلالہ کے بعد شوہر اپنی پہلی بیوی سے مراجعت کرتا بھی تھا تو اس سے گھر میں بدمزگی پیدا ہوتی تھی کہ زندگی اجیرن بن جاتی تھی۔

 غرض کہ اس قسم کے اسباب تھے جن کی بنا پر حضرت عمرؓ نے یہ حکم جاری کیا کہ تین طلاقیں جو ایک مجلس میں اور دفعتہ واحدۃً دی جائیں گی ان کا حکم طلاق مغلظہ ہونے میں وہی ہوگا جو اُن تین طلاقوں کا ہے جو طلاق سنت کے مطابق تین طہروں میں دی گئی ہوں ۔ حضرت عمر نے دیکھا کہ جو شخص نکاح کی گرہ کو اتنا بے حقیقت سمجھتا ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالتا ہے وہ بے حس اور یاوہ گو انسان ہے اور اسے اس بے حسی اور یاوہ گوئی کی سزا ملنی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔