رشتۂ مودّت و رحمت

تحریر: مولانا شمس پیر زادہؒ… ترتیب: عبدالعزیز

مرد عورت کے رشتہ میں احکام کی محض خانہ پُری کی حد تک پابندی مطلوب نہیں ہے بلکہ اس رشتہ میں مودت و رحمت کی چاشنی بھی مطلوب ہے۔ اسی سے ازدواجی تعلقات میں خوبی پیدا ہوجاتی ہے اور دونوں اپنے کو ایک جان دو قالب سمجھنے لگتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس کو ایک نعمت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے :
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی‘‘ (الروم:21)۔
مرد کو عورت سے جو سکون حاصل ہوتا ہے اس کا تصور حدیث میں اس طرح پیش کیا گیا ہے:’’شوہر جب اپنی بیوی کو دیکھے تو خوش ہوجائے‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب النکاح، بروایہ النسائی)۔
مگر موجودہ معاشرے میں عورت مرد کے درمیان ناچاقی کے واقعات بہ کثرت ہورہے ہیں۔ آغاز شکوہ سے ہوتا ہے اور پھر نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے پانچ بنیادی اسباب ہیں:
پہلا سبب تو مزاجوں کا اختلاف ہے۔ عورت تیز و طرار ہوتی ہے اور مرد غصہ والا، پھر کیا ہے جو بات بات پر تکرار ہوتی ہے اور دونوں کی زندگیاں تلخ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ عورتیں بالعموم زبان درازی کی عادی ہوتی ہیں کیونکہ ان میں تحمل کی بڑی کمی ہوتی ہے اور زبان درازی کی وجہ سے بات بگڑ جاتی ہے اور مرد اپنی ہتک سمجھنے لگتا ہے۔ مردوں میں بھی بہ کثرت لوگ تند مزاج ہوتے ہیں اور معمولی بات پر عورت پر برہم ہوجاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ظلم و زیادتی پر اتر آتے ہیں۔
دوسرا سبب مرد کا فسق و فجور میں مبتلا ہونا ہے۔ وہ شراب کے نشہ میں مست رہتا ہے اور بیوی کو بلا وجہ مار پیٹ کرنے لگتا ہے۔ بدکلامی اور فحش گالیاں بکنے سے بھی نہیں چوکتا۔ ایسے مرد کے ساتھ عورت نباہ کرے تو کیسے؟
تیسرا سبب ساس بہو کے جھگڑے ہیں۔ بہو ساس کا احترام نہیں کرتی اور نہ ساس بہو کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کرتی ہے ۔ مرد بیوی کیلئے علاحدہ رہائش کا انتظام نہیں کرتا اور اسے اپنے ماں باپ کے ماتحت رہنے کیلئے مجبور کر دیتا ہے۔ اسے اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ماحول کافی بدل گیا ہے۔ کالج کی تعلیم اور ٹی وی وغیرہ نے عورت کی نفسیات پر کافی اثر ڈالا ہے۔ اب وہ شوہر کی فرماں بردار بن کر رہے تو بڑی بات ہے، کجا یہ کہ شوہر کے عزیز و اقارب کے ماتحت رہے۔ تعلیم یافتہ عورتیں اپنا گھر آپ بسانا چاہتی ہیں اور ساس اور خسر کے ماتحت رہنے میں گھٹن محسوس کرتی ہیں۔ شوہر کو اگر ان بدلے ہوئے حالات کا اندازہ نہیں ہے تو اسے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
چوتھا سبب شوہر کا بیوی کو تنہا چھوڑ کر کسی غیر ملک میں ملازمت کیلئے جانا ہے۔ اسے ایک سال یا دو سال بعد ہی چند دن کی چھٹی مل جاتی ہے۔ طویل عرصہ تک شوہر کی غیر موجودگی کی وجہ سے بیوی کے حقوق ادا نہیں ہوپاتے۔ اسے یا تو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے یا بالکل تنہا جس کے نتیجہ میں بعض اوقات ناخوشگوار واقعات پیش آتے ہیں جن کو سن کر شوہر کو حیرت ہوتی ہے اور بالآخر نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔
پانچواں سبب ٹونے ٹوٹکے پر شوہر یا بیوی کا اعتقاد ہے۔ اس وہم پرستی میں مبتلا ہوکر باواؤں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور پھر شیطان کو ایک دوسرے سے بدگمان کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ باوا سفلی اعمال کا چکر چلاتے ہیں جو نہ صرف باہمی تعلقات کو خراب کرنے والے ہوتے ہیں بلکہ ایمان کو بھی سلب کرتے ہیں۔
ان اسباب کو دور کرنے کیلئے ضروری ہے کہ : رشتہ کرتے وقت مزاج کی مناسبت کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔ ایک اگر گرم مزاج ہے تو دوسرے کو نرم مزاج ہونا چاہئے ورنہ گھر کا ماحول گرم ہی رہے گا۔ عام طور سے یہ بات کافی خیال کی جاتی ہے کہ مرد صاحب حیثیت ہے یا اس کی آمدنی کا ذریعہ اطمینان بخش ہے لیکن یہ بات سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ آیا دونوں کے مزاج ایسے ہیں کہ نباہ ہوسکے؟ اسی طرح دونوں کی دینی اور اخلاقی حالت پر نظر ڈالنا ضروری ہے کہ آیا دونوں میں سے کسی کی زندگی فاسقانہ تو نہیں ہے۔ ایک شرابی مرد عورت کیلئے وبال جان ہوتا ہے اور ایک بد اخلاق عورت مرد کیلئے بہت بڑی مصیبت۔ اس لئے رشتہ طے کرتے وقت اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
ساس اور بہو کے جھگڑوں سے بچنے کی بھی صورت یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کیلئے شروع ہی سے رہائش کا علاحدہ انتظام کر دے اور اس کی زندگی کو خوشگوار بنانے کی کوشش کرے، ساتھ ہی اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان کے حقوق خود ادا کرے۔ بیوی کیلئے رہائش کا علاحدہ انتظام کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اپنے ماں باپ سے بے پرواہ ہوجائے۔ جہاں بیوی کیلئے آزادانہ ماحول ضروری ہے وہاں اپنے ماں باپ کیلئے بھی آزادانہ ماحول ضروری ہے۔ بیوی اپنے طریقے پر رہے اور ماں باپ اپنے طریقے پر۔ اسی صورت میں ساس بہو کے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔
وطن چھوڑ کر باہر ملازمت کیلئے جانا تاکہ زیادہ سے زیادہ کمایا جاسکے خواہ بیوی بچوں کے حقوق ادا نہ ہوں، صحیح طرز عمل نہیں ہے۔ یہ صورت تو بدرجہ مجبوری اور وقتی طور پر ہی اختیار کی جاسکتی ہے۔ ہاں اگر باہر ملازمت کرتے ہوئے بیوی بچوں کو ساتھ رکھنے کی سہولت ہو تو پھر حرج نہیں ہے لیکن پھر بچوں کی تعلیم کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے، خاص طور سے ذریعہ تعلیم کے مختلف نہ ہونے کی وجہ سے، اس لئے اس سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ورنہ آگے جاکر بچوں کے تعلیمی کردار پر اثر پڑے گا۔
ٹونے ٹوٹکے میں ضعیف الایمان لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ محض وہم پرستی ہے اور حقیقت کچھ بھی نہیں۔ قرآن کریم میں ایسی باتوں کے پیچھے پڑنے سے منع کیا گیا ہے جن کے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ وَلَا تَقَفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْم (اور جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو)، (سورہ بنی اسرائیل:36)۔
اس سلسلہ میں باباؤں کی طرف رجوع کرنا اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہے۔ وہ بالکل جھوٹی باتیں کرتے ہیں اور سفلی اعمال میں مبتلا کرتے ہیں۔ شیطان کے اثرات سے بچنے کیلئے اللہ پر ایمان اور توکل، نماز کی پابندی، قرآن کریم کی تلاوت اور خاص طور سے معوذتین (سورہ فلق اور سورہ ناس) کی بہ کثرت تلاوت اور تقویٰ کی زندگی کافی ہے۔ باوا تو پیسے بٹورنے کیلئے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، اس لئے ان کے پاس پھٹکنا بھی نہیں چاہئے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ آدمی کے اندر اگر اللہ کا تقویٰ ہو اور وہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچتا ہو کہ اس سے گناہ تو لازم نہیں آئے گا اور کسی کی حق تلفی تو نہیں ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کو گناہوں سے بچاتا ہے اور اس کی رہنمائی فرماتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوا: وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ (التغابن:11)۔ ’’اور جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ اس کے دل کی رہنمائی کرتا ہے‘‘۔
اس آیت سے ظاہر ہوا کہ اصل ہدایت دل کی ہدایت ہے اور یہ ہدایت اللہ کی دی ہوئی توفیق سے حاصل ہوتی ہے اور جب حاصل ہوتی ہے تو انسان کی پوری زندگی صالح بن جاتی ہے اور قدم قدم پر اللہ کی رہنمائی حاصل ہوجاتی ہے۔ ازدواجی تعلقات کی بہتری کا انحصار بھی تقویٰ ہی پر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔