رشتۂ زوجین پر قرآنی تشبیہ کا مطالعہ

ھنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لّھن

ذکی الرحمن فلاحی مدنی
اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب قرآنِ کریم میں تقریبِ فہم اور توضیحِ مراد کی خاطر مختلف اشیاء واعمال کو تشبیہ وتمثیل کے اسلوب میں بیان فرمایا گیا ہے۔ اس اسلوب کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک عامی انسان کو آسانی سے بات سمجھ آجاتی ہے اور ایک صاحبِ علم کے غور وفکر کے لیے معانی وحکمتوں کی پوری دنیا منکشف ہو جاتی ہے۔ اس سیاق میں اگر انسانیت کی دونوں صنفوں ’مردا ورعورت‘ کے مابین قائم ہونے والے تعلقِ ازدواج کی قرآنی بنیادوں کو جاننے کی کوشش کی جائے، تومعلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اس رشتے کی نوعیت کو لباس سے تشبیہ دی ہے۔ (ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنّ) (بقرہ، 187) ’’وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم انکے لیے۔ ‘‘
بظاہر لباس کا مطلب وہ کپڑاہے جو انسان اپنے جسم پر پہنتا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زوجین کے تعلقات کو لباس اور صاحبِ لباس کے تعلق کی مثال سے واضح کیا ہے؟ صورتِ مسئلہ کی تمام ابعاد واطراف کا علم تو ربِ کائنات ہی کو ہوگا، لیکن غور وفکر سے بھی ان دونوں رشتوں کی باہمی یگانگت ومماثلت سمجھ میں آتی ہے۔ اس مختصر مضمون میں لباسِ انسانی کے اہم مقاصد، صفات وخصوصیات اوراسکے ساتھ برتے جانے والے طریقہ ہائے تعامل کی روشنی میں زوجین کے تعلقات کی قرآنی تشبیہ کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وباللہ التوفیق۔
چند اصولی باتیں 
سب سے پہلے چند اصولی باتیں سمجھنے کی ہیں: پہلی بات تو یہ کہ لباس ایسی انسانی ضرورت ہے جس سے کسی بشرکو استغناء نہیں ہوسکتا۔ مادر زاد برہنگی جس طرح ماضی میں سلیم الفطرت انسان کے لیے عیب تھی، ویسے ہی مادیت پرستی واباحیت زدگی کے اس زمانے میں بھی انسانی ضمیر وفطرت مکمل برہنگی سے گھن کھاتے ہیں۔ اس قرآنی تشبیہ سے ایک اصولی بات یہ سمجھ آتی ہے کہ قرآنی تصورِ زندگی میں شادی ونکاح، اسی درجہ ناگزیر وضروری انسانی حاجت قرار پاتے ہیں جس طرح کہ لباس۔ اس بابت ہمارے لیے اسوہ حسنہ کسی بزرگ یا ولی کا طرزِ عمل نہیں، بلکہ اللہ کے آخری رسولﷺ کی سنت وعمل ہونا چاہیے۔
دوسری بات یہ کہ پیدائش کے بعدبچوں کی برہنگی کو ایک معینہ عرصہ تک قابلِ انگیز مانا جاتا ہے۔ لیکن ایک مناسب مدتِ عمرکے بعدبچوں کو سترپوشی کی تلقین نہ کرنا اور برہنگی سے نہ روکنا، انھیں عریانیت وبے حیائی کی تعلیم دینے کے مرادف ہوجاتا ہے۔ بالکل اسی انداز میں مناسب عمرکو پہنچنے کے بعد۔جوشریعت میں قرائن وعلامات اور سن وسال سے معین ومحدد کی گئی ہے۔نوجوان لڑکے لڑکیوں کی شادی ونکاح پر توجہ نہ دینا بھی اباحیت وفواحش کے رواج پانے کا سبب بنتا ہے۔ موجودہ زمانے کی صورت حال سے زیادہ بہتر اسکی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔ دیکھنے والی آنکھ آج فحاشی وبے حیائی کے جن مظاہر کا مشاہدہ کر رہی ہے، انکے برپا ہونے میں ایک بڑا سبب شادی ونکاح کے معاملہ میں اس اسلامی مزاج سے انحراف کرنا بھی ہے۔
تیسری اور اہم ترین بات یہ کہ لباس کی خرید وفروخت یا تیاری وفراہمی کا مسئلہ عام انسانی زندگی میں ایسا نہیں سمجھا جاتا کہ سالہا سال پہلے سے اسکے لیے تیاری ہواورلاتعداد دولت اکٹھا کی جائے۔ بالکل اسی لحاظ سے نکاح اور شادی کا معاملہ بھی اسلامی معاشرہ میں ایسا مہتم بالشان مسئلہ نہیں ہوتا جس کے لیے لمبی چوڑی تقریبات اور فضول خرچیوں کا التزام کرنافرض خیال کیا جائے۔ فرحت ومسرت کے موقع پر خوشی منانا انسانی فطرت ہے اور شرعی طور سے اس میں قباحت بھی نہیں، لیکن اس خوشی کے موقع پربے شمار غیر عقلی وغیر شرعی رسوم ورواج اوراعراف وتقالید کا اہتمام کرنا، اور اسکے نتیجے میں ایک سیدھے سادے مسرت آمیز موقع کو باعثِ تکلیف و باعثِ غم بنادینا عقلاً اور شرعاً حرام وقابلِ نفریں ہے۔
لباس کے مقاصد واہداف
[أ] حفاظت وصیانت
انسان بمقتضائے فطرتِ سلیمہ اپنی سترپوشی کا اہتمام کرتا ہے۔ اسمیں مدِ نظر یہ بھی رہتا ہے کہ مختلف موسمی تغیرات وماحولیاتی انقلابات مثلاً حرارت وبرودت وغیرہ سے، زخمی کرنے اوراذیت پہنچانے والی اشیاء سے اور مختلف فضائی آلودگیوں اور جراثیم سے جسمِ انسانی کی حفاظت وصیانت ہوجائے اور وہ مختلف امراض وآفات سے محفوظ رہ سکے۔ شادی کرنے میں بھی انسان اپنی نوع ونسل کو مٹنے اور منقطع ہونے سے محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ انسانی فطرت میں یہ داعیہ ودیعت ہے کہ وہ اپنے D.N.A.کو اولاد واحفاد اور نسل وذریت کی شکل میں بڑھتے اور پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتا ہے۔ اس جذبہ کی درست عکاسی خود خالقِ فطرت کے کلام میں پائی جاتی ہے: (وَاللّہُ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً وَجَعَلَ لَکُم مِّنْ أَزْوَاجِکُم بَنِیْنَ وَحَفَدَۃً وَرَزَقَکُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللّہِ ہُمْ یَکْفُرُون) (نحل، 72) ’’اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کودیں، پھر کیا یہ لوگ (سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی) باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں۔ ‘‘
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ہمیں شادی کرنے کا حکم فرماتے اور تبتل وانقطاع کرنے سے سختی سے روکتے تھے، اور فرماتے تھے: ’’ایسی عورتوں سے شادی کرو جو محبت کرنے والی اور خوب جننے والی ہوں کیونکہ میں روزِ قیامت تمہاری وجہ سے دیگر انبیاء پر (امت کی) کثرت میں بڑھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ [کان یأمرنا بالباء ۃ وینھی عن التبتل نھیا شدیدا ویقول: تزوجوا الولود الودود، فانی مکاثر بکم الأنبیاء یوم القیامۃ] (مسند احمدؒ : 12634۔ صحیح ابنِ حبانؒ : 4028) واضح رہے عربی زبان میں تبتل کے معنی بے رغبت ہوکر شادی نہ کرنے کے آتے ہیں۔ (المعجم الوسیط: مادۃ ب ت ل1/47)
شادی میں حفاظتِ نفس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے آپ کو ایسے معاصی وفحش اعمال سے محفوظ کرلیتا ہے جو دنیا میں مہلک امراض اور آخرت میں عذابِ عظیم کا موجب بنتے ہیں۔ قریبی دور میں سامنے آیا ’’ایڈز‘‘ نامی لاعلاج مہلک مرض بھی جنسی بے راہ روی کی پیداوار ماناگیاہے اور اس سے بچنے کا واحد راستہ شرمگاہوں کی حفاظت بتایا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے شرمگاہوں کی حفاظت کا ایک طریقہ نگاہیں نیچی رکھنا بیان کیا ہے۔ (قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ*وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ) (نور، 30۔31) ’’اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتاہے۔ اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ ‘‘
آیتِ کریمہ میں شرم گاہوں کی حفاظت وعفت کے لیے غضِ بصر کو ایک وسیلہ بتایا گیا ہے، لیکن فرمانِ رسالت ﷺمیں شادی کر لینے کو، نگاہوں کے نیچے رکھنے اور شرم گاہوں کے محفوظ وپاکیزہ رکھنے کا کارگر ومؤثر ترین نسخہ قرار دیا گیا ہے۔ آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’اے گروہِ نوجوانان! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ شادی کی وجہ سے نگاہیں نیچی اور شرمگاہیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ البتہ جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ روزوں کا التزام کرے کیونکہ روزہ شہوتِ نکاح کوکاٹ دیتا ہے۔ ‘‘ [یا معشر الشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج فانّہ أغضّ للبصر وأحصن للفرج، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانّہ لہ وجاء] (صحیح بخاریؒ : 5065۔ صحیح مسلمؒ : 3464)
[ب] ستر پوشی وپردہ داری
لباس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ انسان اسکے ذریعہ سے اپنے قابلِ حیاجسمانی حصوں کو لوگوں سے چھپانا چاہتا ہے۔ ستر پوشی کایہ اہتمام اس لیے ہے کہ خالقِ کائنات نے انسان کے وجدان وفطرت میں حیا وشرم کا مادہ رکھا ہے، اور یہ اسکے اشرف المخلوقات یا تکریم واعزاز یافتہ مخلوق ہونے کا تقاضا بھی ہے۔ اس میں ایک ضمنی مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے بعض جسمانی وخِلقی عیوب اور غیر طبعی امور کو مخفی رکھنا چاہتا ہے جن کے بارے میں اسے قطعی گوارا نہیں ہوتا کہ کوئی محرم یاقریب ترین رشتہ دار بھی اِن پر مطلع ہوجائے۔
شادی یاازدواجی زندگی میں زوجین کا ایک دوسرے کے لیے یہی کردار ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے لباس اور پردہ بن جاتا ہے۔ قرآن جب زوجین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے (بقرہ، 187) تو اس سے مراد یہی ستر پوشی واخفا کا عمل ہے۔ اس استنباط کی مزید تائید وتوثیق اس سے بھی ہوتی ہے کہاللہ رب العزت نے رات کو بھی لباس قرار دیا ہے، کیونکہ رات اپنی تاریکی میں اشیاء واشخاص سبھی کو ڈھانپ لیتی ہے۔ ارشادِ باری ہے: (وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْْلَ لِبَاساً وَالنَّوْمَ سُبَاتاً وَجَعَلَ النَّہَارَ نُشُوراً) (فرقان، 47) ’’اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس، اور نیند کو سکونِ موت اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا۔ ‘‘ (وَجَعَلْنَا اللَّیْْلَ لِبَاساً) (نبأ، 10) ’’اور رات کو پردہ پوش بنایا۔ ‘‘
سابقہ آیات کے تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کے نزدیک جو تعلق رات کا دنیائے انسانیت کے ساتھ ہوتا ہے، بعینہ وہی رابطہ یا تعلق زوجین کا آپس میں ہوتا ہے۔ ایک طرف قرآن کریم لباس کے لفظ کو رات کے پس منظر میں چھپانے اور ڈھانپ لینے کے معنی میں استعمال کرتا ہے، تو دوسری طرف لباس ہی کے لفظ کو انسانی عورات کی پردہ پوشی کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ (یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْءَ اتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَیَ ذَلِکَ خَیْْر) (اعراف، 26) ’’اے اولادِ آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقوی کا لباس ہے۔ ‘‘ شایدزوجین کے مابین اسی رشتۂ ستر پوشی واخفائے عیوب کا لحاظ کرتے ہوئے شریعت نے بہت سختی سے اس بابت نکیر فرمائی ہے کہ زوجین میں سے کوئی اپنے شریکِ زندگی کے جسمانی اوصاف دوسروں کو بیان کرتا پھرے۔ [انّ من أشرّ الناس عند اللہ منزلۃ یوم القیامۃ یفضی الی امرأتہ وتفضی الیہ ثمّ ینشر سرھا] (صحیح مسلمؒ : 3615)
[ج] زینت وآرایش
زینت کے لغوی معنی میں ہروہ چیزشامل ہے جس سے خوبصورتی حاصل کی جاتی ہے۔ درحقیقت اس کے اطلاق میں وہ تمام اشیاء داخل ہیں جو انسان کوکسی طور سے بھی بھونڈا، یا بدشکل نہ بناتی ہوں۔ (لسان العرب، ابن منظور مصریؒ : مادہ ز ی ن3/143) ہر انسان پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس دیدہ زیب ہو، باعثِ شرم وعار نہ ہو۔ آرایش وزیبایش کو پسند کرنابشری جبلت ہے جس میں فی نفسہ کوئی حرج کی بات نہیں۔ ارشادِ باری ہے: (قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ) (اعراف، 32) ’’اے محمدؐ، ان سے کہو کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟ ‘‘
حضرت ابنِ مسعودؓ روایت فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت میں نہیں داخل ہوگا ایسا شخص جس کے دل میں ذرہ بھر کبر ہے۔ ایک آدمی نے یہ سن کر کہا: کوئی انسان پسند کرتا ہے کہ اسکا کپڑا اور اسکا جوتا خوبصورت نظر آئے؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ رب العزت جمیل ہیں اور جمال کو پسند فرماتے ہیں، کبر تو یہ ہے کہ حق کو جانکر نہ مانا جائے اور لوگوں کی حق تلفی کی جائے۔ ‘‘ [لایدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر، فقال رجل: ان الرجل یحب أن یکون ثوبہ حسنا ونعلہ حسنۃ، قال: انّ اللہ جمیل یحب الجمال، الکبر بطر الحق وغمط الناس] (صحیح مسلمؒ : 275) یہ سب فرمودات لباسِ انسانی سے متعلق ہیں۔
زوجین کے تعلق سے دیکھیں تو مرد وعورت دونوں پسند کرتے ہیں کہ انکا شریکِ زندگی انکے لیے باعثِ زینت وجمال ہو، نہ کہ سببِ شرم وعار۔ لیکن یہ زینت وجمال کس سطح کا ہو، اس بارے میں انسانی طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ اسکو جسمانی حسن پر موقوف سمجھتے ہیں، کچھ لوگ مال وثروت پر، کچھ لوگ جاہ وعزت پر اور کچھ لوگ دینداری وتقوی پر۔ ارشادِ نبوتﷺ ہے: عورت کو چار وجوہات سے نکاح میں لیا جاتا ہے: مال کے سبب، خاندانی عزت کے سبب، خوبصورتی کے سبب اور دینداری کے سبب۔ تم دیندار خاتون کو عقدِ نکاح میں لیکر کامیاب ہوجاؤ، اللہ تمہارے ہاتھ خاک آلودرکھے!۔ ‘‘ [تنکح المرأۃ لأربعٍ: لمالھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھا؛فاظفر بذات الدین تربت یداک] (صحیح بخاریؒ : 5090۔ صحیح مسلمؒ : 3708) واضح رہے کہ حدیث میں عورت کے نکاح کا تذکرہ عادت وعرف کا لحاظ کرتے ہوئے آیا ہے اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک اچھے شوہر کے انتخاب میں بھی اس حدیث کو مشعلِ راہ نہ بنایا جائے۔ حدیث میں مذکور چاروں چیزیں مال، عزت، حسن اور دین اپنی اپنی قسم کے تمام اجزاء واشکال پر محیط ہیں۔ جس طرح مال کے مفہوم میں دولت وثروت کی تمام شکلیں شامل سمجھی جاتی ہیں، اسی طرح عزت وجاہ کے عموم میں تعلیمی لیاقت اور علمی ڈگریوں کو بھی داخل مانا جائے گا۔
سابقہ آیات واحادیث کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح کسی خوش رو انسان کی خوش لباسی اسکے حسن وکشش میں اضافہ کرتی ہے، بالکل اسی طرح زوجین میں سے ہر ایک، دوسرے کی زینت وجمال میں اضافہ کا سبب بنتا ہے اور اسے بننا چاہیے۔ [د] مشکلاتِ زندگی میں مدد ومعاونت
ہر انسان اپنے لیے وہ لباس اختیار کرتا ہے جو اس کی مخصوص تجارت وعمل میں ممد ومعاون ہو، حارج نہ ہو۔ کچھ لوگ اپنے کام اور پیشہ کے مدِ نظر تنگ اور چست لباس پہنتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اپنی تجارت وحرفت ہی کی وجہ سے ڈھیلا ڈھالا لباس اختیار کرتے ہیں۔ یہ ایک معلوم وومجرب حقیقتِ واقعہ ہے جس کو بآسانی اپنے آپ پر غور کر کے جانا جا سکتا ہے۔ لباس کے اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر مختلف سرکاری محکموں وحکومتی شعبوں کی وردیوں اور پوشاکوں کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔
شادی میں شریکِ حیات کے انتخاب میں بھی انسان کوشش کرتا ہے کہ اسکو ایسا ساتھی ملے جو امورِ زندگانی میں بہترین معاون ومددگار ثابت ہوسکے۔ چنانچہ بسا اوقات ترجیح کا پیمانہ جائیداد وبینک بیلینس ٹھہرتا ہے، اور کبھی اونچی نوکری اور موٹی تنخواہ۔ کچھ لوگوں کی نظر امورِ خانہ داری میں مہارت پر ہوتی ہے جبکہ دیگر کچھ حضرات اپنے ہم پیشہ تعلیم یافتہ ساتھی کا جوڑ پسند کرتے ہیں۔ جس طرح لباس کے انتخاب میں پیشِ نظر یہ ہوتا ہے کہ امور ومعاملاتِ زندگی میں کارآمد ومفید ثابت ہو، اسی طرح انسان کو شریکِ حیات کے انتخاب میں بھی اس پہلو کی رعایت رکھنے کا حق ہے، بشرطیکہ شرعی ضوابط وحدود میں رہتے ہوئے ایسا کیا جائے۔ ارشادِ باری ہے: (ْ وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب) (مائدہ، 2) ’’جوکام نیکی اور خداترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے۔ ‘‘
لباس کے اوصاف
[أ] مناسبت وموافقت
انسان اپنے لباس کے لیے ایسا کپڑا اور سلائی کا ایسااندازاختیار کرتا ہے جو اسکے مقصود کو پورا کر ے اور ساتھ ہی اسکی قامت پر جچ سکے۔ لباس کا بیحد لمبایا چھوٹا ہونا، بیحد تنگ یا ڈھیلا ہونا اسکو بے ہنگم ومعیوب بنا دیتا ہے۔ لہٰذا لباس کا جسمِ انسانی کے موافق ومناسب ہونا حد درجہ ضروری ہے۔ بالکل اسی انداز میں مرد وعورت میں سے ہر ایک کو اپنے رفیقِ حیات کے انتخاب میں مناسبت وموافقت کے اس پہلو کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ انسان بیشتر اوقات حرص وہوس میں اندھا ہوکر اپنی ذاتی مناسبت کو فراموش کر جاتا ہے اور ہر جگہ اپنی استطاعت ومناسبت سے کہیں زیادہ کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دیگر امور ومعاملات میں بھی یہ حریصانہ رویہ نقصان دہ ہوتا ہے، لیکن رفیقِ زندگی کے انتخاب میں اسکی مضرت متعدی وکئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ حسن وجمال، دولت وغنا، عزت وجاہ اور علم وفضل میں زوجین کی باہمی عدمِ مناسبت و عدمِ موافقت بالآخر سنگین نتائج کا باعث بن جاتی ہے، جسکے مضر اثرات کئی خاندانوں اور نسلوں تک کو اپنی گرداب میں لے لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں دانش مندانہ رویہ یہی ہے کہ شریکِ سفرِ حیات کے اختیار میں پوری سچائی ودیانت داری اور کامل واقعیت پسندی وعملیت کا مظاہرہ کیاجائے۔ اس قرآنی تشبیہ کا ایک پیغام یہ بھی ہے۔
[ب] نوع واصل
لباس کے لیے لوگ اپنی اپنی طبیعت، علم یادینداری کے مطابق مختلف الاصل ومختلف النوع (مثلاً اونی، سوتی، ریشمی وغیرہ) کپڑوں کو پسند کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنے لیے خوب سے خوب تر کی تلاشِ بسیار کرتا ہے جوکہ درست بھی ہے۔ شادی کے لیے بھی انسان اسی طرح تلاشِ بسیار کرتا ہے اور اہلِ علم واہلِ تجربہ سے افضل ترین رشتہ کے بارے میں صلاح مشورہ کرتا ہے۔ ایک آدمی نے نواسۂ رسول حضرت حسین بن علیؓ سے دریافت کیا: میری ایک بیٹی ہے، میں اسکی شادی کس سے کروں؟ آپؓ نے جواباً فرمایا: جو اللہ سے ڈرنے والا ہو اس سے شادی کر دو، کہ اگر وہ تمہاری بیٹی سے محبت کرے گا تو اکرام واعزاز میں رکھے گا اور نفرت کرے گا تو خدا کا خوف اسے ظلم نہیں کرنے دیگا۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہؒ : 12871)
اس سلسلے میں قرآن کریم سب سے زیادہ مکرم وشریف شخص اسکو قرار دیتا ہے جو زیادہ سے زیادہ اپنے رب سے ڈرنے والا ہو۔ (یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ) (حجرات، 13) ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اورپھرتمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناًاللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔ ‘‘
نکاح میں دینداری کو معیار قرار دینے والی حدیث کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے۔
[ج] شکل وصورت اور رنگ
انسان مختلف نفسیاتی وفطری داعیات کے بسبب متنوع اشکال والوان کالباس اختیار کرتاہے۔ مطمحِ نظر اس میں یہ ہوتا ہے کہ خود انسان کے دل ودماغ اس پسند سے راضی ہوجائیں اور معاشرے میں بھی اسکو مذاق وتفریح کا موضوع نہ بنایا جائے۔ ماہرینِ نفسیات بھی انسان کے لباس کو اسکی داخلی شخصیت کا مظہر قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلیم الفطرت ونفسیاتی لحاظ سے صحت مند انسان بھڑکیلے رنگوں کے لباس سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں ایسے لباسوں سے بھی اجتناب وگریزکیا جاتا ہے جو فردِ مخصوص کی شکل وصورت سے، یا عمرا وررتبہ سے میل نہیں کھاتے، یا اس کے خاندانی پس منظر یا سماجی مقام (سوشل اسٹیٹس) کے منافی ہیں۔
ازدواجی زندگی میں ہر انسان ایسا ساتھی چاہتا ہے جو اس کے مناسب ہو اوراس سے میل کھاتا ہو؛بصورتِ دیگر وہ لوگوں کی چبھتی نگاہوں کا مرکز بنتا ہے اوراسکی ملامت وتنقید میں زبانیں چلنے لگتی ہیں۔ غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ بڑی تاکید فرماتے تھے کہ شادی سے قبل زوجین میں سے ہر ایک اپنے مجوزہ شریکِ زندگی کو دیکھ لے۔ آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: جب تم میں سے کوئی پیغامِ نکاح بھیجے، تب ممکن ہو کہ نکاح جس خاطر کیا جارہا ہے اس پر نظر ڈال لے تو وہ ضرور ایسا کرے۔ ‘‘ [اذا خطب احدکم المرأۃ فان استطاع أن ینظر منھا الی ما یدعوہ الی نکاحھا فلیفعل] (سنن ابو داؤدؒ : 2084۔ مسند احمدؒ : 14626) صحیح مسلمؒ میں مروی ہے کہ: ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کا عندیہ ظاہر کیا تو اللہ کے رسولﷺ نے سوال فرمایا: کیا تم نے اس کو دیکھا ہے؟ اس نے نفی میں جواب دیا تو آپﷺ نے فرمایا: جاؤ جاکر پہلے اسکو دیکھو کیونکہ ایسا کرنا زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ تمہارے مابین کا رشتہ پائیداری ودوام پائے۔ ‘‘ [قال لرجل تزوج امرأۃ: أنظرت الیھا؟ قال: لا، قال: اذھب فانظر الیھافانہ أجدر أن یؤدم بینکما] (صحیح مسلمؒ : 3550۔ سنن نسائیؒ : 3235۔ مسنداحمدؒ : 18179)
[د] کمالیات وزوائد
لباس کے لیے کپڑے کی نوعیت اور سلائی کے انداز کی تعیین کے بعد بیشتر اوقات انسان اس میں مزید چیزیں لگا کر اور زیادہ حسین وجمیل بنانا چاہتا ہے۔ مثلاً اسکے لیے اچھے بٹنوں کا اہتمام یا اچھی ٹائی یا ٹوپی یا مفلرا وررومال وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسمیں کوئی قباحت بھی نہیں۔ ازدواجی زندگی میں بھی زوجین میں سے ہر ایک کی تمنا وآرزو ہوتی ہے کہ اس کا ساتھی دیگر صفات وصلاحیتوں کے علاوہ کچھ غیر معمولی خوبیوں کا حامل رہے۔ مثلاًاعلیٰ علمی اہلیت کا حامل ہو، یا اعلی پائے کا مقرر وواعظ ہو یاحافظِ قرآن ہو یاآرائش وزیبائش میں ماہر ہو وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے لفظوں میں وہ کسی ایسی اہلیت وصلاحیت کا حامل ہو، جو اسکے ہم عصر اقران ومصاحبین میں نایاب یا کمیاب ہے، اور اسکی وجہ سے انسان دوسرے امور کی طرح یہاں بھی اپنے جزبۂ افتخار کو تسکین بہم پہنچا سکے۔ یہ خواہش بھی اگر حدودِ دین سے متجاوز نہ ہو تو جائز ہو گی۔
لباس کی خصوصیات 
[أ] اپنائیت ولگاوٹ
انسان جب لباس زیب تن رکھتا ہے تو بڑی حد تک لباس اسکے جسم سے چمٹا ہوتا ہے یااس قدرقریب ہوتا ہے کہ دونوں میں فاصلہ یا دوری نا کے برابر ہوتی ہے۔ ازدواجی زندگی میں بھی یہی صورت مطلوب ہے۔ زوجین میں سے ہر ایک کو دوسرے کے ساتھ بیحد اپنائیت وہمدردی کا معاملہ برتنا چاہیے اور ہر ایک کو دوسرے کے احساسات وجذبات سے واقفیت اور نازک وحساس مسائل وحالات کا علم ہونا چاہیے۔
امام قرطبیؒ اس قرآنی تشبیہ کے ضمن میں فرماتے ہیں: لباس کا اطلاق اصلاً کپڑوں پر ہوتاہے۔ زوجین کے باہمی امتزاج واقتران کو لباس کی تشبیہ سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ زوجین بھی لباس ہی کی مانند ایک دوسرے سے مربوط اورلازم وملزوم ہوتے ہیں۔ (الجامع لأحکام القرآن، قرطبیؒ : 2/314)
ایک دوسرے پہلو سے بھی غور کیجئے کہ انسان کے لیے ایامِ شباب جسمانی قوت وصحت مندی کا زمانہ ہوتے ہیں۔ یوں تو انسان ہر موسم کے مطابق لباس میں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے تاکہ وہ موسمی مضر اثرات میں مبتلا نہ ہو سکے۔ لیکن جوانی کے دور میں بڑی سے بڑی موسمی بد پرہیزی کے باوجود انسان امراض وآفات سے محفوظ رہ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر موسمِ گرما کی لو اور موسمِ سرما کے یخ بستہ جھکڑ یا بارشوں کے پانی میں خوب نہاناوغیرہ اسکے جسمانی نظام کو متاثر نہیں کرنے پاتے۔ اس صورتِ حال کے برعکس ایامِ پیری میں جب کہ انسان کا دفاعی نظام کمزور ہوجاتا ہے، ذرا سی بے احتیاطی اسکو بیمار کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس دور میں اسے ہر موسم میں اپنے لباس سے جڑے رہنے کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اسوقت اسکے جسمانی دفاعی نظام کی کمزوری طالب ہوتی ہے کہ جسم کو زیادہ سے زیادہ لباس میں ملبوسرکھا جائے۔ بالکل اسی طرح ازدواجی زندگی میں بھی پیرانہ سالی کے ایام میں زوجین کو ایک دوسرے کے ساتھ اور ایک دوسرے کی محبت ومودت کی نہایت درجہ ضرورت ہوتی ہے۔ عمومی مشاہدہ کی چیز ہے کہ زوجین خواہ کتنے ہی عمر دراز ہوں ایک دوسرے کے سہارے بقیدِ حیات صابر وشاکر رہتے ہیں، لیکن جہاں کسی ایک نے اس دارِ فانی سے رحلت کی تو مشکل ہوتا ہے کہ دوسرا بھی زیادہ ایام زندہ رہ پائے۔
[ب] مصاحبت وتلازم
انسان دنیا کے کسی گوشے میں سفر کر جائے اسکا لباس اس کے ساتھ رہتا ہے اور دونوں میں کسی صورت مفارقت پیدا نہیں ہونے پاتی۔ ازدواجی زندگی میں بھی یہی فطری حالت مطلوب ومستحب ہے اور باہمی افتراق یاچند روزہ دوری کی اجازت حالتِ اضطرار ومجبوری ہی میں دی جا سکتی ہے۔ انسان غریب الوطن ہو یا مقیم، ہر حالت میں سکون واطمنان اور محبت ورحمت کا خواستگار ہوتا ہے، جسکا وجود اسی طور ممکن ہے کہ اسکارفیقِ زندگی ہر آن وہر مکان اسکے ساتھ پایاجائے۔ ارشادِ ربانی ہے(وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا إِلَیْْہَا وَجَعَلَ بَیْْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ) (روم، 21) ’’اور اسکی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم انکے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقیناًاسمیں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں۔ ‘‘
اللہ کے رسولﷺ کا معمول بھی یہی تھا کہ آپﷺ اسفار وغزوات میں امہاتؓ المومنین کو ساتھ رکھتے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: اللہ کے رسولﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہلِ خانہ میں قرعہ اندازی فرماتے اور جس کا نام نکلتا انھیں ساتھ لے جاتے۔ [کان رسول اللہﷺ اذا اراد سفرا أقرع بین نساء ہ فأیتھن خرج سھمھا خرج بھا معہ] (صحیح بخاریؒ : 2593۔ صحیح مسلمؒ : 7196) یہاں غور طلب بلکہ سنگین مسئلہ مسلمانوں کے اس نوکری پیشہ طبقہ کاہے جو زیادہ کمائی کی خاطر بیرونی ممالک یادور دراز علاقوں میں کام کرتے ہیں اور سالہا سال تک اپنے اہلِ خانہ کو زیارت وملاقات سے محروم رکھتے ہیں۔ بعض خلیجی ممالک کا حال تو یہ ہے کہ اس میں جانے کے بعد سہ سالہ مدت گزارے بغیر واپسی کے بارے میں سوچنا بھی ناممکن ہے۔ فقہی موشگافیاں کرکے اس طرزِ عمل کو جائز ٹھہرانے یا مجبوریِ حالات کے بہانے اسکو قابلِ انگیز قرار دینے سے، یہ غیر شرعی دنیا پرستانہ رویہ کس قدر درست قرار پاتا ہے، یہ دوسری بات ہے۔ لیکن جو بات مسلّم ہے وہ یہ کہ ایسا طرزِ عمل رشتۂ زوجین کے قرآنی تصور کے بالکل خلاف ہے۔
قابلِ اجتناب امور
فطری طور پر پر انسان اپنے لباس کی حفاظت وصیانت کرتا ہے اور متعدد امور واشیاء سے اسکو دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ انمیں سے چند کا تذکرہ درج ذیل ہے:
[أ] گندگی وآلائش
ہر انسان چاہتا ہے کہ لباس کو خراب کرنے یا ناپاک کر دینے والی کوئی معنوی ومادی گندگی اسکے لباس کو نہ لگے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ کوئی چیز اسکے لباس کو بدرنگ وبدبودارنہ کرے۔ ازدواجی رشتہ میں بھی زوجین سے مطلوب ہوتا ہے کہ وہ اس رشتہ کی ہمہ وقتی حفاظت ونگرانی رکھیں تاکہ انکا یہ رشتہ ورابطہ ہمیشہ خوش شکل، خوش مذاق، اور خوشبودار باقی رہے۔ زوجین میں سے ہر ایک کو دوسرے کی شخصیت کا اعتراف واحترام کرتے ہوئے، حسنِ معاشرت کو مکدر کرنے والی تمام غلط فہمیوں اور خامیوں کو نرمی وہمدردی کے ساتھ سدھار دینا چاہیے۔ اللہ کے آخری رسولﷺکا اسوہ اس بارے میں مشعلِ راہ ہے۔ آپﷺ ہمیشہ ازواجِ مطہراتؓ کی ناروا باتوں پر ضبط وتحمل اور اہلِ خانہ کی ناراضگی کا سبب بننے والی چیزوں سے احتراز فرماتے تھے۔ ازواجِ مطہراتؓ کی چھوٹی چھوٹی پسند وناپسند کو نوٹس میں رکھنے کی مثال یہ واقعہ ہے: ایک مرتبہ آپﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: میں تمہاری رضامندی وعدمِ رضامندی کو پہچان لیتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ کے استفسار پر آپﷺ نے فرمایا: تم رضامندی کی حالت میں قسم کھاتے ہوئے کہتی ہو کہ قسم محمدؐ کے معبود کی، جبکہ ناراضگی کی حالت میں کہتی ہو کہ قسم ابراہیمؑ کے معبود کی۔ یہ سن کر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: میں صرف آپکا نام لینا چھوڑتی ہوں (آپﷺ کو نہیں۔ ) ۔ [انی لأعرف غضبک من رضاک، قالت: وکیف تعرفہ؟ قال: اذا رضیت قلت لا والٰہ محمّدٍ، واذا غضبت قلت لا والٰہ ابراھیم، قالت: صدقت، انما اھجر اسمک۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ : 6078)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زوجین میں سے ہر ایک کو خانگی رشتے میں کسی بھی شک وشبہ یا غلط فہمی کے شائبہ کو جگہ نہیں دینی چاہیے اور خدا نخواستہ اگر ایسیصورتحال واقع ہوجائے تو فوری طور پر اسکے ازالہ وتلافی کی سبیل کرلینا چاہیے۔ اس اصول کو مدِ نظر رکھنے سے ازدواجی رشتہ ہمیشہ سرسبز وشاداب رہتا ہے۔ حضرت عمران بن حطانؓ کے بارے میں آتا ہے کہ آپؓ کی اہلیہ نہایت شکیل وجمیل تھیں، جبکہ خود آنجنابؓ کا حال ایسا نہ تھا۔ روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنی بیوی کو مخاطب فرما کر کہا: تم اور میں انشاء اللہ جنتی ہیں۔ اس پر اہلیہ نے تعجب ظاہر کیا تو آپؓ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ تم حسن وجمال میں مجھ سے بہتر ہو، جس پر میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، اور میں تم سے شکل وصورت میں فروتر ہوں جس پر تم صبر واحتساب رکھتی ہو۔ اس لیے انشاء اللہ ہم دونوں اہلِ جنت میں سے ہونگے۔ ‘‘ (العقد الفرید، ابن عبد ربہؒ : 2/431) معلوم ہوا ہے کہ زوجین میں سے ہر ایک کو دوسرے کی خوبی اورواقعی حیثیت کا اعتراف کرنا چاہیے، کیونکہ اسکی وجہ سے بے تکلفی ومحبت اوراحسان مندی و محسن شناسی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جو کسی بھی ازدواجی رشتہ کے لیے ازحد ضروری ہے۔
[ب] انقباض و کبیدگی
بسا اوقات انسان کا لباس تو صاف ستھرا ہوتا ہے لیکن دھونے یا کثرت سے استعمال کرنے کی وجہ سے اسمیں سکڑاؤ اور انکماش پیدا ہوجاتا ہے۔ اس قسم کے سکڑے ہوئے کپڑے کا علاج استری کے ذریعہ اسکوپھیلا کر کیا جاتا ہے۔ خانگی سعادت وخوشحالی کے حصول کی را ہ میں بھی بسا اوقات چھوٹی چھوٹی چیزیں اختلافات اورہلکی پھلکی جھڑپ کا سبب بن جاتی ہیں۔ ایسے میں خانگی رشتہ کو بھی ایک قسم کا انقباض وانکماش لاحق ہو جاتا ہے، جس کے بعد ضرورت ہوتی ہے کہ ازدواجی رشتہ کی تازگی بحال کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسکا بہترین راستہ آپسی تفاہم، بے غرضی وانکارِ ذات اور بعض غلطیوں سے اغماض واعراض کرنا ہے۔ اس وسیلہ سے ازدواجی رشتہ کو لاحق انقباضی کیفیت ختم ہوکر فرحت وانبساط میں بدل جاتی ہے۔ واضح رہے جس طرح بروقت سکڑے ہوئے کپڑے کو درست نہ کرنے پر دھیرے دھیرے یہ حالت کپڑے کا جزوِ لازم بن جاتی ہے اورپھر اسکا ازالہ مشکل تر ہو جاتا ہے، اسی طرح خانگی رشتہ میں بھی وقتی انقباض وناراضگی کو طول دینے سے بسا اوقات یہ چیز مستقل دردِ سر بن جاتی ہے اورصورت حال کی اصلاح بیحد مشکل ہوجاتی ہے۔
[ج] انقطاع وافتراق
بسا اوقات انسان کا لباس کٹ یا پھٹ جاتا ہے جسکے بعد اسکو رفو کرنے اور سینے کی ضرورت پڑتی ہے اور اس طرح لباس کو صحیح سالم باقی رکھا جاتا ہے۔ اگر پھٹے کپڑے کو جلد از جلد سینے کا اہتمام نہ کیا جائے تو اس پھٹن کادائرہ وسعت اختیار کرجاتا ہے اور کبھی کبھار اس حد کو پہونچ جاتا ہے جہاں اسکو بحیثیتِ لباس استعمال میں لانا محال ہوجاتا ہے۔ ازدواجی زندگی میں بھی بسا اوقات بڑی مشکلات اور گہرے اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں جنکا بروقت ازالہ وخاتمہ نہ کیا جائے تومستقل انقطاع ولاتعلقی کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ عربی زبان میں رفو کرنے کا لفظ سلائی کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور شادی کے بعد اتفاق ویگانگت کے معنی میں بھی۔ (المعجم الوسیط: مادۃ ر ف أ1/114) احادیث میں بھی یہ لفظ اس معنی میں آیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کسی انسان کو شادی میں اتفاق واتحاد کی دعا (رفّأ) دیتے ہوئے فرماتے تھے: اللہ تمہارے لیے برکت مقدر کرے اور تم پر برکت رکھے اور تم دونوں کے مابین خیر میں اجتماع فرمائے۔ ‘‘ [أنّ النبی ﷺکان اذا رفّأ انساناً اذا تزوج قال: بارک اللہ لک وبارک علیک وجمع بینکما فی خیرٍ] (سنن ابوداؤدؒ : 2132۔ سنن ترمذیؒ : 1091۔ مسند احمدؒ : 8944۔ سنن ابن ماجہؒ : 1905)
[د] بے نیازی واستغنا
اگر انسان بڑی کد وکاوش کے بعد کسی بے عیب وخوبصورت لباس کا انتخاب کرے، لیکن پھر اچانک ہی اسکو اتار کر پھینک دے اور خود کو اس سے مستغنی ظاہر کرنے لگے، یا کہے کہ میں برہنہ رہنا پسند کرتا ہوں یا یہ کہ میں اپنے لیے دوسرا لباس منتخب کروں گا، توعقلِ عامہ ایسے انسان کو پاگل قرار دیتی ہے۔ اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے اپنے انتخاب میں غلطی کی تھی؟ کیا تم نے یہ لباس محنت کی حلال کمائی سے نہیں خریدا تھا؟ کیا اس لباس میں پایا جانے والا عیب یانقص ناقابلِ اصلاح وتحمل ہے؟ کیا تم نے اس عیب یا نقص کی اصلاح وتلافی کرنے کی کوشش کی؟ ان تمام اعتراضات وسوالات کا تسلی بخش جواب نہ دینے پرایسے شخص کو متکبر ونخوت پسند اور فضول خرچ ومسرف کے خطاب سے موسوم کیاجاتا ہے۔
ازدواجی امور میں بھی زوجین میں سے کسی ایک کا دوسرے کے تئیں تعامل اگر بے نیازی ولاتعلقی کا ہے تو اس پر بھی یہی اعتراضات وارد ہوتے ہیں اور یہی حکم اس پربھی لگایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں جواز کی صورت تب ہی ہے جبکہ معاملہ اس حدکو پہونچ جائے کہ کسی طور گزارے کا امکان باقی نہ رہے اور علیحدگی وانفصالکے علاوہ کوئی چارۂ کار نہ ہو۔ اللہ کے رسول ﷺکا ارشادِ گرامی ہے: حلال چیزوں میں اللہ کو ناپسندیدہ ترین شے طلاق ہے۔ ‘‘ [أبغض الحلال عند اللہ الطلاق] (سنن ابوداؤدؒ : 2180۔ سنن ابن ماجہؒ : 2018)
یہ چند بنیادی باتیں ہیں جو قرآن کی اس تشبیہ کی روشنی میں بظاہر سمجھ آتی ہیں۔ یہاں ایک تنبیہ ضروری یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں وارد مختلف تمثیلات وتشبیہات کے تضمنات میں کسی ایسے امر کوشامل کرنا جسکی تائید قرآن وسنت کی دیگر واضح نصوص سے نہیں ہوتی، یااس کے معارض شرعی نصوص پائے جاتے ہیں، تو ایسا استنباط کسی نے بھی انجام دیا ہو غلط قرار پائے گا۔ مثلاً اس قرآنی تشبیہ کی روشنی میں یہ کہنا کہ لباس ہی کی طرح زوجین میں سے ہر ایک کو دوسرے پر حقوقِ مالکانہ حاصل ہوجاتے ہیں یا لباس ہی کی طرح زوجین کو بھی ہر ماہ وسال میں شریکِ زندگی تبدیل کرتے رہنا چاہیے، برخود غلط ہوگا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم سبھی کوصحیح فہمِ قرآن کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رحمن ورحیم۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

تبصرے بند ہیں۔