رقصِ مینا

سالک ادؔیب بونتی

وہ ایک حسین و جمیل،اونچےقد، موزوں ڈیل ڈول اور ہنس مُکھ شخصیت کا مالک نوجوان تھا اس وقت عُمر بھی یہی لگ بھگ 26 سال ہوگی ـ

کپڑےکی تجارت کااچھاخاصہ تجربہ بھی ہوچکاتھا…اچھی خاصی کمائی ہوجاتی تھی یوں زندگی مزےمیں رواں تھی، پاس پڑوس میں اچھےرابطے اور حسنِ تعامل کےلیےبھی جاناجاتاتھا ـ محلےکی ایک پڑھی لکّھی لڑکی سے اس کی شادی ہوگئی…  زندگی میں بہارتھی…

ان سب سےہٹ کروہ کریکیٹ کا بڑاعاشق تھا… آئی ـ پی ـ ایل کا دور دورہ تھا یاروں کی ٹولی آپہنچتی توفیاض کریکیٹ کےلطف کوبڑھانے کے لیے چائے پکوڑےکاانتظام بھی کردیتاتھا… رفتہ رفتہ ان سے اس کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی…

چائےپکوڑے سے بات رات دیر گئےڈھابے میں ڈِنّرتک جاپہنچی.

 روز دیرشب گھرپہنچتا…ابتداءاًبیوی نےمجبوری پرمحمول کیامگربات کچھ اور تھی.

آئی پی ایل سے شروع ہونے والی اس کی دوستی جام ومینا تک جاپہنچی تھی ـ دن ہفتوں میں،ہفتےمہینوں میں اور مہینےسال میں بدلنےلگے الله نے ایک بیٹی اور ایک بیٹےکی نعمت سےبھی نوازدیاتھاجوابھی بڑےبھی ہوچکےتھے بیٹی بارہ سال کی اور بیٹاآٹھ سال کا ہوچکاتھا…مگرفیاض کو ان کی کچھ فکرنہ تھی ایک طرح سے اسےان کی کچھ پرواہ نہیں تھی… شراب نوشی مزے سے اب عادت تک پہنچ چکی تھی… بچوں کی تعلیم اور ان کےمستقبل کولےکرنبیلہ بہت پریشان تھی … نمازمیں اپنےشوہرکی اصلاح اور بچوں کےمستقبل کےلیےرورو کر دعائیں بھی کرتی تھی اس نےحیلے بہانے، کبھی پیار سے، کبھی بناوٹ کی ناراضگی سے سمجھانے کوشش کی مگر بے سود ـ

وہ چپ چاپ سن لیتا اور قہقہہ مارتےہوئے یادتو کمرےسے نکل جاتا یا بسترپر دراز ہوجاتا ـ

اب تجارت میں پہلےجیسارنگ نہیں رہا،گھرسے برکت اُٹھنےلگی تھی اور ہنسی کھیلی کے بجائے بےچینی اور اضطراب پنپنےلگے تھے.

نشےکے مارےبسااوقات فیاض بےسبب بچّوں پرہاتھ اٹھادیتااور بیوی روکتی اور بچانے آتی تو وہ بچوں کو چھوڑکر بیوی پربرس پرتاپھراس سے جوکچھ بن پاتا بول اور کر جاتا.

نبیلہ فیاض کی کمائی کو ضائع ہوتادیکھ کر تڑپ اٹھتی اور اُسے سمجھانےکی کوشش کرتی تو صلےمیں طمانچےاور گالیاں نصیب ہوتیں.

بہرطورنبیلہ کو گھرکی بقا اور عزت پیاری تھی اسی سبب وہ فیاض کی ساری جفائیں چپ چاپ سہہ جاتی شایدآج نہیں توکل فیاض سنجیدہ ہوجائے مگریہ بس ایک خیالِ خام تھا…

ہمیشہ شراب کےنشےمیں چور رہتا جس سے اس کے بدکردار ساتھی مکمل فائدہ اٹھاتے،کبھی دوکان سے کپڑےاٹھالےجاتے،کبھی جیب سے رقم تو کبھی کچھ اور کبھی کچھ…

بستی والے کے طعنے سنتی تو بیٹی اپناخون پی کر رہ جاتی…

گھرخاندا اور بیوی بچوں کا سر جھک چکاتھا جس کا فیاض کو بالکل احساس نہیں تھا

ایک روز طیش میں آکر فیاض نے نبیلہ کو خوب مارا…. اور بہت سی گالیوں سے نوازا…. بیچاری خاموش تکیےمیں سردبائے سسک رہی تھی کہ اتنےمیں بیٹی اسکول سے آپہنچی … بکھرےہوئےسامان،اُلٹےہوئےبرتن اور منتشرکمرہ سارافسانہ بیان کررہاتھا…. بیگ رکھ کر رشیدہ ماں کے پاس دوڑپڑی ماں کوسمجھاتےہوئے خودبھی بلک بلک کر رونےلگی… اس کے علاوہ وہ اور کربھی کیاسکتی تھی…

ذہنی کشمکش کےساتھ رات آدھمکی… رشیدہ نے ہوم وَرک مکمل کیا ماں نے کھاناپیش کیاتواس نے کھانےسےانکارکردیا…
دیررات تک رسیدہ بسترپر کروٹ بدلتےہوئے باپ کےآنےکاانتظارکرنےلگی… فیّاض نےاپنےاندازمیں آنےکی خبردی مگرآج اس کےساتھ اس کےگندےدوست بھی تھےجواُسےچھوڑکرچلےگئے…

گھرمیں داخل ہوتےہی اس نے حسبِ معمول دشنام تراشی سےکلام کا آغاز کیا… آج بیٹی جاگ رہی تھی فورا چلّا اُٹھی… پاپا! بہت ہوگیا،امّی پر ظلم اور پاس پڑوس کے طعنے اب ہم سننےکےقابل نہیں ہیں…

گھرمیں سکون اور اطمینا چاہتےہیں تو شراب سے توبہ کرناہوگا ورنہ آپ ہمیں بھول جائیےگا پھرآپ سے ہماراکوئی رشتہ نہیں ہوگا!
بیٹی کی باتوں کابھی اس نادان شرابی پر کچھ اثرنہ ہُوا…

دوسرے روز جیسےہی دوستوں کی ٹولی پہنچی پھروہی رقص جام وصبو….

بیٹی آج بھی منتظرتھی… فیاض کے دوست آج کچھ غلط ارادے سے آئے تھے… ماں اور بیٹی نےبھانپ لیا اور چیخ لگادی جس سے پاس پڑوس کے کچھ لوگ اُٹھ آئے جس سے نامناسب کوئی بھی حادثہ ہونےسے رہ گیا…

پڑوسیوں نے فیّاض کو سمجھانےکی کوشش کی مگر وہ تو نشےمیں چورتھا…

جیسےتیسے صبح ہوئی مگر گھرمیں نہ نبیلہ تھی اور نہ دونوں بچّے… فیاض جب تک نشےسےباہرہوتا بہت دیرہوچکی تھی ..

اس نے بائک سے چاروں طرف تلاش لیا مگر کچھ پتہ نہ چلا… دورونزدیک کے تالاب اور جھاڑیوں سےبھی کچھ سُراغ نہ مِلا اور نہ ہی نبیلہ اپنےمیکےپہنچی تھی اس کا مبائل بھی بندتھا…..

فیّاض کےپاس سوائے افسوس کے کوئی اور چارہ نہ تھا…

اس سے پہلےکہ گھرحسرت کانمونہ بن جائے ہوش سنبھالنا بہت ضروری ہے.

تبصرے بند ہیں۔