رمضانُ المبارک کی آمد اورعالمِ اسلام کی صورتِ حال

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری
خدا کے فضل و کرم سے رمضا ن المبار ک کی آمد ہوچکی ہے ،رمضان المبارک کی آمد سے ہر مومن خوش ہوتا ہے ،ماحول میں نورانیت آجاتی ہے اور چہروں پر عبادتوں کا نور جگمگانے لگتا ہے ،گھروں میں خوشیوں کا سماں نظر آتا ہے، بچوں اور بڑوں ،مردوں اور عورتوں میں شوقِ عبادت اور جذبۂ طاعت دکھائی دیتا ہے ۔رمضان المبارک کو اللہ تعالی نے بہت سی خوبیوں اور امتیازات سے نوازا ہے۔رمضا ن المبارک کی ایک خصوصیت اور امتیاز یہ بھی ہے کہ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے ،اس مہینہ میں اللہ تعالی انسانوں کے دلوں میں ایک دوسری کی ہمدردی اور غم خواری کو پیدا فرماتے ہیں کیوں کہ وہ خود ایک تربیت کے مرحلے سے گزرتا ہے اور بھوک وپیاس کو برداشت کرتا ہے ،حلال چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے اس کے نتیجہ میں وہ دوسروں کی مجبوری اور ان کی فاقہ مستی کو بآسانی سمجھ پاتا ہے ۔اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک وقت کے کھانے کی قدر وقیمت کیا ہوتی ہے ،پیاس کی شدت اور تڑپ انسان کو کیسے بے قرار کردیتی ہے ۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد جو بات آپ پیش کرنی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان دنیا میں صرف اپنے لئے نہیں جیتا بلکہ اس کے دل میں انسانیت کا دکھ اور در د ہوتا ہے ۔دنیا میں بسنے والے دیگر لوگ اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے افراد اپنی ذات کے لئے کوششیں کرتے ہیں اور ان کی ساری فکروں کا خلاصہ خود ان کی اپنی زندگی ہوتی ہے لیکن ایک مومن دنیا میں انسانیت فراموشی کی زندگی نہیں گذارسکتا ،اور بندگانِ خدا کو بھول کر سفینۂ حیات کوآگے نہیں بڑھا سکتا ،کیوں کہ اس کو جس سانچے میں ڈھا لا گیا،جن تعلیمات سے آراستہ کیا گیا اور جس درد و احساس کی متاعِ گراں مایہ سے نوازا گیاوہ کبھی اس کو مفادات کی حد تک کوشش کرنے والا اور اپنی ہی زندگی کو چمکا نے والا نہیں بنا سکتی۔ایک مسلمان کو تو انسانی ہمدردی و غم خواری کا خوگر بنا یاگیا،دوسروں کے لئے تڑپنے والا اور دوسروں کی مجبوریوں کو سمجھنے والا بنایا گیا۔
؂ خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کے اسی امتیاز اور خصوصیت کو اپنے مختلف ارشادات میں بیان فرمایا ، آپ ﷺ کا ایک نہایت اہم اور چونکا دینے والا ارشاد ہے کہ:جس کو مسلمانوں کے مسائل و معاملات کی فکر نہ ہو وہ ان میں سے نہیں (مخلص ایمان والوں میں سے نہیں )(المعجم الصغیر للطبرانی:حدیث نمبر؛909)
ان اہم تعلیمات کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ ہم ایک نظر عالمِ اسلام پر بھی ڈالیں ،اس وقت دنیا کے مختلف ملکوں میں مسلمان بڑی کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں ،صرف مسلمان ہونے کی نسبت پر آزمائشوں میں گرفتار ہے ۔بالخصوص ملکِ شام کی صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہے ،بڑی بے دردی کے ساتھ بے قصور مسلمانوں،مردوں ،عورتوں ،بچوں ،بوڑھوں اور جوانوں پر ظلم و تشدد کی تاریخ لکھی جارہی ہے۔جس ملکِ شام کی فضیلتوں کو اللہ تعالی نے بیان فرمایا اور جس کے ارد گرد برکتوں کو جمع فرمایا ،جس مقدس سرزمین پر انبیاء کرام کے نشاناتِ قدم ہیں ،جس کی فضاؤں میں ان پاک ہستیوں کی سانسیں گردش کررہی ہیں ،جہاں کا ذرہ ذرہ عظمتوں کا گواہ ہے ،جس شہر کے درودیوار اپنی ایک دلچسپ تاریخ رکھتے ہیں ،اور جہاں سے پھر اس دنیا میں انقلاب برپا ہوگا اور تاریخ کی کایا پلٹے گی،آج وہاں کے لوگ اپنے ہی درندوں کے ہاتھوں روز مررہے ہیں اور ان کے شہر اجڑرہے ہیں ،گھر ویران ہورہے ہیں ،ماؤں کے سامنے معصوم کلیوں کو مسلا جارہا ہے ،باپ کی موجودگی میں پھول جیسے بچوں کو کچلا جارہاہے ،ہر طرف قتل و خون کا بازار گرم ہے ۔شیطان صفت درندہ بشار الاسد اپنے ہی لوگوں کا قاتل اور ظالم بنا ہوا ہے۔ شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے اعداد وشمار کے مطابق بشار الاسد ،ایران ،حزب اللہ ،داعش اور دیگر مسلح ملیشیاکے ہاتھوں 2011ء سے اب تک 2لاکھ15ہزارشامی مسلمان ہلاک ہوئے ہیں،جن میں اکثریت عام شہریوں ،عورتوں اور بچوں کی ہے جب کہ بیرونِ ملک ہجرت کرنے والوں کی تعداد40لاکھ اور اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کی تعداد76لاکھ سے تجاوز ہے ۔( اقتباس از:مجلس علمی)ہر ماہ اوسطاً چار ہزار تین سو شامی ہلاک کئے جاتے ہیں ،روزانہ اوسطاًایک سو چوالیس شامی مارے جاتے ہیں،ان میں عورتوں کی تعداد بائیس فیصد ہے ۔تباہ و برباد گھروں ومکانات کی تعداد تیس لاکھ سے زائد ہے۔تباہ شدہ مساجد کی تعداد دو ہزار ہے جن کو مکمل طور پر بمباری سے برباد کردیا گیا۔ ( سہ روزہ دعوت بابت10 مئی 16ء)یہ چند رُلادینے اوردل وجان بے قرارکردینے والی تفصیلات ہیں اس کے علاوہ بھی مزید تباہیاں اور قیامتیں ہیں جو ظالم روز برپاکرتے ہیں۔فلسطین کی صورت حال بھی ہم جانتے ہیں جہاں آئے دن یہودی فوجی درندوں کی زیادتیاں مسلمانوں پر ہوتے رہتی ہیں اور مسلمان خود اپنے ملک اور علاقے میں قید وبند کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،قبلۂ اول مسجد اقصی کی بازیابی کے لئے مسلسل مسلمان اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں اور ملت کے نوجوان ،فلسطین کے جواں مرد ،بلند ہمت مرد اپنی نسلوں کو قربان کررہے ہیں ۔اس کے علاوہ بہت سے ممالک ہیں جہاں حالات اور مسائل کا سامنا ہے ،غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں پر طرح طرح کے الزامات لگا کر عرصۂ حیات کو تنگ کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں ،ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں بھی مخصوص ذہنیت کے لوگ اسلام کے درپے ہیں،اور اسلام ہی کے نام لیوااسلام کے خلاف محاذ قائم کئے ہیں ۔
اس موقع پر ان حالات کے ذکر کرنے کامقصود کیا ہے اور رمضان المبارک سے ان حالات کا کیا جوڑہیں ،یہی بات ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ رمضان المبارک میں ہم کیا کیا کرسکتے ہیں ؟بات دراصل یہ ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے اس مہینہ میں ہم اس بات کا خوب اہتمام کریں کہُ ان تمام مسلمانوں کی عافیت اور سلامتی کے لئے پروردگارِ عالم سے التجائیں کریں ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:اَلصَّاءِمَُ لاُترَدُّدَعْوَتُہ‘۔( مسند احمد :حدیث نمبر؛9970)یعنی روزے دار کی دعا رَد نہیں کی جاتی ۔اور ایک حدیث میں ارشا د فرمایا:اِنَِّ للّہِ عُتَقَاءُ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ،لِکُلِّ عَبْدٍِ مْنھُمَْ دعْوَۃٌ مُسْتَجَاْبَۃٌ۔( مسند احمد :حدیث نمبر؛7268)یعنی اللہ کے لئے ( رمضان )کے ہر دن اور رات میں ( بے شمار لوگ جہنم سے ) آزاد کئے جاتے ہیں ،اور ہر بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے۔اسی طرح ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:ثَلٰثَأ لَاُ ترَدُّ دَعْوَتُھُمْ اَلصَّاءِمُ حَتّٰی یُفْطِرُ،وَالِْامَامُ الْعَادِلُ،وَدَعْوَۃُ الْمَظْلُوْمِ ۔۔۔(ترمذی:حدیث نمبر؛2464)یعنی تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ،ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ،دوسرے عادل بادشاہ کی ،تیسرے مظلوم کی۔ہم اپنی عافیت اور سلامتی کے ساتھ ان مظلوم اور بے قصور مسلمانوں کے لئے ضروردعائیں کریں، اللہ تعالی کا بے پناہ کرم ہے کہ اس نے ہمیں بڑی عافیت نصیب فرمائی اور افطار وسحر کے لئے انواع واقسام کی غذائیں عنایت فرمائی لیکن ناجانے کتنے لوگ ایک وقت کے کھانے کے لئے تڑپ رہے ہوں؟بچے بھوک وپیاس کے بلک رہے ہوں ؟اور درخت کے پتوں سے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش میں لگے ہوں؟اوراللہ کی عطاکردہ نعمتوں پر شکر بجالائیں اوررب کے حضور ہر وقت ملک و ملت اور عالمِ انسانیت کی بھلائی و خیر اور عافیت و سلامتی کے لئے خوب دعا ئیں مانگے۔ نبی کریم ﷺ یہ بھی فرمایا: ایک مسلمان کی دعا اپنے بھائی کے حق میں غائبانہ قبول ہوتی ہے،اور ایک فرشتہ اس کے پا س آمین کہتا ہے اور کہتا ہے کہ جو خیر اس نے اپنے بھائی کے حق میں مانگا اللہ اسے بھی عطاکرے۔(ابن ماجہ:حدیث نمبر؛2890)
بہرحال رمضان المبارک کی ساعتیں بابرکت ہوتی ہیں،ہر لمحہ قبولیتِ دعا کا ہوتا ہے ،اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں ،ایسے عظیم موقع پر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہمارے ملک کی سلامتی اور بھلائی کے لئے اور عالم اسلام کے لئے کی سلامتی کے لئے دعائیں کریں ،ہمارے لئے یہی ایک مؤثر ہتھیار اور آلہ ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے مسلمان بھائی کے حق میں خیر خواہی اور بھلائی طلب کرسکتے ہیں اور اپنے ملک کی بھلائی کو پروردگارِ عالم سے مانگ سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔