رمضان المبارک اور اعتکاف

سیدہ تبسم منظور

اسلام کے پانچ بنیادی حقوق میں رمضان کے روزوں کا شمار بھی کیا گیا ہے۔اس ماہ مبارک کی بڑی فضیلتیں ہیں۔ اس بابرکت مہینے میں اللہ رب العالمین کی خاص رحمت اپنے بندوں پر ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کو تین عشروں میں تقسیم کیا گیا ہے.پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت، تیسرا عشرہ گناہوں کی بخشش جہنم سے آزادی کا ہے۔

یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ عبادت کا ہے۔ لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ کو زیادہ خصوصیت حاصل ہے۔ اس میں اللہ تعالی نے کئی  اعمال اور عبادتیں ایسے رکھی ہیں جو اس آخری عشرہ  کو سارے دنوں پر فضیلت واہمیت عطا کرتے ہیں اور ان کو دیگر دن راتوں سے ممتاز کرتے ہیں۔

   ماہ رمضان کا تیسرا اور آخری عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے اس عشرے میں لیلتہ القدر کی رات بھی موجود ہے. اس عشرے میں خصوصی عبادات کے ساتھ اپنی بخشش کے لئے بھی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔آخری عشرے میں بہت ہی خیر اور کثیر اجر ثواب پنہاں ہے۔

    رمضان کے آخری دس دنوں کے فضائل اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت اور راتوں کو جاگ کر ذکر و فکر میں اور زیادہ مصروف ہوجاتے تھے۔ حدیث میں ذکرہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اتنا جدوجہد کیا کرتے تھے جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے ۔(صحیح مسلم، حدیث 2009) راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے کا معمول رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ہمیشہ ہی تھا۔ لیکن رمضان میں آپ کمر کس کر عبادت کے لیے تیار ہوجاتے اور پوری پوری رات عبادت میں گزارتے۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمرکس لیتے اوراپنے گھروالوں کو بھی جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری ، حدیث :1884) رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گھروالوں کو باقی سارے سال کی بہ نسبت جگانے کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔

رمضان کا آخری عشرہ خوب عبادت کا ہے لیکن ہمارے بھائی بہن مائیں اس عشرے کو بازاروں میں خریداری کرنے میں گزارتی ہیں۔ خریداری کیجئے، رمضان سے پہلے یا پھر رمضان المبارک کے پہلے بیس دنوں میں یا پھر دن کے وقت۔اس آخری عشرے کی راتیں عبادت میں گزاریں۔

      اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ آخری عشرہ کا اعتکاف کا مطلب مسجد میں عبادت کی نیت سے قیام کرنا ہے۔ اعتکاف مسجد کا حق ہے اور پورے محلہ والوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کا کوئی فرد مسجد میں ان آخری دس دنوں اعتکاف کرے۔ اعتکاف کرنے والے کے لیے مسنون ہے کہ وہ عبادت میں مشغول رہے اور کسی شدید طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلے۔ اعتکاف کی حقیقت خالق زمین و آسمان اور مالک الملک کے دربار میں پڑجانے کا نام ہے۔ اعتکاف، عاجزی کے ساتھ گڑ گڑا کر عبادت سے اللہ کی رضا و خوشنوی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اعتکاف در اصل انسان کی اپنی عاجزی کا اظہار اور اللہ کی  عظمت اور اس کے سامنے خود سپردگی کا اعلان ہے۔حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف خاص طور پر لیلة القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلة القدر کو تلاش کرو۔(صحیح بخاری ،حدیث : 1880) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ۔ (بخاری، حدیث : 1886)

    شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی سب سے اہم فضیلت وخصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہے۔  جوہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات میں قرآن مجید جیسا انمول تحفہ ملا۔اللہ تعالی نے اس رات کی فضیلت میں پوری سورة نازل فرمائی۔

   ”ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔ آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں ہر کام کے سر انجام دینے کواپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبریل)  اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی ہے اورفجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔“ (سورة القدر )

    شب قدر کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ہے۔ اسی رات اللہ تعالی نے قرآن مجید دنیا پر نازل فرمایا اور پھر اس کے بعد نبوت کی 23 سالہ مدت میں حسب ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوتا رہا۔ انھیں آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس رات کو ملائکہ نزول کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سال بھر کے تقدیر کے فیصلے فرشتوں کے حوالے فرمادیتے ہیں تاکہ وہ اپنے اپنے وقت پر ان کی تکمیل کرتے رہیں۔ اس رات میں فرشتوں کا نزول بھی رحمت و برکت کا سبب ہوتا ہے۔

   لیلة القدر کامطلب ہے قدر اور تعظیم والی رات. خصوصیتوں اورفضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے۔ یا پھر یہ معنی ہے کہ جوبھی اس رات کو بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدروشان والا ہوگا ۔ تواللہ تعالی نے اس رات کی جلالت ومنزلت اورمقام ومربتہ کی بنا پراس کانام لیلة القدر رکھا کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں اس رات کی بہت قدر و فضیلت ہے۔

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جوشخص شب قدر کو ایمان اوراجروثواب کی نیت سے عبادت کرے گا اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔” (صحیح بخاری، حدیث: 1768 )

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہ رمضان کا مہینہ تم کو ملا ہے اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس سے محروم رہا گویا وہ تمام خیر سے محروم رہا اور اس کی خیر و برکت سے کوئی محروم بدنصیب ہی رہ سکتا ہے۔“ (سنن ابن ماجہ، حدیث : 1634)

     ان دس دنوں کو اللہ تعالی کی عبادت کریں، رات کو دعا و عبادت اور ذکر وتلاوت میں گزاریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مبارک رات کی تلاش کے لیے اعتکاف فرماتے تھے اور رمضان کے آخری عشرہ میں پوری پوری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے محبوب تھے۔  وہ اللہ کے نزدیک مقبول اور بخشے بخشائے تھے۔ لیکن پھر بھی اللہ کی رضا کی تلاش میں اتنی جدوجہد فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے۔ اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت کے ہم بہت زیادہ محتاج ہیں۔ لہٰذا، ہمیں اس رات کی تلاش و جستجو کرنا چاہیے اور آخری عشرہ کی راتوں کو ذکر و عبادت میں گزارنا چاہیے۔ اللہ رب العالمین نے ہمیں ایک اور موقع دیا ہے کہ ہم اس سے اپنی بخشش کروائیں اور اس آخری عشرے کو عبادت میں گزاریں۔

تبصرے بند ہیں۔