رمضان المبارک اور ہمارا طریقہ کار

راحت علی صدیقی قاسمی
رمضان المبارک بڑی آب وتاب کے ساتھ اور بڑے اہتمام کے ساتھ گذر رہا ہے موسم گرما میں لوگوں کی گرم مزاجی کا مشاہدہ بھی ہوتا ہے اور روزہ خوروں کی زیارت بھی تقریبا ہر دن ہو ہی جاتی ہے ۔ اب وہ زمانہ گیا جب لوگوں میں شرم وحیا اور دین کے تئیں محبت کا جذبہ تھا اور روزہ خور دیکھنا عنقاء دیکھنے کے مثل تھا ۔ لیکن زمانہ کی رفتار اور وقت کے گرداب نے ساری کیفیات ہی بدل دی ۔ نیا نظریہ اور نیا ماحول قائم ہیں جہاں عجیب طرح کے معیارات مقرر ہیں جو عقل وشعور اور آگہی سب کے خلاف نظر آتے ہیں اور لب راہ کسی کڑیل جوان کودیکھئے کھاتے پیتے ہوئے آپ ہی شرما جائیے ۔ اگر خدانہ خواستہ سوال ہوا تو انتہائی دلچسپ جواب آپکا استقبال کرے گا ’’میاں جب اللہ سے شرم نہیں تو بندوں سے کیا شرم ‘‘۔ قانون اور ضابطہ کی دھجیاں اڑانے والا یہ شخص اس طرز پر قہر خداوندی اپنے لئے متعین کرتا ہے اسکے برخلاف روزی داروں کا طبقہ ہے جن میں عجیب وغریب تبدیلی کا مشاہدہ وتجربہ یکم رمضان سے ہی ہو جاتا ہے ۔ پھر جوں جوں رمضان آگے بڑھتا ہے اسی طرح انکے مزاج کی تندی وتلخی بھی عوج ثریا کی طرف گامزن ہوتی ہے اور اسکا آغاز سحری سے ہی ہوجاتا ہے آنکھ کھولی اور زبان سے نکلا آج امام نے اعلان نہیں کیا سحری میں تاخیر ہوگئی یہ مفت خور ہو گیا ہے اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا نہیں کرتا اور ہمہ وقت چارپائی پر سوار رہتا ہے ۔ آج اسی سے بات کی جائیگی اب سلسلہ آگے بڑھتا ہے جنوں میں اس شخصیت سے بھی بھڑ جاتا ہے جسکی تعریف و توصیف اسکے لئے کسی وظیفہ کم نہیں ہے اور اپنی شامت کو دعوت دیتا ہے روزے دار تو وہ بھی ہیں میاں اب خیر منائیں صبح گھرسے نکلتا ہے زعم تکبر سر آسمان کی جانب روزہ کی نمائش کرتا ہوا انکھوں کے طیور کچھ بدلے ہیں لہجہ میں بھی سختی آچکی ابھی دن گرم نہیں ہوا مگر یہ آگ ببولا ہے ظہر کا وقت ہوتے ہوتے ایک دو سے بھڑ جانا تو یقینی ہے ۔ برابر سے گزرتے ہوئے ایک راہ چلتے نے تھوک دیا بس پھر کیا تھا غصہ ساتویں آسمان پر تمیز نہیں ،سلیقہ نہیں ، تہذیب نہیں ، روزے دار کے پاس سے تھوکتا ہوا گذرتا ہے ۔ اگر متلی ہو گئی اوریہ معمولی بحث جھگڑے کی شکل اختیار کرتی ہے اور معاملہ تھانہ تک بھی پہونچ جائے تو بعید از امکان نہیں انصاف کی گہار تو لگائی ہی جائیگی ۔ ’’میاں شرم نہیں کی روزے دار کے برابر میں تھوکا ‘‘۔ ان ایام میں سب زیادہ غصہ اور عتاب کا شکار دوہی لوگ ہوتے ہیں ایک امام اور دوسرے بیوی اگر نماز ذرا تاخیر سے ہوئی صفوں پر ذرا گرد ہے وضو خانے پر پانی دستیاب نہ ہوا یا پھر اذان کی آواز نہ پہونچ سکی تمام صورتوں میں ایسانظارہ آنکھوں کے سامنے ہوگا کہ انسان سوچنے پر مجبور ہوگا کہ آخر روزہ کو آپ نے سمجھا کیا ہے۔ وہ عبادت جس کا مقصد تواضع انکساری پیدا کرنا انسانیت کے اعلی مقام پر فائز کرنا ہے سال بھر کی بدنظمی کو نظم و ضبط سے آراستہ کرنا ہے اس میں یہ طریقہ چہ معنی دارد ۔ اور دوسرا وہ مرحلہ جسے دیکھ لیا جائے تو ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے بشری تقاضا ہے جب ایسا منظر نگاہوں کی ضیافت کرے تو مسکراہٹ ہنوٹوں پر بکھر جانا یقینی ہے ۔ مگر جب ذہن اس کیفیت کا جائزہ لے تو پھر آنکھ نم ہونا اور انسان کا کف افسوس ملنا بعید از قیاس نہیں ۔ یہ ساعتیں وہ مبارک ساعتیں جن میں اگر دعائیں مانگی جائیں تو قبولیت کا پروانہ ملے ، روایتیں اس پر گواہ ہیں عصر کے بعد افطار کے وقت اب کسی چھوٹی بات کو لیکر میاں بیوی میں جو تکرار ہوئی نمک کم ہے پاگل ہوگئی تیرا دماغ خراب ہوگیا ۔ اور بیوی ادھر سے شروع بس وہ مبارک گھڑیاں جو دعا مقبولیت و قبولیت کی تھیں وہ گذری ان جھمیلوں میں ۔ جو خداوند قدوس کے عتاب کا باعث ہے ۔ اس طرح مغرب کے بعد کچھ راحت کی سانس لی اب عشاء کے بعد تروایح کا مرحلہ آیا انعام خداوندی دولت عظمی جس میں انسان کو قرآن کریم جیسی عظیمت نعمت سے بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم ہو اور حافظ تلاوت کلام پاک میں مشغول اور یہ ہمہ تن مشغول ہو کر اس عظیم دولت کا حق ادا کرے مگر معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے اور دھکا مکی، چیخ و پکار ، شور شرابہ قرآن کریم کی توہین کے یہ مناظیر خون کے آنسو رلاتے ہیں ۔ اگر کچھ مہذب سے افراد ہوں تو انکا انداز دوسرا ہے امام صاحب روزہ میں تھکے ماندہ ہیں ذرا رفتار بڑھا لیجئے اور مقدس کتاب کے حقوق کو پامال کردیجئے ۔ عجب حال ہے لوگوں کا ابر رحمت جھماجھم برس رہا ہے اور ہم ہیں کہ اس سے مستفیض ہونے کے لئے تیار نہیں اور دوسرے لوگوں سے سوال کیاجائے آپ تراویح میں کھیلتے کیوں ہیں تو وہاں بھی جواب یہی ہوتا ہے روزہ تھکن سے چور کردیتا ہے ذرا فریش ہوجاتے ہیں ۔ عجب حال وہ عبادت جسے فرض کرنے کا مقصد ہمارے اندر نظم و ضبط پیدا کرنا ہمیں نعمت خداوندی کی قدردانی پر عمل پیرا کرانا تقوی کے زیور سے آراستہ کرنا ہے ۔ ہماری زندگی کو نظام شریعت کا پابند کرنا ہے ۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں کہتے ہیں یا ایہا الذین آمنو کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ،مقصد روزہ ہمارے مزاج کو تلخ کرنا گھروں میں جھگڑے کرانا قرآن کی توہین کرانا نہیں ۔ بلکہ مقصد روزہ اس عظیم دولت کو عطا کرنا ہے جس کا نام تقوی ہے جس پر کامیابی کا دارو مدار ہے جو دنیوی و اخروی زندگی میں کامیابی وکامرانی کی ضمانت ہے ۔ انسان احکام خداوندی کو خشوع خضوع سے ادا کرے ، اور اپنا مزاج نرم رکھے کیوں کہ اللہ تعالی کو یہی انداز پسند ہے ۔ اس کا حکم اللہ نے فقولا لہ قولا لینا کہکر موسی وہارون علیہما الصلاۃ والسلام کو فرعون سے گفتگو کرنے میں اور دعوت دین پہونچانے میں دیا ۔
بہرحال ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں ۔ کیا ہمارے روزے ہمیں تقوی کی طرف لے جاہے ہیں ؟ کیا ہم صحیح معنوں میں روزہ رکھ رہے ہیں ؟ کیا بے پناہ محبت کرنے والا خدا روزہ سے ہمیں ہلاک کرنا چاھتا ہے ؟ یا ہماری دنیا و آخرت بنانا چاہتا ہے ؟ اگر ہم رمضان المبارک کا حق ادا کرینگے تو ہماری مغفرت کا اعلان ہے ۔ شہنشاہ دو عالم کی زبانی مالک کون ومکان نے یہ اعلان کردیا من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ وماتاخر (الموطابروایت محمد بن الحسن شیبانی) اور روزہ کااجر خداوند قدوس بے پناہ عظیم رکھا مسلم کی روایت اسکی شہادت دیتی ہے الصوم لی وانااجزی بہ کہ روزہ میرے لئے اور اس کا بدلہ میں خود عنایت کرونگا ۔ کون نہیں چاہے گا خدواندس قدوس اسے اعزاز و انعام سے نوازیں ۔ ہر مسلمان کو چاھئے کہ اس رمضان المبارک میں تمام کوتاہیوں تمام لغویات سے اجتناب کریں ۔ روزہ خور روزے دار ہوجائیں اور روزے دار خداتعالی کی یاد میں مشغول رہیں اور اپنی جانب سے ہو رہی کوتاہیوں پر نادم وپشیماں ہوں اور اس سے بالکلیہ جتناب کرکے خدا تعالی کے اعزازات و انعامات کے مستحق ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔