شب قدر کا اسلامی تصور

محمد اسعد فلاحی

رمضان المبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرے کی ایک رات’ لیلۃ القدر‘(شب قدر) ہے، اسے قرآن مجید میں دوسرے مقام پر’ لیلۃ المبارکۃ‘ بھی کہا گیا ہے۔اس کی قدر و منزلت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں قرآن کی پوری سورہ نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)۔ (سورہ القدر:)

’’ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک‘‘۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ ( 3 ) فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ( 4 ) أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ ( 5 ) (الدخان:)

’’ہم نے اسے بڑی خٰرو برکت والی رات میں نازل کیا۔ کیوں کہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے‘‘۔
کتب احادیث میں بھی اس رات کا متعدد مقامات پر تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؒ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ‘ (صحیح بخاری ۔ )

’جس نے شب قدر میں حالت ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں‘۔
اللہ کے رسول ﷺ نے جہاں اپنی امت کو شب قدر میں قیام،ذکر اور عبادت کرنے کی تلقین فرمائی وہیں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا کہ ہر شخص کو چاہیے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرے اور اپنے آپ کو اس عظیم نعمت سے محروم نہ ہونے دے۔ایک حدیث میں آپ ؐ کا ارشاد ہے: یہ جو ماہ تم پر آیا ہے ، اس میں ایک ایسی رات ہے، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس سے محروم رہ گیا گویا وہ سارے خیر سے محروم رہ گیا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتاً محروم ہو۔ (ابن ماجہ)ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ کے رسول ﷺ کو سابقہ لوگوں کی عمروں سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے ان کے مقابلہ میں اپنی امت کے لوگوں کی کم عمری دیکھتے ہوئے فرمایا کہ میر ی امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ چنانچہ آپؐ کو لیلۃ القدر عطا فرمائی گئی ، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (مؤطا مام مالک)
شب قدر کی رات کون سی ہے؟
شب قدر کون سی رات ہے؟ اس کا تعین کرنا تو ممکن نہیں، البتہ احادیث میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ یہ رات ماہِ رمضان کی طاق راتوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو حکمت کے پیش نظر مخفی کر دیا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامتؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں لڑنے لگے تو آپؐ نے فرمایا: ’میں تمہیں شب قدر بتانے کے لیے نکلا تھا، لیکن راستے میں دیکھا کہ فلاں اور فلاں آپس میں جھگڑا کر رہے ہیں۔ چنانچہ شب قدرکا علم اٹھا لیا گیا۔ امید ہے کہ یہی تمہارے حق میں بہتر ہوگا۔ لہٰذا اب تم اسے (رمضان کی) اکیسویں، تئیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری)۔ سید ابو بکرؓکے پاس شب قدر کا ذکر ہوا تو انھوں نے کہا :میں نے اسے کسی ایک رات میں تلاش نہیں کیا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک ہے۔(ترمذی، کتاب الصوم، باب ماجاء فی الیلۃ القدر)مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شب قدر کوئی متعین رات نہیں ہے، یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں (21،23،25،27،29) میں سے ایک رات ہے۔
شب قدر سے متعلق خرافات
اسلامی عبادات کے دیگر بہت سے معاملات کی طرح لوگوں نے اس رات کے متعلق بھی اپنی طرف سے بہت سی عبادات متعین کر لی ہیں۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ رمضان کی طاق راتوں اور با لخصوص 27 ویں شب کو مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے۔ بعض حضرات اس رات کو’ صلاۃ التسبیح‘ کے لیے مخصوص کر لیتے ہیں اور باقاعدہ با جماعت اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ درست نہیں ہے ، کیوں کہ نماز تسبیح کا باجماعت ادا کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے اور نہ اسے شب قدر کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی دلیل ہے۔بعض حضرات مساجد میں اجتماعی دعا کا خوب اہتمام کرتے ہیں اور اس کے لیے پہلے سے اعلانات بھی کرواتے ہیں۔ بعض مقامات پر ساری ساری رات تقریریں اور جلسے ہوتے رہتے ہیں۔ بلا شبہ تقاریر و مواعظ اسلام اور تبلیغ دین کا بہترین ذریعہ ہیں، لیکن ساری رات اسی کا اہتمام کرنا اور انفرادی طور پر اذکار، تلاوت ، اور نوافل کو نظر انداز کرنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے۔
شب قدر میں کرنے کے کام
جب ہم نبی ﷺ کی سیرت کا بہ غور مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ رمضان المبارک کے مہینہ میں عبادت کے لیے اپنی کمر کس لیتے تھے ۔ آپؐ جن اعمال کااس ماہ میں بالخصوص اہتمام کرتے تھے ان میں ایک قیام لیل بھی ہے۔ یہ عمل انتہائی اہمیت و فضیلت کا حامل ہے۔ اگر کوئی شخص اس سے غفلت برتے تو وہ بڑے اجر ثواب سے محروم رہ جاتا ہے۔ آپؐ پورے رمضان خاص طور سے آخری عشرہ میں کثرت سے قیام لیل کاا ہتمام کرتے تھے اور لوگوں کو بھی اس کی طرف رغبت دلاتے تھے ۔ ایک حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے: جو شخص ایما ن کے ساتھ حصول ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کرتا ہے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم)ایک دوسرا عمل جو رمضان المبارک کے مہینہ میں کرنا چاہیے وہ ہے تلاوت قرآن۔ ماہ رمضان کا قرآن مجید سے بہت گہرا تعلق ہے۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ ہمیں چاہیے کہ اس مہینہ میں کثرت سے تلاوت قرآن کا اہتمام کریں۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ : جبریل آپؐ سے رمضان کی ہر رات کو ملتے تو آپؐ انھیں قرآن سناتے ‘۔ (بخاری ۔ کتا ب الصوم)رمضان میں دعاؤں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ دعا مومن کا ایک اہم ہتھیار ہے۔ قرآن مجید میں اس کی بہت تاکید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: پکارنے والا جب مجھے پکارتاہے ، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ (البقرۃ:186)اس کے علاوہ ذکر و اذکار کی کثرت ، اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا خاص طور پر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو کما حقہ اس کی عباد کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔