رمضان المبارک میں کرنے کے ضروری کام

مفتی امانت علی قاسمیؔ

(استاذ دار العلوم حیدرآباد )
رمضان المبارک نیکیوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، اللہ تعالی کی الطاف و عنایات کے نزول کا موسم ہے، یہ نیکیوں کی بہار کا مہینہ ہے جس میں خزاں کی ویرانی نہیں ہوتی، بلکہ رحمت کی برسات ہوتی ہے، نیکیوں کی کاشت کی جاتی ہے اور ثواب و اخروی سرخ روئی کی فصل کاٹی جاتی ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کا ایک عشرہ رحمت، ایک عشرہ مغفرت اور ایک عشرہ جہنم سے خلاصی کا ہے، اس مہینے میں اعمال کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے اور نفل کا ثواب فرض کے برابر او رایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ملتا ہے۔ یہ مہینہ اللہ کی رضااور خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، اپنی آخرت کو سنوارنے اور بنانے کا بہترین موقع ہے، اس لیے نیک بختوں اور آخرت کی کامیابی کے متوالوں کو اس مہینہ کی قدر کرنی چاہئے اور اس مہینہ کو اللہ تعالی کی رضاکے مطابق گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس مہینے میں دنیوی اور معاشی ضروریات اور کاروبار میں کمی کرکے نیک کاموں میں اضافہ کرنا چاہئے، اس مہینہ کے جو مخصوص اعمال ہیں اس کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، رمضان کی آمد سے پہلے ہی بہتر طریقے سے رمضان گزارنے کا منصوبہ بنانا چاہیے تاکہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو اور ہم خیر و برکت سے محروم نہ ہوجائیں۔

رمضان المبارک کی خصوصیات 

رمضان کو تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا، اس مہینے کے روزہ کو فرض قرار دیا گیا۔ ایک حدیث میں آپ ﷺنے رمضان کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑامہینہ ہے، بہت مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات ہے (شب قدر )جو ہزار راتوں سے بڑھ کر ہے، اللہ تعالی نے اس کے روزے کو فرض قرار دیا اور اس کے رات کے قیام تراویح کو ثواب کی چیز بنایا ہے، جوشخص بھی اس مہینہ میں کسی نفل کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فر ض ادا کرے اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا رکرے وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرض ادا کرے، یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کابدلہ جنت ہے۔ یہ مہینہ لوگوں کی غمخواری کرنے کا ہے، اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، جو شخص روزہ دار کو افطار کرائے تو یہ اس کے گناہوں کی معافی اور آگ سے خلاصی کا سبب ہے اور روزہ دار کے ثواب کی طرح اس کو ثواب ملے گا اور روزہ دارکے ثواب میں کمی نہیں کی جائے گی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص اتنی وسعت نہیں رکھتا ہے کہ روزہ دار کو افطار کرائے تو آپ ﷺنے فرمایا یہ ثواب پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں بلکہ ایک کھجور سے افطار کرانے یا ایک گھونٹ پانی یا لسی پلانے سے بھی مل جائے گا، جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور خادموں کا بوجھ ہلکا کرے تو اللہ تعالی اس کی مغفرت فر مادیتے ہیں۔  (صحیح ابن خزیمہ، با ب فضائل رمضان، حدیث نمبر۱۸۸۷، )

رمضان المبارک میں کرنے کے کام 

حدیث اگر چہ تفصیلی ہے، لیکن اس سے رمضان المبارک کی خصوصیات، فضائل اور اس میں کرنے کے چند ضرور ی کاموں کی نشان دہی ہوجاتی ہے اور رمضان کی قدر و عظمت کی ترغیب بھی ہوتی ہے۔ اس مہینہ میں ہمیں کن کاموں کا خوب اہتمام کرنا چاہیے اور کس طرح اوقا ت کو فارغ کرکے اس مہینہ کو اپنے لیے خیر و برکت کا ذریعہ بنانا چاہیے اس کا مختصر تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔

رمضان المبارک کا روزہ 

رمضان کا سب سے اہم عمل روزہ ہے، یہ اسلام کا ایک رکن ہے اور جس طرح نماز اور زکات فرض ہے اسی طرح رمضان کا روزہ بھی فرض ہے۔ روزہ کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے، ایک حدیث میں ہے :’’روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے، ، (سنن النسائی، حدیث نمبر:۲۲۳۱)دوسری حدیث میں ہے :جس نے اللہ تعالی کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالی اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت کے بقدر دور کردیتا ہے (صحیح مسلم، باب فضل الصیام، حدیث نمبر:۱۱۵۳)صحیح مسلم کی حدیث میں ہے :پانچوں نمازیں ، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے تک کے گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے (صحیح مسلم باب الصلوات الخمس والجمعۃ، حدیث نمبر:۲۳۳)ایک دوسری حدیث میں ہے جس نے رمضان کے روزے اوراس کے بعد شوال میں چھ نفلی روزے رکھے وہ شخص ایسے ہے جیسے وہ ہمیشہ روزہ رکھنے والا ہے (صحیح مسلم، باب استحباب صوم ستۃایام من شوال حدیث نمبر: ۱۱۶۴)

روزہ کے فوائد 

روزہ کی بہت سی حکمتیں ہیں جو غور کرنے والوں کو حاصل ہوجاتی ہیں۔  حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ نے روزہ کے متعدد فوائد کا تذکرہ کیا ہے جس کو اختصار کے ساتھ یہاں ذکر کیا جاتا ہے (۱) روزہ سے انسان میں خشیت و تقوی کی صفت پیدا ہوتی ہے (۲) روزہ رکھنے سے انسان میں عاجزی و مسکنت اور خدا تعالی کے جلال اور اس کی قدرت پر نظر پڑتی ہے (۳) روزہ سے چشم بصیرت کھلتی ہے (۴)درندگی و بہیمیت سے دوری ہوتی ہے (۵) خداتعالی کی شکر گزاری کا موقع ملتا ہے (۶)انسانی ہمدردی دل میں پیدا ہوتی ہے (۷)روزہ جسم و رح کی صحت و تندرستی کا سبب ہے (۹)روزہ انسان کی روحانی غذا ہے (۱۰)روزہ محبت الہی کا ایک بڑا نشان ہے (تخفہ رمضان ص:۳۱)

دعا کی کثرت 

اس مہینہ میں دعا کی خوب کثرت کرنی چاہیے، اس لیے کہ یہ دعا کی قبولیت کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں ہر شخص روزہ کی حالت میں ہوتا ہے جو اخلاص عمل کا بہترین نمونہ ہے، تراویح، تلاوت قرآن، ذکر و اذکارمیں مشغول ہونے اور گناہوں سے دور رہنے کی وجہ سے انسان میں فرشتے کی مشابہت پیدا ہوجاتی ہے اور انسان میں معصومیت کی صفت آجاتی ہے اور بندہ اللہ تعالی کا محبوب اور پسندیدہ بن جاتا ہے، اس حالت میں جب اپنے رب سے مانگتا ہے، تو اللہ تعالی اسے نوازتے ہیں ، اس لیے کہ بندے کا مانگنا اللہ تعالی کو بے حد پسند ہے، پھر اس مہینہ میں اللہ تعالی اپنی رحمت کے دہانے کھول دیتا ہے؛ اس لیے قبولیت کی زیادہ امیدپید ا ہوجاتی ہے۔ البتہ دعا کی قبولیت کے جو آداب ہیں ان کی رعایت کرنی چاہیے، مثلا عام حالات میں حلال غذا کا اہتمام ہونا چاہئے اور حرام سے اجتناب ہونا چاہیے خاص طور پر رمضان المبارک میں حلال کا حد درجہ اہتمام کرناچاہیے، با وضوہو کر نہایت خشوع و خضوع، عاجزی اورخوف و گریہ زاری کے ساتھ دعامانگنی چاہیے،۔ افطار اور تہجد کے وقت دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں ، قبولیت کے یقین کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضری ہونی چاہیے۔ دعاؤں میں اس کا بھی خیال رہنا چاہیے کہ صرف اپنے لیے نہیں ؛بلکہ اپنے عزیز و اقارب، رشتہ دار، دوست و احباب اور متعلقین کو بھی دعا میں یاد کریں اور ان کی ضرورتوں کے لیے خدا کے دربار میں بھیک کا ہاتھ پھیلائیں ؛اس لیے کہ ایک مسلمان کی اپنے بھائی کے حق میں غائبانہ دعا زیادہ قبول ہوتی ہے اور جب بھی انسان اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی تجھے بھی اس کا مثل دے اور جب فرشتے ہماری ضرورت کے لیے دعاکریں گے تو اس کی قبولیت میں کیا شبہ رہ جائے گا۔

تلاوت قرآن 

رمضان المبارک کو قرآن کے ساتھ خاص مناسبت ہے، اِسی مہینہ میں قرآن کا نزول ہوا، آپ ﷺ حضرت جبریل امین کوہر رمضان پورا قرآن سناتے تھے اور جس سال آپﷺ کا وصال ہوا، اس سال آپ نے دو مرتبہ دور سنایا تھا، آپ باوجود کہ قرآن کریم کے حافظ تھے لیکن بعض صحابہ سے آپ قرآن کریم سنا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اس مہینہ میں قرآن کریم کا خوب اہتمام کرتے تھے، بعض صحابہ دس دن میں اور بعض سات دن میں اور بعض تین دن میں قرآن کریم ختم کرلیا کرتے تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ رمضان میں اکسٹھ قرآن ختم کیا کرتے تھے، دیگر اسلاف سے بھی قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت ثابت ہے، اس لیے اس مہینہ میں قرآن کی خوب تلاوت کرنی چاہیے، البتہ ایک بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کے آداب کی خوب رعایت ہو، ہمارے درمیان ایک بہت بڑی کمی یہ پائی جاتی ہے کہ ہم قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے ہمیں تلاوت قرآن میں وہ لطف نہیں ملتا جو حضرات صحابہ اور اسلاف کو ملا کرتا تھا، ہمیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ہم سے کیا خطاب کررہا ہے؟ اور اس کے کیا تقاضے ہیں ؟اور ان تقاضوں پر کس طرح عمل کیا جاسکتا ہے ؟اس لیے ضروری ہے کہ رمضان میں کم از کم تفسیر کے حلقے قائم کرکے قرآن فہمی کی کوشش کریں تاکہ ہم معانی و مفاہیم کو سمجھ کر تلاوت کرسکیں اگر چہ کہ قرآن کی تلاوت کا ثواب سمجھنے پر موقوف نہیں ہے بلکہ بغیر سمجھے پڑھنے پر بھی ثواب ملتاہے، حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ نے لکھا ہے کہ ’’ایک حیثیت سے اس شخص پر حق تعالی کی زبر دست عنایت ہوگی جو بغیرسمجھے کلام اللہ شریف کی تلاوت کرتا ہو ؛کیوں کہ صرف حق تعالی کی محبت اس کا باعث ہو سکتی ہے، سو کلام اللہ کا اصل نفع اس کے سمجھنے پر موقوف نہیں ہے ‘‘اس پر حضرت تھانوی ؒ نے امام احمد بن حنبل ؒ کا ایک خواب نقل کیا ہے ’’کہ امام احمد بن حنبل ؒ نے حق تعالی سبحانہ کو خواب میں دیکھا، عرض کیا اے اللہ !وہ کو ن سا عمل ہے جو آپ سے زیادہ قریب کرنے والا ہے، ارشاد ہوا: وہ عمل تلاوت قرآن ہے، آپ نے عرض کیا بفہم او بلا فہممجھ کر یا بغیرسمجھے ارشاد ہوا بفہم اوبلافہمسمجھ کر ہو یا بغیر سمجھے، راز اس میں یہ ہے کہ مصنف اپنے کلام کے پڑھنے سے خوش ہوا کرتا ہے، پس جب بندہ حق تعالی کے کلام کو پڑھے گا تو اللہ تعالی خوش ہوں گے۔ (تحفہ رمضان ص:۴۶)

تراویح 

رمضان کے ساتھ قرآن کی اسی مناسبت کی وجہ سے رمضان میں ایک مخصوص نماز کو مسنون قرار دیا گیا ہے جسے تراویح کا نام دیا جاتا ہے۔ موطا مالک کی حدیث میں ہے حضور پاک ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی نے تمہارے لیے رمضان کے روزے کو فرض کیا اور میں نے اس کی راتوں کو جاگنے یعنی تراویح کو مسنون کیا ہے(مسند احمد، حدیث عبدالرحمن بن عوف الزہری، حدیث نمبر۱۶۸۹)یحی ین سعید قطان ؒ سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو مسجد نبوی میں بیس رکعت تراویح پڑھائیں (مصنف ابن ابی شیبہ، باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ، حدیث نمبر۷۶۸۲)حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے عہد خلافت میں صحابہ و تابعین رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھاکرتے تھے (سنن الکبری للبیہقی، باب ما روی فی عدد رکعات القیام، حدیث نمبر۴۳۹۰) ائمہ اربعہ میں امام احمد، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک تراویح بیس رکعت ہے، امام مالک کے نزدیک چھتیس رکعت ہے (المغنی لابن قدامہ ۲/۱۶۷)آج تک حرمین شریفین میں اسی سنت پر عمل ہورہا ہے، خلفاء راشدین کے زمانہ سے آج تک کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں تراویح بیس رکعت سے کم پڑھی گئی ہو۔ معلوم ہو اکہ تراویح بیس رکعت ہی سنت ہے اس لیے تراویح بیس رکعت ہی پڑھنا چاہئے۔

امام ابوحنیفہ کے نزدیک تراویح کی نمازسنت مؤکدہ ہے جس کا چھوڑنا جائز نہیں تراویح میں دو چیزیں علیحدہ علیحدہ سنت ہیں ، پورے رمضان تراویح پڑھنا، یہ ایک الگ سنت ہے اور تراویح میں قرآن ختم کرنا یہ علیحدہ سنت ہے، حضر ت تھانوی ؒ تراویح میں قرآن ختم کرنے کی حکمت پر گفتگوکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’قرآن کا نزول رمضان کے مہینہ میں ہوا پس جو شخص اس میں قرآن ختم کرتا ہے وہ تمام برکات کا وارث ہوجاتا ہے ؛کیوں کہ رمضان کا مہینہ تمام خیر و برکات کا جامع ہے اورہر قسم کی خیروبرکتیں جو پورے سال ملتی ہیں وہ اسی عظیم الشان مہینہ کی برکت سے آتی ہیں ، گویا اس مہینہ کی دل جمعی اور یکسوئی پورے سال کی جمعیت خاطر اور یکسوئی کا باعث ہوتی ہے اور اس مہینہ کی پراگندگی و بد حالی پورے سال کی بدحالی کا سبب ہوتی ہے اس لیے اس مہینہ میں تروایح کا اہتمام اور خاص طور پر ختم قرآن کا اہتمام ہونا چاہیے (تحفہ رمضان ص:۸۸) مولانا تھانوی کی اس بات سے ایک دوسری بات یہ نکلتی ہے کہ ہمیں رمضان میں عبادت کے لیے یکسو ہوجانا چاہیے اور ہر قسم کی مشغولی کو ترک کردینا چاہیے، بڑی محرو می کی بات ہے کہ ہم رمضان جیسے عظمت و فضیلت والے مہینے کو مشغولیت اور کھانے پینے اور عید کی تیاری میں گزار دیں اور بڑے ہی عقلمند اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو رمضان کو عبادت کے لیے فارغ کرلیتے ہیں اور تمام مشغولیت کو ترک کر دیتے ہیں اس لیے کہ رمضان کی یکسوئی پورے سال کی یکسوئی کا باعث ہے۔

نماز تہجد 

تراویح کے ساتھ اس مہینہ میں راتوں کو جاگنا اور تہجد پڑھنے کا خاص اہتمام کرناسعادت و نیک بختی اور زندگی کو نیکی سے مالامال کرنے کا باعث ہے، راتوں کو جاگنا، اللہ کے حضور عجز و نیاز بجا لانا، عبادت کرنا، خدا کے دربارمیں رونا گڑ گڑا نا، خدا کے سامنے ہاتھ پھیلانا، اور اپنی عبدیت و بندگی کا اظہار کرنا ؛یہ وہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالی کو بہت پسند ہیں ، موقع اور موسم کی مناسبت سے ہمیں بھر پورفائدہ اٹھانا چاہیے، رمضان میں سحری کے لیے عام طور پر اٹھتے ہیں اگر سحر ی سے پہلے خدا کے دربار میں حاضری لگادی جائے اور اپنی حاجت کا اظہار کردیا جائے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے اور اگر اٹھنے اور سحری کرنے کے باوجود خدا کے حضور سجدہ نہ کیا جائے تو اس سے بڑی محرومی اور کیا ہوگی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے رحمن کے بندوں کی جو صفات بیان کی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ ’’ان کی راتیں اپنے رب کے سامنے قیام و سجود میں گزرتی ہیں ‘‘ (الفرقان۶۴)حضور پاک ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کی راتوں میں قیام کیا ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ‘‘(موطا مالک، الترغیب فی الصلوۃ فی رمضان، حدیث نمبر:۳۷۶)راتوں کو جاگنا اور عبادت کرنا آپ ﷺ کا عام معمول تھا بلکہ رمضان کے اخیر عشر ے میں آپ ﷺ گھر والوں کو بھی اٹھانے کا اہتمام فرماتے تھے، آپ کی پیروی میں حضرات صحابہ و تابعین بھی راتوں کو جاگنے کا اہتمام کرتے تھے، اس لیے خیر کے طالب اور نیکی کے متلاشی کو رمضان کی راتوں میں جاگنے کا اور رات کے آخری حصے میں تہجد پڑھنے اور خداسے مانگنے کا اہتمام کرنا چاہیے؛ اس لیے کہ اس وقت جاگنا اور رب سے مانگناانتہائی اہمیت اور بڑے اجر و ثواب کا حامل ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی رات کے آخری پہر میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اللہ کا منادی آواز لگاتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کی دعا قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اس کو عطاکروں ؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے اور میں اسے بخش دوں ؟(مسند احمد، مسند ابی ھریرہ حدیث نمبر۹۵۹۱)

صدقہ و خیرات 

یہ مہینہ غمخواری کا ہے، لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کا مہینہ ہے؛ اس لیے اس ماہ میں صدقہ و خیرات کا اہتمام کرنا چاہیے، اللہ تعالی کی رضا کے لیے فقراء ومساکین، یتامی و بیوگان اور معاشرے کے معذور و بے سہارا افراد کی ضروریات پوری کرنا، ان کی خبر گیری کرنا، جن کے پاس لباس نہیں ہے انہیں کپڑے پہنانا، بھوکوں کو غلہ فراہم کرنا، بیماروں کا علاج و معالجہ، یتیموں ، بیواؤں کی سرپرستی، اور معذوروں کا سہارابننا، مقروضوں کے قرض کے بوجھ کو ہلکا کرنا اسی طرح ہر ضرورت مند کے ساتھ اظہار ہمدردی و غمخواری کرنا ان کی مدد کرنا، اس مہینہ میں بڑے اجر و ثواب کا کام ہے، ابن عباس کی حدیث ہے کہ آپ ﷺ بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے اور آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینہ میں ہوتی تھی(مسلم، باب کان النبی اجود الناس، حدیث نمبر، ۲۳۰۸ ) سلف صالحین میں اس مہینہ میں کھانا کھلانے کا ذوق و جذبہ بڑا عام تھااور یہ سلسلہ بھوکوں اور تنگ دستوں کو ہی کھلانے تک محدود نہیں تھا، بلکہ دوست و احبا ب اور نیک لوگوں کی بھی دعوت کرنے کاشوق فراواں تھا؛ اس لیے کہ اس سے پیار و محبت او رالفت و مودت میں اضافہ ہوتا ہے اور نیک لوگوں کی دعائیں حاصل ہوتی ہیں ، جن سے گھر وں میں خیروبرکت کا نزول ہوتا ہے، غریبوں کی دعائیں اور ان کی محبتیں قلب و جگر کو سکون و اطمنان بہم پہنچاتی ہیں۔  اسی صدقہ اور اطعام طعام میں روزہ داروں کو افطار کرانابھی داخل ہے جس کی حدیث میں بڑی فضیلت آئی ہے، کام بہت آسان ہے، لیکن ثواب عظیم ہے اپنے گھر میں جو افطار تیار کیا جاتا ہے اگر اس میں ایک دو غریب کو شامل کرلیا جائے تو افطار میں کوئی کمی نہیں ہوگی لیکن روزہ رکھنے کے ثواب کے برابر ثواب ملتا ہے اور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔

اعتکاف 

رمضان المبارک کا ایک اہم عمل اعتکاف ہے، آپ ﷺاس کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے، رمضان کے اخیر عشرے میں آپ معتکف ہو جاتے تھے اور دنیوی معاملات اور تعلقات سے بالکل علحدہ ہوجاتے تھے، جس سال آپ ﷺ کا وصال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا، رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے، اگر کوئی بھی نہ کرے تو پوری بستی کے لوگ سنت مؤکدہ کے تارک اورگنہگارہوں گے، اعتکاف کی حالت میں انسان اللہ تعالی کے دربارمیں ہر وقت حاضر رہتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے، ذکرو اذکار میں مشغول رہتا ہے، اللہ کے حضور دعاؤں میں گریہ و زاری کرتا ہے، اپنے رب کو منانے کی کوشش کرتا ہے، اپنی آخرت کی کامیابی کا خواستگار ہوتا ہے ؛یہ سب اعمال عبادت ہیں اس لیے اعتکا ف مجموعہ عبادات ہے، معتکف تمام گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور جو نیک کام معتکف اعتکاف کی وجہ سے نہیں کرسکتا ہے اس کو اس نیک کام کا بھی ثواب ملتا ہے، رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کرنا رب کو منانے کا بہترین ذریعہ ہے اس لیے آخری عشرے کے اعتکاف کا اہتمام ہونا چاہیے، اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ شب قدر کا پاناہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ آخری عشرے کو غفلت و سستی اور عید کی تیاری میں گزار دیا جاتا ہے یہ کتنی محرومی اوربد نصیبی کی بات ہے کہ جس مبارک مہینہ کو پانے کے لیے آپﷺ دعا کیا کرتے تھے ان مبارک ایام کو ہم کس طرح غفلت و کوتاہی میں گزار دیتے ہیں ، اللہ تعالی ہمیں اس کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔