رمضان اور تقویٰ: ایک ٹریننگ کیمپ

مسعود جاوید

تقوی کا ایک مفہوم جو میں نے سمجھا ہے وہ اس عام مفہوم سے کچھ الگ ہے جس میں تقویٰ کا معنیٰ ڈر بتایا جاتا ہے۔ ہماری زبان میں ڈر ایک منفی مفہوم کو ادا کرتا ہے جبکہ عربی میں وقایه کا مفہوم ڈر نہیں احتیاط ہے : الوقایه خیر من العلاج precaution is better than cure۔ یعنی احتیاط کرنا علاج کرانے سے بہتر ہے۔ کھانے پینے میں احتیاط نکئی بیماریوں کو آپ کے پاس بهٹکنے نہیں دیتا۔ تو اسی احتیاط کا نام ہے تقویٰ۔- محتاط رہنا -کہ خاردار جھاڑیوں سے گزر رہے ہوں اور جسم پر باریک کپڑا ہو تو اگر الرٹ نہیں رہیں گے تو کانٹے چبهیں گے اور کپڑا بهی تار تار ہو جائے گا۔ اسی طرح صبح سے شام تک اور شام سے رات اور رات سے دن آپ جو کام بهی کریں اگر آپ الرٹ رہیں گے کہ اللہ دیکھ رہا ہے تو یر اس کام کو کرنے سے گریز کریں گے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے اور ہر وہ کام کریں گے جو اللہ کی خوشنودی کا سبب ہے۔

رمضان کا مہینہ، مئی جون کی گرمی، بچے اسکول و کالج، بیگم بہن کی عیادت کو گئی ہیں،  پیاس کی شدت، گهر میں کوئی نہیں، فریج کے پاس گیا پانی کی بوتل نکالی کہ ذرا حلق تر کر لیں ابهی کوئی دیکھ نہیں رہا ہے اسی پل یہ خیال آیا کہ کوئی دیکهے یا نہ دیکهے اللہ دیکھ رہا ہے۔ یہی تقویٰ ہے۔ ایک مہینہ کی ٹریننگ (کیمپ)  تقویٰ کے اسی مفہوم اور احساس کو ریفریش کرنے کے لیے ہے کہ جب گهر میں اکیلے ریتے ہوئے جس اللہ کی نظر کا احساس ہوا وہی احساس سال کے گیارہ مہینے ہر جگہ زندہ رہے۔ اور جب یہ احساس زندہ رہے گا کہ اوپر والا سب دیکھ رہا ہے تو برے کاموں سے بچیں گے اور اچهے کام ایسی دلجوئی سے کریں گے کہ اللہ خوش ہوجاتے۔

مقصد حاضری بنانا نہیں ہے بلکہ دل میں کسی کو خوش کرنے کا جذبہ ہے۔ بے شمار سسٹم بنائے گئے کہ کسی طرح دفاتر میں ملازمین وقت پر آئیں تندہی سے کام کریں لیکن سو فیصد کامیابی Biometric attendance کو بهی نہیں ملی CCTV کیمرے کو نہیں ملی اس لئے کہ حق ناحق جائز ناجائز اور حلال حرام کو مد نظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کے لئے اندرونی اصلاح کی ضرورت ہے جب تک کردار سازی نہیں ہوگی رشوت بند نہیں ہوگی، ملازم اپنی ڈیوٹی دیانتداری سے نہیں کرے گا تاجر دھوکہ دینے کے لئے ہزار طریقے ایجاد کرے گا اس لئے کہ اس کے سامنے اللہ کا ہونے کا یقین نہیں ہے۔  نہ یہ یقین ہے کہ اللہ اسے ہر پل دیکھ رہا ہے اور نا ہی اس درجہ تک پہونچا ہے کہ کہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

کسی کے ڈر سے کوئی عبادت کرتا ہے اس میں ایمان کی چاشنی کہاں ہوگی۔ مزہ تو جب ہے کہ مجبوب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سب کچھ ہو۔ اس میں ایمان کی چاشنی ہوتی ہے پهر وہ گنتی کے رکعات کا پابند نہیں لاتعداد رکعتیں پڑهتا ہے سجدہ میں تین بار تسبیح کی قید سے آزاد گھنٹوں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے اس لئے کہ اسے وہ چاشنی مل گئی۔ موسم آم کا ہے بازار میں دسہری اور چوسے هاپوس الفونسو سب مہیا ہیں۔ گهر ہر اپنی پسند کا آم لاتے ہیں۔ اب ان میں کوئی آم  عام ہے، منہ سے لگایا مزہ نہیں آیا آپ نے پهینک دیا۔  مگر کچھ اچهی نسل کے آم عام نہیں خاص ہوتے ہیں منہ سے لگانے کے بعد چهوڑنے کا جی نہیں چاہتا ایسی چاشنی اور مٹهاس کہ چوستے رہتے ہیں یہاں تک کہ گٹھلی سفید ہوجاتی ہے جب یہ چاشنی مل جاتی ہے تو سارے ادب آداب اور etiquette کی پابندی سے آزاد ہو کر لطف لینا چاہتے ہیں اسی طرح جب عبادت میں اللہ سے رو برو ہونے کا احساس ہوجاتا ہے تو پهر وہ روٹین سے ہٹ کر بهی اتنی عبادت کرتا ہے کہ اسے یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ تمہارے جسم کا اور تمہارے گهر والوں کا بهی حق ہے اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔

آیئے ہم سب اپنا اپنا محاسبہ کریں ایمانا و احتسابا کے تحت کہ ہم اور ہمارے اعمال ڈر کی وجہ سے ہیں یا اللہ رب العزت کی خوشنودی کی خاطر؟

تبصرے بند ہیں۔