رمضان اور قرآن کا باہمی تعلق

سراج الدین ندویؔ

رمضان اور قرآن کا باہمی ربط و تعلق بہت گہرا ہے ،ان میں سے کسی ایک کو الگ کردینے سے دوسرے کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ذیل میں قرآن و احادیث کی روشنی اس کی مزید وضاحت کی جاتی ہے۔

٭قرآن رمضان میں نازل ہوا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔(البقرۃ: ۱۸۵)

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ، وہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ اس میں ہدایت اور حق و باطل میں فرق کرنے والی نشانیاں ہیں۔

٭ قرآن مجید اس لیے نازل ہوا کہ اہل تقویٰ اس سے رہنمائی حاصل کریں۔ قرآن نے پہلے ہی پارے میں سورہ البقرہ کی ابتدائی آیات میں ہی اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایا۔

الف لام میم ،ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ  فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(البقرۃ: ۲)

الف لام میم ،اس کتاب میں شک کی گنجائش نہیں ،یہ کتاب متقیوں کی رہنمائی کرتی ہے۔

روزے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ارشاد باری ہے:

یٰا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرۃ: ۱۸۳)

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

اس کا مطلب ہے کہ قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے متقی ہونا ضروری ہے اور متقی انسان تبھی ہوسکتا ہے جب کہ وہ روزے رکھے۔یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کیا کہ جس کتاب کو ہدایت کے لیے نازل کیا اس ہدایت کے لیے دلوں کو تیار کرنے کا نسخہ بتایا۔

٭قرآن کتاب رحمت ہے۔اور رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ہے۔

و ننزل من القرآن ما ھو شفاء ورحمۃ اللمومنین۔’’ہم نے قرآن کو نازل کیا،وہ مومنین کے لیے شفا اور رحمت ہے۔‘‘رمضان کے بارے میں فرمایا ’’اولہٗ رحمۃ‘‘ اس کا اول یعنی پہلا عشرہ رحمت ہے۔

٭حدیث میں ہے کہ انسان جب روزہ رکھتا ہے تو صرف پیٹ کا نہیں رکھتا بلکہ اس کا پورا جسم روزے سے ہوتا ہے،وہ زبان سے گالی نہیں دیتا،جھوٹ نہیں بولتا،کان سے کوئی گناہ کی بات نہیں سنتا،اپنے ہاتھ پائوں سے ظلم نہیں کرتا ،اپنی شہوانی قوت پر قابو رکھتا ہے۔مشہور حدیث ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا:

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من لم یدع قول الزور والعمل بہ، فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ(بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

اسی بات کو قرآمجید میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا۔

وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ  اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا (الاسراء۳۶)

اور جس بات کی تجھے خبر نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ، بے شک کان اور آنکھ اور دل ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔

اس سے آپ اندازہ لگائیے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جن اعضاء کے بارے میں باز پرس کی جائے گی ،ان اعضاء و جوارح کی رمضان تربیت کرتا ہے۔ تاکہ انسان اللہ کے حضور شرمندہ نہ ہو۔

٭قرآن مجید میں صبر کی تلقین کی گئی ہے ،صبر کی اہمیت بتائی گئی ہے،صبر سے مدد لینے کا ذکر کیا گیا ہے اور صبر روزے سے پیدا ہوتا ہے۔قرآن مجید میں کہا گیا:

 اِنَّہ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ (یوسف۔۹۰)

جس نے تقویٰ کی روش اختیار کی اور صبر کیا تو اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

رمضان کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

’’ھٰذا شھر الصبر یہ صبر کا مہینہ ہے‘‘

٭ اگر قرآن گناہوں کی نشاندہی کرتا ہے تو روزہ گناہوں سے بچاتا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ جھوٹ ،چوری،زنا،بد عہدی کی سزا کیا ہے ؟لیکن انسان کو ان سزائوں کا مستحق  ہونے روزہ بچاتا ہے ،انسان روزہ رکھ کر گناہوں پر قابو پانے کی تربہت حاصل کرلیتا ہے۔ اسے اپنے نفس کو لگام دینا آجاتا ہے ،اس لیے وہ گناہوں سے دور رہتا ہے۔ قرآن نے کہا

’’وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثمِ وَبَاطِنَہ  اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُوْنَ الْاِثمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانوْا یَقْتَرِفُوْنَ (الانعام ۱۲۰)

تم ظاہری اور باطنی سب گناہ چھوڑ دو، بے شک جو لوگ گناہ کرتے ہیں عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔

اسی طرح حدیث میں روزے کے متعلق کہا گیا ’’الصوم جنۃ‘ ‘روزہ ڈھال ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ رمضان اور قرآن ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں اور لازم اور ملزوم ہیں ،قرآن سے فائدے حاصل کرنے کے لیے متقی ہونا ضروری ہے اور متقی ہونے کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے۔

تبصرے بند ہیں۔