رمضان: صبر و برداشت کی عملی مشق!

وصیل خان

رمضان المبارک کی خوشگوار اور پاکیزہ ساعتیں بڑی تیزی کے ساتھ نکلتی جا رہی ہیں ،پہلا عشرہ ٔ رحمت تو کب کا رخصت ہوچکاہے ، اب دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے جس کی وادیوں سے ہم اس وقت گذر رہے ہیں ،بلکہ اختتامی مرحلے پر پہنچ چکے ہیں ۔ تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی والاہمارے سامنے موجود ہے ،ظاہر ہے جو عشرہ گذرچکا ہے، اس میں ہم نے جو بھی اچھےیابرے کام کئے اس کی جزا یا سزا ملنے والی ہے۔ اللہ بڑا رحیم ہے اس کے کارخانہ ٔ قدرت میں کوئی کمی نہیں ، وہ تو بس اپنے بندوں کو دینے کے بہانے ڈھونڈھتا ہے ۔بس بندے کو اس قابل بننے کی ضرورت ہے۔ جو فی الوقت انتہائی مشکل کام ہے ۔

صبر و برداشت اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اور رمضان اسی کی عملی مشق ہے ۔ روزہ ہمیں سماج ومعاشرہ میں رہنے کی ڈسپلن سکھاتا ہے وہ ہمارے اندرصبر وتحمل کی اسپرٹ پیدا کرتا ہے ، تاکہ ہم سماج میں ایک مثبت رول ادا کرسکیں ،وہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ زندگی کو کس طرح متوازن اور پرسکون بنایا جاسکتا ہے ۔ بھوک پیاس کی شدت ہمارے اندر یہ احساس جگاتی ہے کہ وہ غربا ء و مساکین ،آفات ارضی و سماوی سے جوجھنے والے لوگ جو طرح طرح کی پریشانیاں اٹھاتے ہیں ،بھوک پیاس کا تجربہ کرتے ہیں ، ان کے سخت ایام کس طرح گذرتے ہونگے ۔ یہی احساس ہمیں متوازن بناتا ہے، اور ہمارا یہی متوازن اندا ز اللہ کو بے حد مرغوب ہے ۔ رسول کریم ﷺؐنےہمیں اسی کی تعلیم دی ہے ۔ لیکن عجیب بات ہے ہم دوسروں کے سامنے کچھ اور ہی منظر پیش کرتے ہیں ، ہمارے علاقو ں میں رات بھر کھانے پینے کی دوکانیں کھلی رہتی ہیں مختلف اقسام کے رنگ برنگے کھانے ہمارے صبرو ضبط کا بندھن توڑتے رہتے ہیں ۔ ،ہمیں بھوک پیاس کی شدت کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا، ہم رات بھر جاگتے تو ضرور ہیں لیکن عبادت اور تہجدگذاری کیلئے نہیں بلکہ کھانے اور مٹر گشتی کیلئے ،کیرم ،پربیاٹ اور طرح طرح کی فضولیات کیلئے ، یہ ایسے حقائق ہیں جس کے لئے کسی کو کوئی ثبوت و پروف دینے کی ضرورت نہیں ۔ نماز تراویح ہورہی ہے، وہیں دوسری طرف کھیل کود اور ہلڑ بازی اور آس پاس کے ہوٹلوں میں شورو ہنگامہ ایسا کہ بس اللہ کی پناہ، کانوں پڑی آواز نہیں سن سکتے ۔کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس کی ہمیں کیا کرنا چاہئے اور ہم کیا کررہے ہیں ،قول و عمل کے تضاد کی آخر ہم یہ کیسی نظیر پیش کررہے ہیں ۔

 کیا ہم نے کبھی اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا کہ ہمارے ایک ایک عمل کا نگراں اللہ ہے جو ہمارے اچھے اور برے سبھی افعال خواہ وہ ذرے کے برابر ہی کیوں نہ ہوں دیکھ لیتا ہے ۔آج کل ہماری کارگزاریوں کا ایک رخ یہ بھی ہے جو بڑی تیزی سے برادران وطن میں منفی پیغام پہنچا رہا ہے۔عبادت اللہ کیلئے ہوتی ہے، جو نہایت خاموشی کے ساتھ اللہ کے حضور اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو ،جس میں نمائش و دکھاوا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔لیکن آج کل عبادت نے بھی اپنے زاویئےتبدیل کرلئے ہیں اور نمائش و دکھاوےکی اونچی چوٹی پر پہنچ گئی ہے اور یہ سب اللہ کو سخت ناپسند ہے جس کی وارننگ قرآن مجید میں متعدد جگہوں پرموجود ہے ۔ایسی عبادات اجر و فائدے کے بجائے خسارے اور عذاب کا سبب بن جاتی ہیں ۔اسی کے ساتھ کچھ افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جو اصلا ً تو درست ہوتے ہیں لیکن برادران وطن اس سے منفی پیغام لیتے ہیں ۔

ہمیں اس تعلق سے بھی غورکرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا کوئی بھی فعل منفی رد عمل والانہ ہو بلکہ مثبت نفسیات کی طرف لے جانے والاہو،تاکہ اس کے نتائج بھی مثبت ہی نکل سکیں ۔ بیشتر مسلم علاقوں کا حال یہ ہے کہ رمضان آتے ہی وہاں روشنیوں کےہالے چمک اٹھتے ہیں مسجدوں اور ہوٹلوں میں اضافی روشنیوں کا اہتمام بڑھ جاتا ہے ،انواع و اقسام کے کھانوں کی مہک اس طرح اڑتی ہے کہ رات رات بھر ان ہوٹلوں پر ہجوم منڈلاتا رہتا ہےاورسحری تک جاری رہتا ہے،ساتھ ہی سڑکوں اور گلیوں میں پربیاٹ اور بیڈ منٹن کے کھیل شروع ہوجاتے ہیں ،پھر طلوع آفتاب کے ساتھ ہی کھانے پینے کی دوکانوں پر سرخ پردے گرجاتے ہیں اور وہی رات والی مشق دن میں بھی شروع ہوجاتی ہےگذشتہ دنوں ممبئی سینٹرل سے ناگپاڑہ آتے وقت بس میں بیٹھے دو غیرمسلم مسافر عربیہ ہوٹل سے متصل لگی افطاری کی دوکانوں کو دیکھ کر کہنے لگے کیا یہ مسلمانوں کے کھانے کا مہینہ ہے ؟ ان کے چہرے بشرے سے حیرت و استعجاب صاف جھلک رہا تھا ۔اسی طرح ایک اور موقع پرہونے والی گفتگو کچھ اس طرح تھی کہ مسلمانوں کا کھانے والامہینہ کب آتا ہے ۔ برادران وطن لب سڑک انواع و اقسام کے کھانوں کی قطاراندرقطار لگی دوکانیں دیکھ کراس کے سوا اور کیا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسلمان کھانے سے کس قدر دلچسپی رکھتاہے؟ ۔یہ کوئی سادہ بات نہیں ان جملوں میں ہمارے ماضی و حال کی تاریخ درج ہوگئی ہے، لیکن ہم نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں ،کیا ہمیں اپنے اس طرز عمل کو تبدیل کرنے اور آنکھیں کھولنے کی ضرورت نہیں ۔

عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں جب فلسطین فتح ہوا اور مسلم فوجیں پورے علاقے پر قابض ہوگئیں تو کچھ کلیدی عہدوں پر مسلم حکام کو متعین کرکے فوجیں لوٹ گئیں ، وہاں قیام پذیر مٹھی بھر مسلمانوں کے اعلیٰ کردارو عمل کو دیکھ کر عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد بے حد متاثر ہوئی اوراسلام قبول کرلیا ،کچھ عرصہ بعد گرجاگھروں کے مبلغین ( جو مسلمان ہوگئے تھے ) اور عوام کی ایک بڑی تعدادنے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس قاصد روانہ کرکے درخواست کی کہ ہم اس خدائے واحد پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر آخرالزماں ؐ کے احکامات و پیغامات پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، اس لئے ہمارے پاس کچھ مسلمان بھیجیں تاکہ ہم ایک اچھے انسان بننے کاہنر سیکھ سکیں اوراس اعمال پر کھرے اترسکیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ  کو مطلوب ہیں ۔ ذرا سوچیں اور کچھ دیر کیلئے اپنی آنکھیں بند کریں ،کیا تصور میں بھی ہم لوگ کہیں نظر آتے ہیں ۔؟

تبصرے بند ہیں۔