مسنون اعتکاف: شب قدر کی تلاش کا نبوی نسخہ!

 مولانا خواجہ فرقان قاسمی 

رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں روزہ اور تراویح کی طرح ایک مشروع عمل اعتکاف مسنونہ بھی ہے، جو رمضان کے اخیر عشرہ کے آغاز سے شوال کا چاند دیکھنے تک کیا جاتا ہے،جس کے متعلق قرآن مجید میں اجمالی اور احادیث میں مبارکہ میں تفصیلی ذکر موجود ہے۔مسنون اعتکاف کے فضائل اور اس سے متعلق کچھ باتوں پر نظر ڈالتے ہیں ۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ اعتکاف کی ہمیشہ رہی ہے، اور رمضان المبارک کے مہینے میں تمام مہینے کا اعتکاف بھی فرمایا، اور جس سال وصال ہواہے اس سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا ، لیکن اکثر عادت شریفہ اخیر عشرہ ہی کے اعتکاف کی رہی ہے اس لئے علماء کے نزدیک رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔ مسا جد میں اعتکاف کی نیت سے ٹھرنے کو اعتکاف کہتے ہیں ، اور اعتکاف کی تین قسمیں ہیں ۔

پہلی قسم واجب اعتکاف ہے :  جو منت اور نذر کی وجہ سے ہو، جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنے دنوں کا عتکاف کروں گا یا کسی کام کے قید کے بغیر کوئی یوں کہہ لے کہ میں نے اپنے اوپر اتنے دنوں کا اعتکاف لازم کرلیا ہے، تو یہ واجب اعتکاف کہلاتا ہے ، اس کی کم سے کم مدت ایک دن ہے، اور واجب اعتکاف میں روزہ شرط ہے۔

دوسری قسم سنت اعتکاف ہے :  جوہر سال میں رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کااعتکاف ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ ان دنوں میں اعتکاف فرمانے کی تھی۔ اس کے لئے بھی روزہ شرط ہے، اور صحیح یہ ہے کہ یہ سنت علی الکفایہ ہے، لہذا اگر محلے اور بستی میں سے کسی ایک آدمی نے یا بعض لوگوں نے اس سنت کو ادا کر لیا تو باقی لوگوں سے اس کا مطالبہ ساقط ہوجاتا ہے، اور اگر محلے کے سارے لوگ اس کو ترک کردیں کہ کوئی ایک بھی اس سنت کو ادا نہ کرے تو سب کے سب گنہگار ہوں گے۔

 تیسری قسم نفل اعتکاف ہے :  جس کے لئے نہ کوئی وقت کی قید ہے اور نہ دنوں کی، حتی کہ اگر کوئی تھوڑی دیر کے لئے بھی نیت کرلے تو جائز ہے اور تمام عمر کا اعتکاف کی نیت کرلے تو بھی جائز ہے۔

اعتکاف سے متعلق احادیث  :

  اعتکاف کے متعلق کثرت سے احادیث ملتی ہیں جس میں اس کے فضائل اور معتکف کو ملنے والے اجر کا تذکرہ آیا ہے، چنانچہ حدیث مبارکہ ہے کہ وَمَنِ اعْتَکَفَ یَوْماً اِبْتِغاَئَ وَجْہِ اللّٰہِ جَعَلَ اللّٰہُ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ النَّارِ ثَلٰثَ خَنَادِقَ اَبْعَدَ مَا بَیْنَ الْخَافِقَیْن۔(الترغیب الترھیب : ۲/۹۶)  یعنی جو شخص اللہ رب العزت کی خوشنودی کی تلاش میں ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے اللہ تعالی اس کے اور جھنم کے درمیان تین ایسی بڑی خندقیں حائل فرمادیتے ہیں جو دنیا جہاں سے بڑی چوڑی اور وسیع ہیں ۔

اور رمضان المبارک کے مسنون اعتکاف کے سلسلہ میں بکثرت روایات ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کا بہت اہتمام فرمایا چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ کَانَ یَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَخِیْرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّیٰ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ ثُمَّ اعْتَکَٖفَ اَزْوَاجُہُ مِنْ بَعْدِہِ  (صحیح بخاری : حدیث نمبر : 2026) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف فرماتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد آپؐ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں ۔اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے اخیر عشرہ کے اعتکاف کا کتنا اہتمام فرمایا۔

اعتکاف کی بڑی غرض شب قدر کی تلاش ہے :

یوں تو اعتکاف کا مطلب ہی یہ ہے کہ بندہ دنیا و ما فیھا سے ہٹ کر اورساری مشغولیات کو چھوڑ کراللہ کے گھر کا ہوجائے اور خدا کا مہمان بن کروہیں صبح و شام گذارے، اور دنیا کا دستور ہے کہ اگر روٹھے ہوئے کو منانا ہو اور اس کی محبت حاصل کرنی ہو تو اس کے در پر چلے جاتے ہیں اور اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں ، اور جب بندہ اللہ کے در پر آجائے اور اسی سب چیزوں سے ہٹ کر صرف اسی کا ہوجائے تو پھر رب ذو الجلال کی نوازشیں اس کا وہ حقدار ہوگا ۔ اعتکاف کا ایک اہم فائدہ اور بڑی غرض شب قدر کا حصول ہے، وہ شب قدر جس کے سلسلہ میں قرآن مجید میں ایک مکمل سورۃ ہے اور جس میں آیا ہے کہ اس ایک رات میں عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ثواب لیے ہوئے ہے، چنانچہ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرے میں اعتکاف فرمایا پھر ترکی خیمہ میں جس میں اعتکاف فرمارہے تھے باہر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرے کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا، پھر اسی کی وجہ سے دوسرے عشرہ میں کیا، پھر مجھے کسی بتلانے والے (یعنی فرشتے) نے بتلایا کہ وہ رات اخیر عشرہ میں ہے لہذاجو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ اخیر عشرہ کا بھی اعتکاف کریں ۔ (صحیح بخاری : حدیث نمبر    2027 )  اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کی تلاش میں پہلا عشرہ پھر دوسرا عشرہ اور اس کے بعد تیسرا عشرہ اعتکاف فرمایا اور صحابہ جو ساتھ میں اعتکاف فرما تھے ان سے بھی فرمایا کہ اخیر عشرہ میں بھی اعتکاف فرمائیں کہ شب قدر اخیر عشرہ میں ہے۔

یقینا شب قدر کے متلاشی و قدر دانوں کے لئے اعتکاف سے بہتر صورت نہیں ، اعتکاف میں چونکہ بندہ ایک ہی جگہ اللہ کے گھر میں رہتا ہے کہیں آنا جانا نہیں رہتا اس لئے عبادت کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے اور یکسوئی کے ساتھ تمام کام انجام پاتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اول تو سارے ہی رمضان میں عبادت کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے ، لیکن اخیر عشرہ میں کچھ حد ہی نہیں رہتی تھی،رات میں خود بھی جاگتے اور گھر کے لوگوں کو بھی جگانے کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اور عبادت کی یکسوئی اورشب قدر کی حصول کے لئے نیز خدائے وحدہ لا شریک لہ کے قرب کے لئے مسنون اعتکاف ایک زرین موقع ہے۔

تبصرے بند ہیں۔