رمضان کا آخری عشر ہ اور شبِ قدر

ذکی الرحمن فلاحی مدنی

اللہ تعالیٰ نے اپنے علم وحکمت کی بنیاد پر اوقات وازمنہ میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے۔ بعض اوقات کو خیر وبرکت کا سیزن قرار دیتے ہوئے ان میں نیک اعمال پر کئی گنا زیادہ اجر وثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ جس طرح اللہ رب العزت نے ماہِ رمضان المبارک کو دیگر تمام مہینوں پر فوقیت وفضیلت دی ہے، بعینہ اسی طرح اس ماہ کے آخری عشرے کو بقیہ ایام پر افضل اور فائق بنایا ہے۔
اللہ کے رسولﷺ اس مبارک عشرہ میں دیگر ایامِ رمضان کے مقابلے عبادات اور طاعات کی ادائیگی میں زیادہ محنت واجتہاد فرمایا کرتے تھے۔ ‘‘ [أن النبیﷺ کان یجتھد فی العشر الأواخر ما لا یجتھد فی غیرھا] (صحیح مسلمؒ :1175) اس عشرے کی فضیلت اس پہلو سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اس میں اپنے اہلِ خانہ کو عبادت کے لیے راتوں میں جگانے کا اہتمام فرماتے تھے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’اللہ کے رسولﷺ کا معمول ہوتا تھا کہ (رمضان المبارک کے) بیس دنوں تک راتوں میں نماز (عبادت) اور نیند کو ملایا کرتے تھے، لیکن آخری عشرہ آتے ہی آپﷺ کمر کس لیتے اور گرہ باندھ لیتے تھے، اور اہلِ خانہ کو بیدار فرمایا کرتے تھے۔ ‘‘ [کان النبیﷺیخلط العشرین بصلاۃٍ ونومٍ فاذا کان العشر شمّر وشدّ المئزر وأیقظ أھلہ] (صحیح بخاریؒ : 2024۔ صحیح مسلمؒ :2844۔ مسنداحمدؒ :25179)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اس عشرے میں اعمالِ صالحہ کی انجام دہی پر زور دیتے تھے اور خصوصیت کے ساتھ اس عشرے کی راتوں میں جاگ کر عبادات وطاعات میں وقت گزارتے تھے، نیز اپنے اہلِ خانہ کو بھی اہتمام کے ساتھ بیدار فرماتے تھے تاکہ وہ بھی اس خیرِ کثیر سے مستفیض ہوسکیں۔ اس عشرے کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس عشرے میں اللہ کے رسولﷺازار کس لیتے تھے یعنی اہلِ خانہ سے ازدواجی تعلقات سے اجتناب کرتے ہوئے مکمل وقت عبادت وریاضت میں صرف فرماتے تھے۔ اسی عشرے کی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس میں اعتکاف جیسی عظیم المرتبت عبادت کو مشروع کیا گیا ہے۔
اس عشرے کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس میں ہزار مہینوں سے بہتر رات (لیلۃ القدر) پائی جاتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺکا ارشاد ہے کہ لیلۃ القدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ ‘‘ [تحروا لیلۃ القدر فی العشر الأواخر من رمضان المبارک] (صحیح بخاریؒ :1921۔ صحیح مسلمؒ :1129)
اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت ورحمت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اس نے ان کے لیے کچھ ایسے اوقات وزمانے مخصوص فرمادیے ہیں جن میں نیک عمل کرکے وہ تھوڑے وقت میں زیادہ اجروثواب کے مستحق بن سکتے ہیں۔ ایسے تمام فضیلت والے وقتوں میں سرِ فہرست شبِ قدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے۔ سورہ دخان میں اس رات کو ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے اور سورہ قدر میں ’’لیلۃ القدر‘‘ سے۔ ارشادِ ربانی ہے:(إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِیْنَ) (دخان، 3) ’’ہم نے اسے ایک بڑی خیر وبرکت والی رات میں نازل کیا ہے کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ‘‘
شبِ قدر کی فضیلت کی تفصیل میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ*وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ*لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ*تَنَزَّلُ الْمَلَاءِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ*سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ) (القدر:1۔5) ’’ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوعِ فجر تک۔ ‘‘
چنانچہ اس رات کا حصول اور اس میں عملِ صالح کی توفیق پالینا بڑی سعادت کی بات ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے: ’’جس نے شبِ قدرمیں ایمان اوراجر و ثواب کی نیت سے عبادت و قیامِ لیل کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے گئے۔ ‘‘ [من قام لیلۃ القدرایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدّم من ذنبہ] (صحیح بخاریؒ :1901۔ صحیح مسلمؒ :175) ۔
ذیل میں اس رات کی فضیلت کے چند پہلو ذکرکیے جاتے ہیں:
الف) یہی وہ رات ہے جس میں تمام انسانوں کی دنیوی واخروی فلاح وکامیابی کا ضامن صحیفۂ رشد وہدایت اور نسخۂ فوز وفلاح قرآن کریم نازل کیا گیاتھا۔
ب) اس سورت میں شبِ قدر سے متعلق مخاطب سے استفسار(وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْر؟ )کیا گیا ہے، جو قرآنی اسالیب کی روشنی میں عظمت وجلالت کی دلیل ہے۔
ج) یہ رات ہزار ماہ سے بہتر ہے۔ یعنی کل تیراسی سال (83) چار ماہ کی عبادت وریاضت سے بہتر ہے کہ اس ایک رات میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے ساتھ عبادات وطاعات انجام دے لی جائیں۔ یاد رکھیے اس رات کو ہزار مہینوں کے برابر نہیں بتایا گیا ہے، بہتر بتایا گیا ہے، دوسرے لفظوں میں اس رات کی حقیقی بہترائی اور فضیلت کا علم تو صرف اللہ رب العزت کوہی ہوگا۔
د) اس رات میں خیر وبرکت اور رحمت ومغفرت کے پروانے لے لے کر بزرگ فرشتے نزول فرماتے ہیں۔
ھ) یہ رات سلامتی کی رات ہے کیونکہ اس رات میں عبادت کا صلہ عذابِ دوزخ سے سلامتی کی شکل میں ملتا ہے، جوکہ بے حد عظیم انعام ہے۔ (فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ)(آل عمران:185)’’کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے۔‘‘ حضرت مجاہد بن جبرؒ فرماتے ہیں کہ یہی وہ سلامتی کی رات ہے جب شیطان کوئی برائی یا ایذاء رسانی پر قادر نہیں ہوپاتا۔ ‘‘ (لطائف المعارف، ابن رجبؒ :2/236)
و) اس رات کی فضیلت کا پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کریم میں اس کے بارے میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔
ز) یہ رات آخری عشرے کی طاق راتوں میں رکھی گئی، کیونکہ طاق (وتر) اللہ کا وصف ہے اور نیک اعمال میں طاق عدد کا التزام کرنا شرعاً مطلوب اور مستحسن ہے۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ یقیناًاللہ تعالیٰ وترہے اور ہر معاملے میں طاق عدد کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ [انّ اللہ وتر یحب الوتر فی الأمر کلہ] (سنن ترمذیؒ :453۔ سنن ابن ماجہؒ : 1170)
ح) اس رات میں ہر حکیمانہ امر کا الٰہی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ لیلۃ القدر، اس کا نام اسی لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں انسانوں کی مدتِ حیات، رزق اور سال بھر کے حوادث وواقعات کو مقدر فرمادیا جاتا ہے یعنی لوحِ محفوظ سے نکال کر کاتبینِ تقدیر فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو لیلۃ القدر اس لیے بھی کہا ہے کیونکہ اس رات کی قدر ومنزلت اور مرتبہ ومقام اللہ کے نزدیک بہت زیادہ ہے۔
پیچھے گزر چکا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اس رات کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تلاش کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ لیکن حضرت عائشہؓ سے مروی روایت میں مزید بتایا گیا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کیا جائے۔ ‘‘ [تحروا لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الأواخر] (صحیح بخاریؒ :2017۔ صحیح مسلمؒ :165) علمائے کرام کے مابین شروعات سے ہی شبِ قدر کی تحدید وتعیین میں اختلاف پایا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے اکیسویں شب مانا ہے، جب کہ بعض نے تیئیسویں اوربعض نے پچیسویں، لیکن بیشتر صحابۂ کرامؓ وتابعینِ عظامؒ نے اسے ستائیسویں رات قرار دیا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ قسم کھا کر کہتے تھے کہ: شبِ قدر ستائیسویں رات ہوتی ہے‘‘ اور اس قسم کو کھانے میں وہ ان شاء اللہ کہہ کر کوئی استثناء نہیں کرتے تھے۔(جامع العلوم والحکم،ابن رجبؒ :1/112)یعنی نہایت وثوق اور پختگی والی قسم کھاتے تھے۔ بعض علمائے کرام کے نزدیک یہ رات انتیسویں شب ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر قول کے کچھ دلائل ہیں جن کا تذکرہ بہت طویل ہے اورزیادہ سود مند نہ ہوگا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اکثر محققین علمائے کرام کے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ یہ رات مختلف رمضانوں میں مختلف راتوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ تاہم اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے اور ستائیسویں شب میں اس کے ہونے کی سب سے زیادہ امید کی جاسکتی ہے۔ دراصل اس عشرے میں مقصود یہی ہے کہ بندگانِ خدا زیادہ سے زیادہ عبادات وطاعات کی انجام دہی کا التزام کریں، بس اسی لیے شبِ قدر جیسی عظیم رات کو مشروع کیا گیا ہے اور اسی لیے اس رات کو مجہول اور غیر متعین رکھا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
اصل مقصود شبِ قدر کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت واجتہاد کرنا ہے۔ اس رات میں زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے سامنے رونا گڑگڑانا چاہیے اور بالخصوص ماثور نبوی دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ سے دریافت کیا تھا کہ اگر میں شبِ قدر کو پاجاؤں تو کیا کہوں؟ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ اس میں تم یہ کہا کرو: ’’اللھم إنک عفو تحب العفو فاعف عني‘‘ یعنی اے اللہ! یقیناًتو معاف کرنے والاہے اور معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے اس لیے مجھے بھی معافی عطا فرمادے۔ ‘‘ [أرأیت إن وافقت لیلۃ القدر ماأقول فیھا…] (سنن ترمذیؒ :3513۔ سنن ابن ماجہؒ :3850۔ تصحیح البانیؒ فی تعلیق المشکاۃ: 2091)
یہاں جان لینا فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ شبِ قدر کو پہچاننے کی کچھ علامات بھی صحیح احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ حضرت ابی بن کعبؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ لیلۃ القدر کے بعد والی صبح اس طرح ہوتی ہے کہ اس کے سورج میں طلوع ہوتے وقت شعائیں نہیں ہوتیں، اور وہ ایک طشت کے مشابہ ہوتا ہے تاآنکہ وہ اچھا خاصا بلند نہ ہوجائے۔ ‘‘ [صبیحۃ لیلۃ القدر تطلع الشمس لاشعاع لھا کأنھا طست حتی ترتفع] (صحیح مسلمؒ :762۔ مسند احمدؒ :5/131۔ تصحیح البانی فی صحیح الجامع:5474)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ شبِ قدر معتدل اور کھلی فضا والی ہوتی ہے، یہ گرم یا سرد نہیں ہوتی اور اس کی صبح کا سورج سرخ اور کمزور سا ہوتا ہے۔ ‘‘ [لیلۃ القدر سمحۃ طلقۃ لاحارۃ ولا باردۃ تصبح الشمس صبیحتھا ضعیفۃ حمراء] (مسند طیالسیؒ :349۔ تصحیح البانیؒ فی صحیح الجامع:5475) اس رات کی ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس میں ستارے نہیں ٹوٹتے ہیں۔ ‘‘ [أنہ لا یرمی فیھا نجم] (مجمع الزوائد، ہیثمیؒ :3/178۔ تحسین البانیؒ فی صحیح الجامع: 5472) یہ شبِ قدر کے سلسلے میں منقولہ صحیح علامات ہیں، اس کے علاوہ جو قصے کہانیاں اس رات کی علامتوں کے حوالے سے نقل کیے جاتے ہیں ان میں سے بیشتر کا شریعت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔