فاتح خیبر حضرت علیؓ ایمان اور شجاعت

حفیظ نعمانی
ابن اسحاق کی روایت ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب آپ کے پاس تشریف لائے آپ اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نماز پڑھ رہے تھے ۔حضرت علیؓ نے معلوم کیا کہ یہ آپ کیا کررہے تھے ؟ حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ یہ ایسا دین ہے جس کو اللہ نے منتخب فرمایا ہے ۔اور تفصیل بتائی ۔اور فرمایا کہ میں تم کو بھی ایسے اللہ کی طرف بلاتا ہوں جو تنہاہے ۔اسوقت حضرت علیؓ فرمایا کہ میں اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا ۔جب تک والد سے اجازت نہ لے سکوں ۔آپ نے فرمایا جب تک تم اسلام نہیں لاتے اسے راز رکھنا ۔دوسرے ہی دن حضرت علیؓ تشریف لائے اور معلوم کیا کہ کل آپ نے مجھ سے کیا فرمایا تھا؟ آپ ؐ نے فرمایا گواہی دو کہ اللہ صرف ایک ہے اور اسکا کوئی شریک نہیں ۔اور لات و عزا کا انکار کرو ۔حضرت علیؓ نے سب دہرایا اور قبول کیا ۔حضرت علیؓ بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ امت میں صرف میں وہ دوسرا ہوں جس نے حضور اکرمؐ کے بعد نماز پڑھی ہے ۔
ابن اسحاق کی روایت ہے کہ عمرو ابن عبدود لوہے کی زرہیں پہنے ہوئے نکلا اور اس نے بلند آواز سے کہا کہ کون میرے مقابلہ پر آتا ہے ؟حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور حضور سے اجازت لی ۔آپؐ نے فرمایا یہ عمرو ہے بیٹھ جاؤ دوبارہ عمر و نے آواز دی کہ ہے کوئی جو میرے مقابلہ کے لئے نکلے ؟اور مسلمانوں کو ملامت کی کہ کہاں ہے وہ جنت جسکے لئے کہتے ہو کہ جو مارا جاتا ہے وہ اس جنت میں جاتا ہے ؟کیوں نہیں کوئی جنت میں جانے کے لئے میرے مقابلہ پر آئے ۔حضرت علیؓ نے کھڑے ہوکر پھر اجازت چاہی حضور نے پھر فرمایا بیٹھ جاؤ ۔تیسری مرتبہ عمرو نے پھر للکارا اور چند اشعار پڑھے راوی کا بیان ہے کہ پھر حضرت علیؓ اجازت کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا یا رسول اللہ میں اسکا مقابلہ کرونگا حضور نے فرمایا کہ یہ عمر و ہے ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ عمرو ہی کیوں نہ ہو ۔تب آپ نے اجازت دے دی۔حضرت علیؓ سامنے آئے اور یہ چار شعر رجز کے طور پر پڑھے ۔جسکا ترجمہ یہ ہے ۔
(1)جلدی نہ کر تیری آواز کا جواب دینے والا عاجز نہیں ہے لے وہ آگیا ۔
(2)سچی نیت اور بصیرت کے ساتھ سچائی ہی نجات دیتی ہے یہ کامیاب ہونے والے کو ۔
(3)مجھے امیدہے کہ میں تیرے جنازہ کے اوپر نوحہ کرنے والیوں کو ضرور کھڑا کروں گا ۔
(4)ایسی ضرب کاری کے ذریعہ جسکا تذکرہ ہر نقل و حرکت کرنے والے میں باقی رہ جائے گا ۔
عمرو نے پوچھا تو کون ہے ؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ میں علی ہوں ۔اس نے کہا عبد مناف کے بیٹے ؟حضرت علیؓ نے فرمایا میں علیؓ ابن ابی طالب ہوں ۔عمرو نے کہا اے میرے برادر زادے تیرے چچاؤں میں ایسے بھی تو ہیں جو عمر میں تجھ سے بڑے ہیں میں تو تیر ا خون بہانے سے کراہیت محسوس کررہا ہوں ۔حضرت علیؓ نے فرمایا لیکن خدا کی قسم میں تیر اخون بہانے کو قطعاً برا نہیں سمجھتا ۔یہ سن کر وہ غصہ سے کھول گیا اور گھوڑے سے اترا ۔اور اس نے آگ کے شعلہ جیسی تلوار سونت لی اور حضرت علیؓ کی طرف لپکا ۔حضرت علیؓ نے اپنی ڈھال سامنے کردی ۔عمرو نے تلوار انکی ڈھال پر ماری اور اسے پھاڑ دیا تلوار اس میں گھس گئی اورحضرت علی کے سر پر لگی ۔حضرت علیؓ نے اسکے کاندھے کی رگ پر تلوار ماری جس سے وہ گر پڑا اور غبار اڑا جسے دیکھ کر نعرۂ تکبیر بلند ہوا ۔اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ حضرت علیؓ نے اسے ہلاک کردیا ہے ۔ حضرت علیؓ یہ شعر پڑھتے ہوئے تشریف لائے ۔اردو ترجمہ
(1)اس نے پتھروں کی عبادت کی تھی اورمیں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی عبادت کی تھی ۔
(2)جس وقت میں اسے پچھاڑ چکا اور وہ کھجور کے تنے کی طرح گرا نرم اور تر زمین کے درمیان ۔
(3)میں نے تو اسکے کپڑوں سے نفرت کی لیکن اگر میں گر تا تو وہ میرے کپڑے لے جاتا ۔
(4)اے لوگو تم ہر گز بدگمانی نہ کرو کہ اللہ تعالی اپنے دین اور اپنے رسول کو رسوا کرے گا ۔
اسکے بعد حضرت علیؓ حضور اکرمؐ کے پاس تشریف لائے ۔آپؐ کا چہر ۂ مبارک چمک رہا تھا ۔ حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم نے اسکی زرہ کیوں نہ اتار لی اس لئے کہ عرب والوں کے لئے اس سے بہتر زرہ نہیں ہے ۔حضرت علی نے فرمایا کہ میں نے اسے مارا ۔اور میں نے اسکی شرم گاہ کھلنے کی وجہ سے اسے ایسے ہی چھوڑ دیا ۔مجھے حیا آگئی کہ یہ میرے چچا کا بیٹا ہے اور میں اسکا مال چھینوں ؟
مسلم شریف میں حضرت سلمہ بن اکوع سے ایک طویل روایت ہے جس میں صحابہ کرامؓ کے غزوۂ بنی فرازہ سے لوٹنے کا تذکرہ کیا ہے ۔ان کا بیان ہے کہ ہم تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرے کہ ہم لوگ خیبر کی طرف روانہ ہوگئے ۔سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ راستے میں حضرت عامرؓ اپنے مخصوص انداز میں یہ شعر پڑھتے جاتے تھے ۔(ترجمہ )
(1)خدا کی قسم اگر آپ ؐ نہ ہوتے تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ صدقہ خیرات کرتے اور نہ نماز پرھتے ۔
(2)اور ہم آپ کے فضل سے بے پروا نہیں ۔اے اللہ ہم لوگوں پر اطمینان نازل فرما ۔اور جب ہم دشمنوں سے ملیں تو ثابت قدمی نصیب فرما ۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معلوم کیا کہ یہ شعر کو ن پڑھ رہا ہے ؟لوگوں نے عرض کیا عامرؓ ۔آپؐ نے فرمایا اللہ پاک نے اسکی مغفرت فرما دی ۔راوی کہتے ہیں کہ جب کبھی حضورؐ نے کسی کے لئے یہ کلمات فرمائے اسے شہادت ضرور نصیب ہوئی ۔
راوی کا بیان ہے کہ ہم لوگ جب خیبر پہنچے تو یہودی سردار مرحب نکلا وہ اپنی تلوار لئے ہوئے اکڑتا ہوا چل رہا تھا ۔اور رجز پڑھ رہا تھا ۔ترجمہ
(1)تمام خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں ۔ہتھیار سے لیس ہوں بڑا تجربہ کار ہوں
اسکے مقابلہ کے لئے حضرت عامر نکلے ۔وہ بھی کہہ رہے تھے کہ خیبرجانتا ہے کہ میں عامر ہوں ہتھیا ر سے لیس ہوں اور خطرات میں گھس جانے والا بہادر ہوں ۔دونوں میں تلوار چلنے لگی ۔مرحب کی تلوار حضرت عامر کی ڈھال میں گھس گئی ۔یہ اسے جھٹک کر چھڑانے لگے تو وہ خود انہیں کے لگ گئی اوروہ شہید ہوگئے ۔حضور اکرم ؐ نے حضرت علیؓ کو بلوایا ۔اور فرمایا کہ میں علم اسکے ہاتھ میں دونگا جو اللہ اور اسکے رسولؐ کو دوست رکھتا ہے ۔حضرت علیؓ کی آنکھیں دکھنے آئی ہوئی تھیں ۔حضرت علیؓ کو سہارا دیکر لایا گیا ۔آپؐ نے انکی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور فوراًآنکھوں کو آرام آگیا ۔حضور ؐ نے انکو جھنڈا دیدیا ۔
دوسری طرف مرحب پھر رجز پڑھتا ہوا سامنے آیا ۔حضرت علیؓ نے جواب میں یہ شعر پڑھا کہ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرانام شیر رکھا ہے ۔جھاڑیوں کے شیر جیسا خوفناک ہوں مرحب کا حضرت علی سے مقابلہ ہوا اور حضرت علی نے اسکا سرتن سے جدا کر دیا ۔اور لاکر حضور کے قدموں میں ڈال دیا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع فرماتے ہیں کہ جب ہم سب قلعہ کے قریب ہوئے تو یہودیوں سے مقابلہ ہوا ایک یہودی نے حضرت علیؓ کو تلوار ماری جسکی وجہ سے ان کے ہاتھ سے ڈھال گر گئی ۔حضرت علی نے قلعہ کا پھاٹک ہاتھ میں لیکر اسے ڈھال بنا یا ۔یہ پھاٹک ہاتھ میں رہا اور جب تک جنگ رہی حضرت علیؓ اس کو ڈھال بنائے رہے ۔یہاں تک اللہ تعالی نے فتح نصیب فرمائی اسکے بعد حضرت علیؓ نے اس پھاٹک کو چھوڑا ۔حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ میں نے سات آدمیوں کو سا تھ لیکر چاہا کہ اس پھاٹک کو پلٹ دیں ۔لیکن ناکام رہے ۔حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ حضرت علیؓ نے خیبر میں دروازہ اٹھالیا اور مسلمان اس پر چڑھ کر قلعہ میں چلے گئے ۔حضرت علیؓ نے اسکے بعد تجربہ کیا تو چالیس آدمی بھی اسے نہ اٹھاسکے ۔اور ایک روایت میں ہے کہ ستر آمیوں نے اسے پلٹنے کی کوشش کی تو بڑی مشقت محسوس کی۔

مضمون حضرت مولانا یوسف ؒ امیر جماعت تبلیغ کی کتاب حیات الصحابہؓ حصہ 1-2-3 سے ماخوذ ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔