رمضان کا پیغام

مثالی سماج‘ خالق کی بندگی اور بندوں کی خدمت سے ممکن

روزوں کے ذریعہ اللہ کی بندگی کی تربیت اوراس کی بے پایاں نعمتوں کا احساس ‘ یہی دو امور ‘ رمضان المبارک کے جائزہ سے معلوم ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی درحقیقت اللہ تعا لیٰ کی نعمتو ں کا مجموعہ ہے‘لیکن اکثر ان کے احساس سے دل و دماغ خالی رہتے ہیں ۔ غذا اور پانی کی اہمیت سب جانتے ہیں ‘لیکن ان کی غیر موجودگی میں بھوک اور پیاس کیسی ہوتی ہے اس کا صحیح طرح سے احساس ہونہیں پاتا۔ بھوک اور پیاس کا احساس ‘کسی اور ذریعہ سے نہیں بلکہ عملاً بھوکے اور پیاسے رہ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ لہذا روزوں کے ذریعہ نہ صرف ان نعمتوں کا شعور حاصل ہوتا ہے بلکہ خالق کی بندگی کیلئے دلی آمادگی میسر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا آغاز دنیا میں انسان کی آمد سے پہلے ہی سے شروع ہوجاتا ہے اور جوں ہی وہ دنیا میں قدم رکھے ایسا معلوم ہوتا کہ یہ زمین و آسمان کی گردش اس کی زندگی کا سامان کررہی ہے۔ اس لئے سب سے اچھی بات اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس نے انسان کو پیدا کیا اورزمین پر اسے اپنا خلیفہ بنایا‘ صرف اسی کی بندگی کی جانی چاہئے۔ جس نے زندگی گذرانے کے لئے مال و متاع فرہم کیا ‘ اسی خالق سے ہر دم قربت کا احساس ہونا چاہئے۔
نعمتوں کا استعمال زندگی کے کسی مرحلہ میں بھی محدود نہیں ہوتا‘ انسان جب تک زندہ رہتا ہے ‘ہر آن اللہ کی نعمتوں سے استفادہ کرتا رہتا ہے۔ ہر آنے اور جانے والی سانس‘ہر لمحہ چلتی ہوا اور ہر وقت دستیاب پانی سے انسان تو پل پل فائدہ اٹھاتا رہتا ہے۔ لہذا یہی مطلوب رویہ ہے کہ جیسے جیسے نعمتوں کا استعمال ہو ویسے ویسے منعم حقیقی سے قربت ہو۔ اسی لئے قرآن کریم میں وضاحت کی گئی کہ جو نعمتیں بھی ملتیں ہیں وہ بس یوں ہی نہیں ملتیں بلکہ منجابب اللہ ہوتی ہیں(النحل:۵۳)۔ اس دنیا میں انسان کے مطلوبہ رویہ سے متعلق بس یہی دوحقیقتیں ہیں‘ ایک یہ کہ خالقِ حقیقی کی بندگی بجالانا اور دوسری‘ دنیوی نعمتیں پاکر منعمِ حقیقی سے قریب ترہوجانا۔
جب ان دونوں یا کسی ایک پہلو سے غفلت برتی جاتی ہے تو انسانی زندگی سے سکون غائب ہوجاتا ہے۔ بندے اپنے خالق سے دور ہوجاتے ہیں۔ معاشرہ امن و سلامتی سے خالی اور کئی قسم کی معاشرتی خرابیوں سے بھر جاتا ہے۔جب آپ معاشرہ کے ابتر حالات کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یا تو اللہ تعالیٰ کو سرے سے بھلادیا گیا ہے یا پھر اس کی عطا کردہ نعمتوں کا غلط اور غیر محتاط استعمال کیا جارہا ہے۔ روزوں کے ذریعہ نہ صرف اس حقیقت کا پتا چلتا ہے بلکہ ایک روزہ دارُ ان جذبات اور کیفیات کو بھی حاصل کرلیتا ہے جن کے توسط سے وہ آگے بڑھ کر انسانیت کو بے مقصد زندگی سے بچاتے ہوئے ان کے درد کا درماں بن جاتا ہے ۔آئیے رمضان المبارک کے ان حسین لمحوں کو پھر سے قلب و ذہن میں تازہ کرلیں جن سے ہمارے ایمان میں تازگی اور اعمال میں لذت محسوس ہوتی تھی‘ تاکہ اس ماہ کے فیوض و برکات سے ہم خود بھی مستفید ہوتے رہیں اور ملک و ملت کی بھلائی کیلئے بھی کوشاں رہیں ۔

خالق کی بندگی

اخلاص سے کیا جانے والا عمل اللہ رب العزت سے بندے کی قربت کو یقینی بناتا ہے۔ روزوں کے ذریعہ بندے کے اندر ‘قربت الہی کا یہی احساس اجاگر ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں آیا ہے‘ اورساری دنیا اسی کی خدمت میں لگی ہے‘ اس کو چاہئے کو وہ صرف اپنے خالق کی بندگی بجا لائے۔ زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے وہ اسی کے لئے مسخر کردیا گیا ہے۔ وہ اس حقیقت سے واقف ہوجاتا ہے نعمتوں سے فیض یاب ہونے کے لحاظ سے تمام انسان ایک ہیں۔ اگرکوئی زمین میں بیج بونا چاہے‘ اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ جو بوئے گا وہی حاصل کریگا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ امیر اور غریب کے فرق سے پیداوار کی اصل میں بھی فرق واقع ہوجائے۔ یا اونچ نیچ اور چھوت چھات کی وجہ سے فصل میں بھی کمی واقع ہو۔ اللہ رب العزت کی عطا کردہ دوسری نعمتو ں کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ پانی کا مزا‘ پھلوں کی مٹھاس ‘پھولوں کی خوشبو‘ تمام انسانوں کے لئے یکساں ہیں۔ پھر موسموں کی تبدیلیوں سے جو احساسات دلوں میں ابھرتے ہیں ان میں بھی انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔
انسانوں کے درمیان یہ یکسانیت دو چیزوں کا پتا دیتی ہے ایک تو یہ کہ ان سب کا خالق ایک ہے اس لئے ان کے آپسی فائدے اور احساسات بھی ایک ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ انسانوں کیلئے ان کے خالق نے زمین و آسمانوں کو تابع کرتے ہوئے ان کی خدمت میں لگادیاہے‘لہذا شکر بجالاتے ہوئے اسی کی بندگی کرنی چاہئے۔ یہ اتنی غیر معمولی حقیقت ہے کہ اس سے اگر صرف نظر ہو تو انسان گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں میں بھٹکتا پھرے گا۔ رمضان کی عبادتوں کے ذریعہ یہی تربیت ملتی ہے کہ خالق کی نعمتوں کے حوالے سے اس کی معرفت حاصل کی جائے۔ دن بھر اسی کی خاطر بھوکا پیاسا رہ کر اور راتوں میں قیام کرتے ہوئے بندہ اسی حقیقت کو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ظاہر بات ہے جب اس حقیقت کا پتا چلے تو اللہ کی بندگی اور اللہ کے بندوں کو اس کی بندگی کی طرف بلانے ہی میں زندگی کے باقی ایام گذرنے چاہئے۔

نعمتوں کا شعور

انسان کی خدمت کے لئے یہ زمین و آسمان مصروف ہیں۔ انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خشکی ‘تری اور فضا کا جس طرح چاہے استعمال کرے۔ یہ شرف کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں(سورہ بنی اسرائیل: ۷۰)۔جب اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات میں‘ اللہ کابنایا ہوا انسان‘ اس کی نعمتوں سے استفادہ کرے تو لازماً اللہ ہی کی یاد سے اس کا قلب و ذہن معمور ہوگا اور اگر وہ اپنے خالق کو نہیں جانتا تو اسکی معرفت نصیب ہوگی۔ بھوک کے وقت دو لقمے کھانا اور پیاس کے وقت دو گھونٹ پا نی کا بہم پہنچنا اللہ کی عظیم ترین نعمتیں معلوم ہوں گی۔ جب انسان شعوری طور پر دنیوی نعمتوں سے استفادہ کرے تو اس کا ایک مزاج بنتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو پاجاتا ہے کہ جیسے دنیا اس کے لئے بنائی گئی ہے ویسے ہی وہ آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ جس طرح نعمتیں ختم ہوجاتی ہیں اسی طرح اس کی زندگی بھی ختم ہوجائے گی۔جیسے سورج کی کرنیں نعمتیں بکھیرتے ہوئے شام کو غروب ہوجاتی ہیں‘ بالکل ویسے ہی جس اللہ نے اسے زندگی دی ہے‘ اسی کی طرف اسکا ایک دن واپس پلٹنا یقینی ہے۔ یہ احساس ہی دراصل تقوی کی ایک کیفیت ہے کہ بندہ اللہ کی جانب واپس لوٹ جانے کو یقینی سمجھتا ہے (البقرہ:۲۲۳- البقرہ: ۲۳۳- المائدہ: ۹۶)۔جب کسی پر دنیا کی بے ثباتی اس موثر انداز سے واضح ہو تو اسکی ساری تگ و دو اپنی اور اپنوں کی دنیا و آخرت سنوارنے کے علاوہ کسی اور غرض کے لئے نہیں ہوگی۔

انسانی ضروریات کا احساس

رمضان کی عبادتوں کے ذریعہ انسانوں کی ضروریات کا احساس بیدار ہوتا ہے۔ وقت پر کھانا نہ ملنا‘ ایک غریب کیلئے کس قدر مصیبت کا باعث ہوتا ہے‘ایک روزہ دار اچھی طرح محسوس کرتا ہے۔ پینے کے لئے پانی نہ ملنا‘ کس ذہنی اور جسمانی کوفت میں انسان کو مبتلا کرتا ہے اس سے بھی بخوبی واقفیت ہوجاتی ہے۔ روزہ کی حالت میں ایک لمبے وقت تک بھوکے اور پیاسے رہنے کے بعد جب غذا کا استعمال ہوتا ہے تو مزاج میں فطرتاً محتاط پن آجاتاہے۔ اور غذا اور پانی جیسی نعمتوں سے متعلق اصراف نہ کرتے ہوئے درست رویہ اختیار کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ بس یہی وہ مطلوبہ احساس ہے جو انسانی ضروریات کی تکمیل کیلئے درکار ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ آپ اس حدیث کی حکمت بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جو مسلمان خود تو پیٹ بھر کر کھائے لیکن اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے تواس کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں۔ ظاہر بات ہے جس اللہ نے بھوک و پیاس کی شدت کا احساس کرایا اور پھر غذا اور پانی بہم پہنچا کر اطمینان قلب نصیب فرمایا، اگر وہ دوسرے مستحق لوگوں پر رحم و کرم نہ کرے تو اس کے ایمان کا کیا اعتبار؟
تقوی یہ ہے کہ انسانیت کی خدمت ‘ اللہ واسطے انجام دی جائے۔ کسی بے لوث عمل کے لئے محرک صرف اللہ ہی کی ذات اقدس ہوسکتی ہے۔ لہذا جس قدر رب کی نعمتوں کا احساس ہوگا ‘بندہ اسی قدر اللہ سے اور اسکے بندوں سے قریب ہوتا جائے گا۔ چنانچہ رسول اللہ ؐ نے بیواؤں اور مسکینوں کیلئے دوڑ دھوپ کرنے والے کی مثال رات میں قیام اور دن میں روزہ رکھنے والے سے دی ہے ۔ یعنی رات میں قیام ‘ دل میں خدا کی محبت کا اظہار ہے تو دن میں بندگان خدا کی خدمت کے لئے دوڑ دھوپ‘خدا کی محبت کا حاصل ہے۔ اگر کوئی خدا سے محبت کرے اور بندوں سے نہیں تو اس کی محبت کا کوئی اعتبار نہیں۔ رمضان المبارک کے موقع سے جو جذبات اور کیفیات پروان چڑھتے ہیں وہ درحقیقت خدا کی محبت کو فروغ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں بندہ ‘ بندوں کی بے لوث خدمت کیلئے اپنے آپ کو لگا دیتا ہے۔

دولت کا بہاؤ

یوں تو صدقہ و خیرات ‘ ایک مسلمان کی عملی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہر حال میں انفاق کرنا پسند کیا گیاہے‘کھلے اور چھپے مال خرچ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔رمضان المبارک میں خرچ کرنے پر بطور خاص زور دیا گیا ہے۔چنانچہ جن لوگوں پر زکوۃ فرض ہے وہ اسی ماہ میں ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ زکوۃ کا سسٹم اصل میں دولت کے بھاؤ کا ایک فطری اور قابل عمل طریقہ ہے۔ زکوۃ ‘اصل کے اعتبار سے نشوونما اور پاکی کا عمل اپنے اندر رکھتا ہے ۔زکوۃادا کرنے سے وسائل میں برکت نصیب ہوتی ہے۔ مال کی زیادہ محبت اورحرص و لالچ سے دل پا ک ہوجاتا ہے۔ یوں زکوۃ کے ذریعہ دولت ‘ مال داروں کے پا س سے نکل کر غریبوں تک پہنچتی ہے۔ عوام کے درمیان خوشحالی اسی وقت آسکتی ہے جب کہ معاشرہ میں دولت کا بہاؤ ہو۔ دولت اگر چند لوگوں تک محدود ہو تو پھر غربت اور اس سے متعلق بے شمار مسائل معاشرہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آج دنیا کے سنگین مسائل کی اصل وجہ مال واسباب کی کمی نہیں بلکہ دولت کا ارتکاز ہے۔ آکسفام کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی آدھی غریب آبادی سے زیادہ دولت 2013 میں 388 لوگوں کے پاس تھی جبکہ 2015 میں صرف 62 لوگوں کے پاس ہے۔ یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ آنے والے سالوں میں اس میں مزید گراوٹ آسکتی ہے۔
وطن عزیز میں غربت و افلاس کا ایک اہم سبب ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اکثر دولت مندوں کی دولت غریبوں تک پہنچ نہیں پاتی۔ نہ ہی حکومت اس سلسلہ میں سنجیدہ نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ ہمارے ملک میں فلم اور کھیل کے میدان سے تعلق رکھنے والی ایسی بے شمار شخصیات ہیں جن سے ہماری عوام بے تحاشہ محبت کرتی ہے‘انہیں اپنا ہیرو تسلیم کرتی ہے۔ان شخصیات کے پاس دولت کی کثرت ہے لیکن یہ دیکھنے میں نہیں آتا کہ انہوں نے اپنی ہی چاہنے والی عوام پر اسے خرچ کیا ہویا ملک کے سنگین مسائل کو اڈریس کرتے ہوئے اپنے وسائل لگادیئے ہوں۔ سوائے چند کے بیشتر کا حال ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اپنی پوری دولت پر وراج مان ہیں۔اس پر ستم یہ کہ ہمارے ہاں کوئی احتسابی نظم نہیں کہ جس کے ذریعہ اس صورت حال کو چیک کیا جاسکے۔ اصل بات یہ ہے کہ خالق کی پہچان ‘دنیا کی حقیقت‘ انسان کا مقام ومرتبہ‘ زندگی کا مقصد‘ بندگان خدا سے تعلق کی نوعیت واضح ہو تو انسان کا ہر رویہ درست ہوسکتا ہے۔ کسی کوکہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو۔ خوب دولت کمائی جائے گی اور اس سے محبت بھی ہوگی لیکن صرف اللہ کے دین پر عمل کرنے کیلئے (ص:۳۲)۔ رمضان المبارک کا مہینہ اس لئے بابرکت اور عظیم ہے کہ یہ نہ صرف خدا کی صحیح معنوں میں بندگی کے لئے تیا ر کرتا ہے بلکہ معاشرہ کی بہتری اور انسانوں کی بے لوث خدمت کرنے والے خادموں کو بھی تیار کرتا ہے۔ایسے خادم جو خالق کی بندگی اور مخلوق کی خدمت کیلئے ہر وقت تیاروآمادہ رہتے ہیں۔

اظہار تشکر

رمضان کے روزوں کی فرضیت اصل میں اظہار تشکر کا ایک عمل ہے(سورہ البقرہ۱۸۵)۔ اس ماہ مبارک میں اللہ رب العزت نے ساری انسانیت کی ہدایت و فلاح کے لئے قرآن کریم نازل فرمائی۔ یہ کتاب ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جنہیں انسان جمع کرتا ہے اور جمع کرنے کی کوشش میں اپنی ساری عمر کھپادیتا ہے۔ دنیوی چیزیں ‘دنیا کی حد تک ساتھ دیتی ہیں جبکہ اس کتاب کی تلاوت اور اس پرعمل دنیا کی زندگی میں عزت وراہنمائی اور دنیا کے بعد کی زندگی کے لئے باعث نجات بنتا ہے۔رمضان المبارک میں خالق کی بندگی اور انسانوں کی خدمت کے لئے جو جذبات اور کیفیات بیدار ہوتی ہیں انہیں مزید نکھارنے اور صحیح رخ دینے کیلئے قرآن کریم ہی سے ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ گرچہ روزے صرف ایک مہینے کے ہوتے ہیں لیکن ان کے ذریعہ حاصل ہونے والا تقوی بقیہ ایام کیلئے اس کتاب عظیم سے راہنمائی حاصل کرنے کا زور دار محرک بنتا ہے۔ قرآن کریم نہ صرف انسان کے مقصد زندگی کی وضاحت کرتا ہے بلکہ ایک پرامن اور صحت مند معاشرہ کی تعمیر کے لئے رہنما اصول بھی پیش کرتا ہے۔ معاشرہ سے برائیوں کے ازالہ اور نیکیوں کے فروغ کے لئے ایک دوسرے سے تعاون دینے اور لینے کی ترغیب دلاتا ہے۔لہذا جب تقوی کی یہ کیفیات اور انسانی ضروریات‘ قرآنی ہدایات سے ہم آہنگ ہوجائیں توفرد اور معاشرہ کی ترقی ہر لحاظ سے یقینی بن جاتی ہے۔ انسانوں کی کامیابی و ترقی کیلئے بس یہی قرآن کریم ایک معیار ہے(اِنَّ اللّٰہَ یرْفَعُ بِھٰذَاالْکِتَابِ اَقْوَاماً) جس طرح دن نکلنے کے لئے سورج کا طلوع ہونا ایک معیار ہے۔

معاشرہ کی تعمیر نو کے لئے تیا ر ہوجائیے

رمضان المبارک کے ان فیوض و برکات کا صحیح معنوں میں شعور ہونا چاہئے اور انہیں باقی رکھنے اور ان کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگی گذرانے کی منظم کوشش بھی ہونی چاہئے۔ اُس معاشرہ کی خوش قسمتی کے کیا کہنے کہ جس کی اصلاح اور تعمیر نو کیلئے خود اللہ رب العزت اپنے مسلم بندوں کو ایک خاص اور کڑی تربیت سے گذارتے ہوئے تیار کرتا ہے تاکہ وہ ہر حیثیت میں انسانوں کی بھلائی کیلئے مصروف کار رہیں اور معاشرہ کو امن و ترقی کا گہوارہ بنائیں۔

انسانوں کی راہنمائی و رہبری کا یہ انبیائی کام‘ زبردست مجاہدہ ‘ صبر‘عزو حوصلہ اور بصیرت و حکمت کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ بڑا بلند پایا کام ہے لہذا اسی کے شایان شان ایک ماہ کی مسلسل تربیت سے گذارا جاتا ہے‘عظیم کام کیلئے عظیم طریقۂ تربیت ۔اس کے گہرے یقین کے علاوہ انسانوں کی راہنمائی کا کام اللہ رب العزت سے بہر حال حسن ظن کا تقاضہ کرتا ہے ۔ عام حالات میں رب کا شکر بجالانے کیلئے راتوں میں کھڑے ہونا‘ پیروں پر ورم آجانا‘ اسوہ رسول اللہؐ ہے۔ جبکہ ابتر حالات ہوں تو لبوں پر لَاتَحْزَن اِنَّ اللّٰہ مَعنَا جاری ہوجانا اور صبر کا دامن تھامے اپنی کوششیں جاری رکھنا بھی اسی اسوہ حسنہ ؐ کی تعلیم ہے۔ دنیا کی موجودہ صورت حال امت مسلمہ سے ایک مثالی تعلق باللہ کو یقینی بناتے ہوئے راتوں کا راہب اور دن کا شہسوار بننے کا مطالبہ کرتی ہے۔ رمضان کی عبادتوں سے یہ کیفیات لازماً رونما ہونی چاہئے کہ ہم راتوں میں اللہ کے حضور کھڑے رہنے والے اور دن کی جدوجہد میں اللہ ہی کو ولی اور کارساز مانتے ہوئے انسانوں کی تقدیر سنوارنے اور معاشرہ کو امن و ترقی کا گہوارہ بنانے کیلئے جٹ جائیں۔

تبصرے بند ہیں۔