رمضان کے آخری عشرہ کی قدر کیجئے!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری 
رمضان المبارک کے بابرکت ایام بڑی تیزی کے ساتھ گذررہے ہیں ،نورانی ماحول کی ساعتیں ،عبادت و اطاعت کی گھڑیا ں ختم ہوتی جارہی ہیں ۔اور رمضان المبارک اپنے آخری عشرے میں داخل ہونے والا ہے ۔مسلمان ابتدائے رمضان ہی سے اپنی بساط بھر عبادتوں کی فکر کرتے ہیں ،تلاوتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور رمضا ن کے بابرکت دنوں کو گذارتے ہیں ،محنت کرتے ہوئے اعمال کو انجام دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ۔رمضان المبارک کے تین دہوں کی تقسیم خود نبی کریم ﷺ نے فرمائی اور ایمان والوں کو ان عشروں کی قدر دانی کی تعلیم دی ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ : رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمتوں کا ہے ،دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی ہے ۔یوں تو پورے رمضان کا بھر پور اہتمام کرنا لازمی ہے ،کیوں کہ اس کا ہر لمحہ اور سیکنڈ الطاف و عنایات اور انوار و رحمتوں کا ہے ،دن و رات میں اللہ تعالی کی رحمتیں برستی رہتی ہیں اور بندگانِ خدا کو سیراب کرتے رہتی ہیں۔بڑا عجیب و غریب نظام ہے جو رمضان المبارک میں چلایا جاتا ہے اور خا ص کر جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا ہے تو گویا تجلیات اور عنایات کا سیل رواں جاری ہوجاتا ہے اور بخشش و عطا ،عفو در گذرسے دن و رات منور ہوجاتے ہیں ۔آخری عشرے کے داخل ہوتے ہی نبی کریم ﷺ کے معمولات اور عبادات میں بھی غیر معمولی اضا فہ ہوجاتا ہے اور پورے اہتمام کے ساتھ آپ ﷺ آخری عشرہ میں عبادات انجام دیا کرتے ہیں ۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ: کان رسول اللہ ﷺ اذا دخل العشر شد میزرہ واحیی لیلہ وایقظ اھلہ ۔( بخاری:1894)کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ آتا تھا تو آپ ﷺ اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیتے تھے اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو ( عبادت کے لئے ) جگاتے تھے ۔ایک حدیث میں بیان کیا گیا کہ :کان رسول اللہ ﷺ یجتھد فی العشر الاواخر مالا یجتھد فی غیرہ ۔( مسلم:2016)آپ ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں جتنی محنت کرتے تھے اس کے علاوہ میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے ۔رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کو اچھے انداز میں گذارنے اور ان کی مکمل قدر دانی کرنے اور عبادتوں میں صرف کرنے کا طریقہ بھی آپ ﷺ نے بتایا کہ کیسے اس عشرے کو گذارا جائے ؟ضرورت ہے کہ آپ ﷺ کے بتا ئے ہوئے طریقہ کے مطابق گذارنے کی فکر کی جائے ۔
اعتکاف:
نبی کریم ﷺ آخری عشرے میں اعتکاف کا اہتمام فرمایا کرتے تھے ،اور آخری عشرہ کا اعتکاف اس عشرہ کی رحمتوں سے فیضاب ہونے بہترین ذریعہ ہے ۔آپ ﷺ اس عشرہ میں اعتکاف کا جو اہتمام فرماتے تھے اس کے بارے میں حضرت عائشہؓ فر ماتی ہیں کہ :نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی ،پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔(بخاری:1896)آپ ﷺنے اپنی زندگی میں ہمیشہ رمضان میں اعتکاف کا اہتمام فرمایا ،اور اعتکاف کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ :جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایک دن کا (بھی ) اعتکاف کرے گا تو اللہ تعالی اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنادیں گے،جن کی مسافت آسمان وزمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہوگی۔(شعب الایمان للبیہقی:3667) ایک حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ:جو شخص رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرے تو اس کا یہ عمل دو حج اور دو عمروں جیسا ہوگا۔( المعجم الکبیر للطبرانی:2821)بہر حا ل نبی کریم ﷺ نے اس کے علاوہ بھی اعتکاف کے فضائل بیان فرمائے تاکہ اس کا اہتمام کیا جائے اور اس کے اہتمام کے ذریعہ آخری عشرے کی رحمتوں اور برکتو ں سے دامن کو بھرا جائے ۔مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں کہ :پھر اعتکاف کی خصوصیت یہ ہے کہ جب تک انسان حالت اعتکاف میں ہو اس کا لمحہ لمحہ عبادت میں لکھا جاتا ہے،اس کا سونا ،اس کا کھانا پینا اور اس کی ایک ایک نقل و حر کت عبادت میں داخل ہوتی ہے ۔اور رمضان شریف میں اعتکاف مسنون کی حکمت بھی یہی ہے کہ شبِ قدر کی فضیلت سے فائدہ اٹھا نے کا یقینی طریقہ اعتکاف سے بڑھ کر کوئی نہیں۔( احکامِ اعتکاف:7)اس لئے آخری عشرے سے کماحقہ فائدہ اٹھا نے کے لئے اعتکاف کا اہتمام کرنا چاہیے۔آخری عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے جو بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن سورج غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند ہونے تک باقی رہتاہے۔( ماہِ رمضان کے فضائل و مسائل:282)
تلاشِ شب قدر:
شبِ قدر جیسی نہایت عظیم الشان اور قیمتی رات بھی اللہ تعالی نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں رکھی ہے ،جس کی عظمت و اہمیت کو اللہ تعالی نے خود قرآن کریم میں بیان فرمایا کہ یہ رات ایک ہزار راتوں سے افضل و بہتر ہے ۔یعنی اس رات کو عباد ت کرنے والے کو تراسیّ سال سے زائد عباد ت کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔اس رات کو اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ،جبرئیل امین فرشتوں کی جماعت کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں ،اور جتنے اللہ کے بندے مرد و عورت کھڑے ہوئے یا بیٹھے ہوئے اللہ تعالی کے ذکر و عبادت میں مشغول ہوتے ہیں سب کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں ۔( بیہقی 3434)شب قدر بطور خاص امت محمدیہ کو ملی ہے اس سے قبل ایسی اجر و ثواب والی رات کسی کو عطا نہیں کی گئی ۔ایک حدیث میں آ پ ﷺ نے فرمایا کہ :بلاشبہ اللہ تعالی نے خاص میری امت کو شبِ قدر عطا فرمائی ہے اس امت سے پہلے کسی کو بھی نہیں عطا فرمائی ۔(الدر المنثور:15/540)اللہ تعالی نے کسی ایک متعین رات کے بجائے شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتو ں میں رکھ د یا تاکہ بندے پورے عشرے کا اہتمام کرکے اس رات کو تلاش کرنے میں اور اس کو پانے کی کوشش میں لگے رہیں ۔اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :شبِ قدر کو کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس میں سے طاق راتوں میں۔(بخاری:1887)اس حساب سے آخری عشرے کی طاق راتیں 21،23،25،27،29 کی ہوں گی۔شبِ قدر جو نہایت عظمتوں والی اور رحمتوں والی رات ہے جس مین عبادت کرنے والے کو بے پناہ اجرو ثواب ملتا ہے ،اتنی عظیم رات ہونے کے باوجود اللہ تعالی نے اس کی تعیین کو اٹھا دیا اور کسی مخصوص رات میں عبادت کرنے کے بجائے پورے عشرے کو عبادتوں سے گذارنے اور تلاش شب قدر کی فکر میں لگے رہنے کا حکم دیا ،اس کی علماء نے بہت سی حکمتیں بیان کی ہیں ۔جن میں چند یہ ہیں: جتنی راتیں اس کی طلب اور جستجو میں خرچ ہوتی ہیں ان سب کا مستقل علیحدہ ثواب ملتا ہے ،اگر رات کو متعین کردیا جاتاتو بہت سے ناقص طبیعتیں دوسری راتوں کا اہتمام چھوڑدیتی اور کئی راتوں میں عبادت کے ثواب سے محروم ہوجاتی ،وغیرہ وغیرہ ۔( شبِ قدر :28)اس رات سے محروم رہنے والے کو نبی کریم ﷺ نے سارے خیر و بھلائی سے محروم رہنے والا قرار دیا ۔( ابن ماجہ:1634)ایک مکمل عشرہ اللہ تعالی نے عبادتوں کو انجام دینے اور جی لگا کر اعمال خیر کرنے کے لئے رکھا ،اب عشرۂ اخیرہ کا حقیقی تقا ضا یہی ہے کہ اس کو اس رات کے تلاش میں گذارا جائے ،اور امکان بھر عبادتوں میں لگے رہیں ۔شب قدر سے محروم رہ جانے والے کو نبی کریم ﷺ نے حقیقی محروم قرار دیا ہے ،شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ لکھتے ہیں کہ:حقیقۃ اس کی محرومی میں کیا تامل ہے جو اس قدر بڑی نعمت کو ہاتھ سے کھودے ،ریلوے ملازم چند کوڑیوں کی خاطر رات رات بھر جاگتے ہیں اگر اسّی برس کی عبادت کی خاطر کوئی ایک مہینہ تک رات میں جاگ لے تو کیا دقت ہے اصل یہ ہے کہ دل میں تڑپ ہی نہیں اگر ذرا سا چسکہ پڑجائے تو پھر ایک رات کیا سینکڑوں راتیں جاگی جا سکتی ہیں ۔( فضائلِ رمضان:604)
ہمارا معاشرہ :
آخری عشرہ کو بہت ہی اہتما م سے اور پوری لگن وجستجو کے ساتھ گذارنے کی ضرور ت ہے ،عبادتوں ،تلاوتوں ،ذکر اذکار ،دعا و مناجات میں بسر کرنا چاہئے ،یہ تو نیکیوں کے موسمِ بہار کا اختتامی دور ہوتا ہے ،جیسا کہ سیزن کے اختتام پر لوگ دن رات محنت کرتے ہیں ،پوری کوشش و فکر کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں ،ہر طرح کے آرام و راحت کو قربان کرکے مشقت اٹھاتے ہیں اور یہ سوچتے ہین کہ تھوڑی سی مشقت ہے پھر سال پورا آرام ہی آرام ہوگا ،،ٹھیک اسی طرح رمضان کا آخری عشرہ نیکیوں کے موسم کا اختتا می زمانہ ہوتا ہے ،جس میں نیکیوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور اجر و ثواب ،عطا و بخشش ،عفو در گذر،جہنم سے خلاصی اور توجہات ربانی اور عنایاتِ الہی کی گرم بازی ہوتی ہے ،ایسے عظیم عشرہ کو ہم بڑی بے قدر اور لاپرواہی کے ساتھ ضائع کردیتے ہیں ۔اول تو بہت سے لوگ سہولتوں اور آسانیوں کے باجود بھی اعتکاف نہیں کرتے ،اور نہ اس کی اہمیت و ضرورت کو سمجھتے ہیں ،اور طاق راتوں کو بھی روایتیں اندازمیں چند بیانات یا تقاریر کے سننے تک محدود کرلیتے ہیں ۔اور بے شمار لوگ وہ ہیں جو آخری عشرے کو خریداری کا عشرہ بنائے ہوئے ہیں ،بازار آباد ہوجاتے ہین ،خرید و فروخت کی دھوم مچی ہو تی ہے ،بازار مسلمان مرد و خواتیں سے بھرے ہوتے ہیں اور ہر طرف ایسا لگتا ہے کہ گویا آخری عشرہ خریداری کے لئے آیا ہے۔مسلمان کاروباری کاروبار کی دھن میں اہم اہم عبادتوں تک چھوڑدیتے ہیں اور لوگ خریداری کی فکر میں اعمال سے غافل ہوجاتے ہیں۔کس قدر محرومی اور بد نصیبی کی بات ہے کہ جو رمضان ہمیں نیکیوں سے مالامال کرنے کے لئے آیا تھا اور جس کی ہر گھڑی اور ہر ساعت مین رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو تا ہے ،اللہ تعالی کی خصوصی توجہ بندوں کی طرف ہوتی ہے ،اور ہر نیک کام کے اجر و ثواب کو بڑھا کر دیا جاتا ہے ایسے مہینہ کو سستی و غفلت اور کاہلی میں گذاردیا جاتاہے اور بالخصوص جو عشرہ اپنے اختتام پر رحمتوں کو لٹانے اور عطا وبخشش سے سرفراز کرنے لئے آتا ہے ہم لوگ اس کو بازروں کی نذر اور غیر ضروری مشاغل اور لایعنی کاموں مین ضائع کردیتے ہیں۔
اس لئے ضرور ی ہے کہ رمضان المبارک کے باقی ایام کی قدر کی جائے اور عشرۂ اخیر ہ کو پورے اہتما م کے ساتھ گذارا جائے ،تلاوت قرآن ،ذکر و دعا کا التزام کیا جائے ،جو کچھ کمی گذشتہ دنوں میں ہوگئی اور جو لاپرواہی ابتدائی ایام میں ہوئی اس کی مکمل تلافی کے لئے آخری عشرہ کو پوری فکر اور تڑپ کے ساتھ بسر کیا جائے تو انشاء اللہ اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہمارے دامن میں بھی آئیں گی ،اور الطاف و عنایا ت
کے ہم بھی حق دار بنیں گے ،بخشے ہوئے بندوں اور نوازے گئے انسانوں میں ہم میں شامل ہوں گے۔

تبصرے بند ہیں۔