یوروپی یونین سے علیحدگی کا برطانوی ریفرینڈم – مسلم قوم کے لئے ایک آئینہ

یاسر محمود

بر اعظم یوروپ کے 28 ممالک پر مشتمل مختلف معاشی, سماجی, سیاسی, تجارتی, تعلیمی, سیاحتی اور آزادانہ نقل و حمل پر مبنی مستقل اور فعال قوانین رکھنے والی اپنے عالمی اثرات کی حامل تنظیم "یوروپی یونین” میں سے ایک بڑے اور تاریخی مستقل ممبر برطانیہ کی علیحدگی کیلئے برطانوی عوام کے ذریعہ 23 جون 2016 کو ریفرینڈم کرایا گیا. برطانیہ کے اندر سیاسی, سماجی و قانونی ماہرین اور مختلف سماجی تنظیموں مختلف فورمز پر یوروپی یونین سے علیحدگی کے موضوع بحث بن جانے اور اسکے مطالبہ کے زور پکڑ جانے کے بعد برطانوی حکومت اور وزیر اعظم کے ذریعہ انکی یوروپی یونین میں رہنے کی شدید خواہش کے باوجود 20 فروری کو برطانوی وزیر اعظم کے ذریعہ جون میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا گیا.
پورے یوروپ پر اثر انداز ہونے والے اس ریفرینڈم کو برطانوی تاریخ کا سب سے بڑا فیصلہ اور یوروپی یونین کا ایک ٹرننگ پوائنٹ قرار دیا گیا. اس ریفرینڈم کے نتائج یوروپی یونین سے علیحدگی کی حق میں آنے پر اس بارے میں کہا گیا کہ یہ پوروپ کی تاریخ بدل دیگا.
برطانوی عوام نے عام انتخابات کے برخلاف اس ریفرینڈم میں زیادہ پرجوش انداز سے حصہ لیا. اور رائے دہندگان کا فیصد عام انتخابات سے کہیں زیادہ 72 فیصدی رہا.
امریکی صدر براک اوبامہ کے انکے دور حکومت کے آخری دورہ برطانیہ کا یہ خصوصی موضوع رہا اور انہوں نے برطانوی عوام سے یوروپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دینے کی پرزور اپیل کی.
اس ریفرینڈم کی جو بات سب سے خاص اور یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ یوروپی یونین, یوروپ کے ساری بڑی طاقتوں فرانس, جرمن, آسٹریا وغیرہ, عالمی سپر پاور امریکہ, آئی-ایم-ایف کے صدر, یوروپی کونسل کے صدر, ورلڈ بینک کے سربراہ, جی 20 ممالک, اور خود برطانوی وزیر اعظم کے برطانوی عوام سے یوروپی یونین میں برطانیہ کے باقی رہنے (Remain) کے حق میں ووٹنگ کرنے کے بار بار مطالبات, اپیلوں اور ریلیاں کرنے کے باوجود نتائج برعکس حاصل ہوئے اور برطانوی عوام نے 48 فیصدی کے مقابلہ 52 فیصدی برطانیہ کے یوروپی یونین چھوڑ دینے (Leave) کے حق میں ووٹنگ کی. اسطرح یہ ریفرینڈم برطانوی حکومت, وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون, عالمی طاقتوں, یوروپی یونین,-فرانس, جرمن, آسٹریا, پرتگال, اٹلی اور دیگر یوروپی ستائیس ممالک, امریکہ, ورلڈ بینک, آئی-ایم-ایف اور جی 20 کی خواہشات اور مطالبات اور انکی کوششوں کے برخلاف برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی کے طور پر انکے لئے ایک بڑا دھچکہ ثابت ہوا.

برطانوی ریفرینڈم اور مسلم ذہن:
آج ایک صاحب قلم – اے وحید مراد نے لکھا:
"برطانیہ نے اپنی روایت برقرار رکھی_
نتائج کی پروا کئے بغیر کہ پیچھے رہنے والوں کا کیا ہوگا برطانیہ نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے یوروپی یونین کو چھوڑ دیا بر صغیر پاک و ہند میں بھی یہی کیا تھا یعنی برطانیہ ہمیشہ گند کرکے جاتا ہے -” (اے وحید مراد)

مراد صاحب کا یہ تبصرہ صرف انکی طبع و رجحان اور تجزیاتی صلاحیت ہی کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ مسلم دانشوران کی ذہنی, فکری و تجزیاتی سطح اور اپروچ (Muslim Mindset) بھی بس یہی اول و آخر ہے. اس بات سے صرف نظر کہ اس تبصرہ میں برطانوی عوامی جمہوری فیصلہ کو ایک حکومتی صوابدید پر منحصر شخصی یا جماعتی فیصلہ مانتے ہوئے تبصرہ کردیا گیا جبکہ خود حکمراں جماعت اس فیصلہ کے برخلاف یوروپی یونین میں بقا چاہتی تھی اور اس کے لئے عوامی تائید کیلئے خود وزیر اعظم اس میں مصروف تھے… مراد صاحب کی اس تحریر اور تبصرہ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہیکہ عملا پوری یوروپی یونین کو برطانیہ ہی سنبھال اور چلا رہا تھا. اب اتنے طویل عرصہ کے بعد بھی باقی سارے یوروپ (27 ممالک) میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ برطانیہ کی انگلی پکڑے بغیر نہیں چل سکتے تو انہیں چھوڑدینا ہی اچھا ہے.
ہند و پاک کا بھی یہی معاملہ ہے. آج یہاں ہندوستان میں:
الف- جو برداشت, مساوات, انسانی حقوق اور جمہوری اقدار تھوڑی بہت پائی جاتی ہیں…..یا
ب- جو کچھ حکومتی نظام و طریقہ کار-مقننہ, وزارتی نظام, اعلی و شہری انتظامیہ یا ایڈمنسٹریشن , عدالتی سسٹم (Judiciary), سکیورٹی سسٹم اور محکمہ جاتی سسٹم اور خاصکر پرائمری و اعلی تعلیمی نظام (Primary And Higher Education System) پایا جاتا ہے اور جو اسکا جوابدہی (Accountability) کا اصولی نظام ہے…….یا
ج- ریلوے, روڈز, اسکولز, یونیورسٹیز, جوڈیشیری…. وغیرہ کا جتنا کام 1947 تک ہوگیا تھا_جو اگر مابعد عہدِ برطانیہ-ہند اپنی اُسی رفتار سے جاری رہتا تب بھی آج برصغیر ہند و پاک اِسوقت سے کم از کم سو سال آگے ہوتا__یہ سارا کا سارا برطانیہ کا تیار کردہ ہے. اور آج ہم علاقائی و لسانی اور قومی غیر فطری بنیادوں پر آزادی کے 70 سال بعد مستقل کرپشن, جہالت, ناانصافی, غیر شفافیت, عدم جوابدہی, عدم مساوات, مستقل بے روزگاری, بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی, اظہار رائے پر ماحولیاتی پابندی, مستقل علاقائی و لسانی تصادمات, مستقل باہمی قومی تعصبات و تصادمات, مستقل باہمی مذہبی و مسلکی تعصبات اور نفرتیں…..وغیرہ نے یہ ثابت کردیا ہیکہ ہم بھی برطانیہ کی انگلی پکڑے بغیر تھوڑا سا بھی آگی نہیں چل سکتے. یہ ایک واقعاتی حقیقت ہے بھلے ہی ہند و پاک کے عوام برطانوی عہد کی اصولی و شعوری اساس کے بجائے محض علاقائی, لسانی اور قومی بنیادوں پر مخالفت کرتے رہے ہوں.
حقیقت کچھ یوں لگتی ہیکہ بر صغیر کے عوام نے برطانیہ سے آزادی نہیں بلکہ برطانیہ نے ان سے آزادی حاصل کی تھی.

یہ تو ہوئی اس مخصوص تبصرہ کی بات… اب آئیے برطانیہ کے یوروپی یونین سے علیحدگی کے اس طویل سماجی, حکومتی, تکنیکی و قانونی حل اور اسکے طریقہ کار یا پراسِس کا داخلی تجزیہ کرتے ہیں جس سے مسلم ممالک-مملکت اسلامیہ سعودی عرب, اسلامی جمہوریہ ایران, مملکت خداداد پاکستان……ودیگر, مسلم شاہی و ملوکی عربی تاریخ, مسلم شاہی عربی ملوکی فیصلوں کی تاریخ اور طریقہ کار کا تقابلی جائزہ بھی سامنے آجائیگا جس پر مسلم قوم فخر و افتخار میں زمین آسمان کے قلابے ایک کرتی رہتی ہے:
1- برطانیہ کی حکمراں جماعت اور خاصطور سے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی یوروپی یونین کا حصہ بنے رہنے (Remain) کی شدید خواہش اور حکومتی معاشی ضرورت کے باوجود ایک جوابدہ اور عوامی نظام حکومت(Autos Accountable Public Governing System) میں اس بڑے فیصلہ کو عوام پر مسلم ممالک (خاصطور سے سعودی عرب اور ایران و پاکستان) کی طرح
(1) بالجبر و ملوکانہ….یا
(2) قانونی راستہ سے….یا
(3) مقدس مذہبی فریضہ بتاکر اور مذہبی لبادہ پہناکر اسے مذہبی ضرورت قرار دیکر
مسلط کرنے کے بجائے حکومتی پسند اور حکومتی ضرورت کے باوجود اسکے لئے عوامی ریفرنڈم کرایا گیا. اس کو عوامی عدالت میں رکھنے کے بعد ملک کی حکمراں جماعت اور خود وزیر اعظم دَر دَر اسکی مہم چلاتا پھرا اور لوگوں کی کاؤنسلنگ کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ یوروپی یونین میں برطانوی بقا (Remain) کے حق میں ووٹ دیں.

2- عوامی ریفرینڈم میں حکومت اور خود وزیر اعظم کے برخلاف نتائج (Leave) آنے پر حکمراں جماعت یا وزیر اعظم نے کلی طور سے اپنے بر خلاف اکثریت میں عوامی رائے کا کسی بھی ملوکانہ عربی قسم کے تردد یا انکار و سرزنش کے بغیر مکمل احترام کرتے ہوئے نہ صرف اسے تسلیم کیا بلکہ غیر معمولی انداز سے برطانیہ کے معاشی نقصان اور حکومت کے مخالف فیصلہ آنے کے باوجود اسے برطانیہ کے عوامی ریاست اور عوامی رائے کی آزادی اور عوامی احترام کی علامت قرار دیتے ہوئے اسے ریاست کی کامیابی کی طرف ایک قدم اور علامت قرار دیا.

3- برطانوی وزیر اعظم نے اپنی مستقل دَر دَر مہم چلاکر عوام سے اپنے فیصلہ کی تائید کرنے کی اپیل کے باوجود مخالف فیصلہ آنے پر اپنی رائے اور مرضی کے مخالف ریفرینڈم کے نتائج کا وزیر اعظم نے اس حد تک احترام کیا اور اس تعلق سے جوابدہی محسوس کی کہ اب اس عوامی فیصلہ یعنی
"یوروپی یونین سے علیحدگی کے تکنیکی عمل کی دوسالہ عرصہ میں مرحلہ وار تکمیل”
کے اپنے فرض کی ادائیگی میں اس کا امکان ہیکہ وہ کسی نہ کسی حد تک اپنی رائے عوامی اکثریت کے برخلاف ہونے کی وجہ سے کہیں کوتاہی کرجائیں یا اس عمل کو معیاری طور سے تیز رفتاری کیساتھ انجام دینے میں کوتاہ ثابت ہوجائیں اس لئے وہ اپنے عہدہ پر اب مزید برقرار رہنے کے اخلاقی مجاز نہیں (جبکہ قانونا کوئی دشواری نہیں) لہذا وہ استعفی دیرہے ہیں. اور ایسا نہیں ہیکہ وہ عوام سے مخالف ووٹنگ کرنے پر ناراض ہوں اور عدم برداشت کے تحت فورا استعفی دیرہے ہوں بلکہ وہ استعفی تین ماہ بعد اکتوبر میں دینگے اور ان تین ماہ میں ملک و جماعت اس فریضہ کی ادائیگی کیلئے موزوں ترین شخص کا انتخاب کرلے.

یہاں اس پورے عمل کو اس قدر وضاحت کیساتھ پیش کرنے کا مقصد یہ ہیکہ اگر یہی کام یا اسکا نصف بھی اس نوعیت کا کوئی عمل کسی مسلم ملک و حکومت نے کیا ہوتا تو عربیت اور ایرانیت زدہ یہ عربی اور ایرانی قوم اسکو ایک مقدس عمل، مذہبی آسمانی مثالی عمل اور نبوی نہاد قرار دیکر اسکو دیگر اقوام کے مقابلہ قومی تقابلی افتخار کا ذریعہ بناتی اور اسکا رات دن ہر فورم پر پرچار کررہی ہوتی. حتی کہ اسکو صحابہ اور انبیاء سے تک جوڑ دیتی. مسلم تاریخ میں اسی نوعیت کے ماضی کے معمولی سے معمولی ترین متعدد اقدامات پر بھی عربیت/ایرانیت مارگزیدہ (Arabian/Iranian-Virgout) اس قوم کے مذہبی و عصری دانشوران دن رات سینہ چوڑا کرتے رہتے ہیں….!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔