روزہ اور افطار

سیدہ تبسم منظور

رمضان المبارک کا ہر پل بہت قیمتی ہوتاہے اور ہر نیک عمل کااجر وثواب کئی گنا ملتا ہے۔ رمضان المبارک ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں اور سعادتوں سے مالا مال ہونے کا مہینہ ہے۔ عام دنوں کے مقابلے میں رمضان المبارک میں کئے گئے اعمال کا اجرو ثواب بھی کئی گنا زیادہ ملتا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے رمضان کے افطار اور سحر والے اعمال سے متعلق جو ارشاد فرمایا ہے وہ ہر مسلمان کیلئے نمونۂ عمل ہیں جس سے مومنین بہت سارے خیر کو حاصل کرسکتا ہے۔

  چونکہ افطار کروانے کا ثواب بہت زیادہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو یہ موقع عطا فرماتا ہے انہیں دوسروں کے لیےافطار کا اہتمام کرنا چاہئے مگر دکھاوا اور ریاکاری سے پاک۔ بے غرض اور بے لوث ہو کر یہ کام کریں تو اس طرح کے افطار پر اللہ تعالیٰ بے حساب اجر عطا فرماتے ہیں۔ آج کل عام طور پر افطار پارٹیاں ضرورت اور مفادات کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں۔ بس دکھاوا کیا جاتا ہے۔ محلے میں پاس پڑوس میں کسی کے گھر میں افطار کا اہتمام ہے بھی یا نہیں، اس سے اب کسی کوکوئی فرق نہیں پڑتا بس اپنے مفاد کے حصول کے لیے ایسی پارٹیاں ضرور ہوتی ہیں۔

  اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ اس کی راہ میں کتنی مقدار میں دیا گیا ہے ، وہاں تو معیار دیکھا جاتا ہے،نیت کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر اخلاص کے ساتھ ثواب کی نیت کے ساتھ خرچ کیا تو چاہے وہ کتنا بھی تھوڑا ہی کیوں نہ ہو،  صدق دل سے ایک نوالہ بھی خرچ کیا تو بارگاہِ الٰہی میں شرف قبولیت عطا ہوجاتی ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان بہت کچھ مال و دولت اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے مگر لوگوں کو دکھانے کے ارادہ سے خرچ کرتا ہے تو مقدار میں بھلے ہی زیادہ ہو ، اس کے باوجود بھی ثواب سے محروم کردیا جاتا ہے۔جو شخص حلالِ رزق میں سے اور نیک نیت کے ساتھ رمضان میں روزہ افطار کروائے تو اس پر رمضان کی راتوں میں فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔کئی لوگ تو اپنا مفاد پورا کرنے کی غرض سے افطار پارٹیاں کرتے ہیں۔ کسی نہ کسی مقصد کے تحت یا کسی لالچ کے لئے افطار پارٹیاں کرتے ہیں۔ آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ ایسی افطار پارٹیاں ثواب کے اعتبار سے مالامال ہوتی ہوں گی یاایسی افطار کا کوئی ثواب ملتا بھی ہوگا۔

رمضان المبارک میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اجتماعی عبادت کے ساتھ جوڑدیا ہے۔ بڑے سے بڑا ،امیر ،دولتمند، مفلس ،غریب مسلمان ہو روزہ کے عمل میں سب ایک برابر ہیں ۔افطار کا وقت روزہ افطار کروانے کا حکم سب کیلئے یکساں اور برابر ہے۔افطار کروانے کی فضیلت کا مقصد یہ ہے کہ دولت مند انسان کو یہ احساس دلایا جائے کہ تم صرف اپنی فکر میں نہ رہو بلکہ تمھارے جیسے ہی انسان تمھارے بھائی جن کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت کم دیا ہے ،جو غریب ہیں، ان پر اپنی دولت خرچ کرو صرف اور صرف اللہ کی رضا کیلئے ۔اور جو عمل صرف اللہ کی رضا کے لئے ہو وہی ہماری نجات اور مغفرت کا ذریعہ ہوگا۔

  آج کل یہ بات عام ہوگئی ہے اور افطار کروانے یا افطاری بھیجنے کا فیشن چل پڑا ہے ۔ایک کے پاس سے دوسرے کے پاس افطاری بھیجنے کا معمول بن گیا ہے۔اور ایسا نہیں کہ کسی غریب کے یہاں پہنچائی جاتی ہے بلکہ امیروں کے گھروں میں ہی جاتی ہیں۔ جیسے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہوں۔ کس نے کتنا بھیجا۔۔۔اور کیا کیا بھیجا۔۔۔ تو اس سے زیادہ بھیجنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس طرح توافطار کا اصل مقصد اور ثواب ملے گا کیا؟؟؟ افطار کا مقصد دکھاوا کرنا تو نہیں ہے بلکہ اپنی اپنی مغفرت کا سامان حاصل کرنا ہے۔کئی بار تو ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ پڑوس میں غریب ہیں جن معصوم بچوں کو ٹھنڈا پانی بھی نصیب نہیں ہوتا ۔ وہ اپنے لیے افطار کا اہتمام بھی نہیں کرپاتے۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ایسے لوگوں کے یہاں کبھی بھی افطاری نہیں بھیجی جاتی بلکہ دور دراز امیروں کے یہاں پہنچانے کی فکر کی جاتی ہے جن کے دسترخوان پر پہلے ہی انواع و اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں۔پڑوس کے غریب مجبور کو چھوڑ کر مسجد میں بھیج دی جاتی ہے۔ ارے مسجد میں بھی بھیجیں اور غریب پڑوسیوں کے یہاں بھی۔ مسجدوں میں بھیجنا ثواب کا کام ہے توغریب کو افطار کروانا بھی تو ثواب کا کام ہے۔ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم روزہ افطار کرانے کے مقصد کی روح تک پہنچیں۔ افطار کروانے کے اصل مقصد کو تلاش کریں۔کیا کسی غریب کو اور وہ بھی پڑوسی کوافطار میں خرچ کرنا زیادہ ثواب کا کام نہیں ہے کیا؟؟

 اگر آج ہم موجودہ دورکی افطار پارٹیاں دیکھیں اور ان کے مقصد اور ان میں شریک لوگوں کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ہر نیکی ، ہر عبادت ،ہر ثواب میں جیسے ملاوٹ کر دی ہو۔ ہمارے افطار کرانے کے عمل سےاب غریب ، یتیم، محتاج، مزدور دور ہوگئے ہیں۔ وہ لوگ تو نظر ہی نہیں آتے۔  ہماری افطار پارٹیوں میں زیادہ تر محلے کے بڑے بڑے اور خوشحال امیر لوگ موجود ہوتے ہیں۔ کیا ایسا کرنے سے ہمیں ثواب حاصل ہوگا؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے دسترخوان کو اور وسیع کرلیں۔ یا اگر ہم ایسے مستحق لوگوں کو بلا نہیں سکتے تو وقت سے پہلے ان کے گھروں تک چپ چاپ افطاری کا سامان پہنچا دیں۔ پہلے سے ہی پتہ کرلیا کہ گلی محلے میں کون ضرورت مند ہے؟ کون چپ چاپ منہ دیکھتا رہتا ہے اور اس کی زبان نہیں کھلتی ،کس کے معصوم بچے افطار کے لئے ترس رہے ہیں اور ان تک اطمینان بخش مقدار میں سامان پہنچا دیا تو یقین مانیں اب آپ کی افطار پارٹی میں آپ کو ایسا لطف اور ایسا سکون ملے گا جس کا آپ نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ عبادت کی روح تک پہنچیں۔یا اللہ !ہر مومن کوایسے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جو ہر قسم کےدکھاوے اور نمائش سے پرے ہواور جو ہماری مغفرت کا ذریعہ بنے۔آمین۔

تبصرے بند ہیں۔