روزے کے احکام و شرائط

آبیناز جان علی

روزے کے دنوں کا اگر پوری تقویت سے احترام کیا جائے تو بندہ پوری طرح رمضان سے مستفیض ہوپاتا ہے اور خود میں طہارت محسوس کرتا ہے۔  روزے کی کئی حدود ہیں جن کو رسولِ پرنورؐ نے اپنے اعمال و احکام کے ذیعے ہمیں سکھایا ہے۔  ان پابندیوں اور حدود سے اگر گریز نہ کیا جائے تو اس میںانسان کا ہی نقصان ہے۔

اللہ قرآن میں فرماتا ہے: ’ کھائو اور پیو مگر اسراف نہ کرو، بیشک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘  (۳۱:۷)

رمضان کے دنوں میںسحری اور افطار کے وقت کھانوں پر کافی پیسے خرچ ہوتے ہیں۔  انواع و اقسام کی اشیائے خودرنی تیار کئے جاتے ہیں جو کئی لوگوں کے شکم سیر ہونے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ لیکن صبح معمول کے خلاف جلدی اٹھنے سے اوردن بھر کچھ نہ کھانے سے روزے دار کم ہی کھاپاتے ہیں اور بچا کھچا کھانا کوڑے دان میں چلا جاتا ہے۔  یہ عمل اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔  کچھ لوگ سحری کے وقت لذیز غذا سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں تاکہ افطار تک بھوک نہ لگے۔  افطار کے وقت بھی وہ زیادہ سے زیادہ کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔  اس طرح روزے کا مقصد اکارت جاتا ہے۔ روزے میں خالی پیٹ رہنا اوار بھوک برداشت کرنا ضرووی ہے تاکہ جسم سے تمام غلاظت اور نجاست کا استخراج ہو اور بھوک کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے مفلسی اور غربت کے ستائے ہوئوں کی تکلیف کے احساس سے دل میں رحم اور نرمی پیدا ہو۔

کچھ لوگ روزے کا زیادہ تروقت سونے میں گذارتے ہیں۔  اس کے نتیجے میں یوں گمان ہوتاہے کہ روزہ رکھا ہی نہیں گیا ہو۔  روزے کی حکمت یہ ہے کہ روزے دار کو بھوک اور پیاس کی تڑپ کا احساس ہوجس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوسکے۔

نیز ایسے لوگ بھی ہیں جو زکات نہیں دیتے اور نہ ہی دوسروں کو افطار کی دعوت کے لئے مدعو کرتے ہیں۔  اس سے ان کے نفس کا تذکیہ نہیں ہوپاتا۔  بندہ اس وقت تک خدا کی اطاعت اور قرب حاصل نہیں کرتا جب تک وہ اپنی پسندیدہ چیز یا سرمایہ خدا کے راستے میں خرچ نہیں کرتا۔  زکات بری بلائوں اور آفتوں کو دور کرتا ہے اور مال و دولت میں برکت کا بھی ضامن ہے۔  افطار میں دوسروں کی دعوت سے بھائی چارگی اور اتحاد و یگانگت کا جذبہ ابھرتا ہے اور اس طرح مسلم قوم میں استحکام اور قربت پیدا ہوتی ہے۔  ہم سب آدم ؑ کے توسل سے ایک ہی لڑی میں انسانیت کے رشتے میں پروئے گئے ہیں۔  اگراسلام کے پانچ ستوں پر غور کیا جائے تو اسلام نے سماجی زندگی کو بڑی قدر و منزلت عطا فرمائی ہے۔ شہادت لیتے وقت اور اسلام کو اپناتے وقت دوسروں کی موجودگی لازمی ہے۔  اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے باجماعت کی نماز کو ستائیس بار بہتر بتایا گیا ہے۔  زکات میں مومن اپنے رزق کا حصّہ ان لوگوں کو خوشی خوشی دے دیتا ہے جو مقام و مرتبہ میں اس سے کمتر ہو۔  اس طرح سماج میں اعتدال پیدا ہوتا ہے اور امیروں اور غریبوں کے درمیان خلا کم ہوتاہے اور اونچ نیچ کی تفریق ختم ہوجاتی ہے۔ حج کے دوران دنیا کے کونے کونے سے لوگ ایک ساتھ تمام فرائض ادا کرتے ہیں اور یومِ عرفات پر احرام میں ملبوس رگ و نسل کی حدیں معدوم ہو جاتی ہیں اور بس تکبیر کی بلندصدائیں گونجتیں ہیں۔  روزے میں بھی ساتھ میں افطار کرنے میں خدا سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔

رسولؐ نے فرمایا : ’الٹی کرنے سے، قے آنے سے اور حجامہ کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (سنن ابی دائود)

مفطرات ومحظورات  میں سے وہ چیزیں ہیں جو قرآن و سنت  میں صراحتاً بیان کئے گئے ہیںجیسے کھانا، پینا، شہوت، جماع و مباشرت اور حیص و نفاس۔  لیکن اگر کوئی بھول کر کچھ کھا لے ، تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتااور نہ ہی اس پر قضا ہے۔

ہادی برحق ؐ نے ارشاد فرمایا ہے:’ اگر کوئی بھول کر کچھ کھالے جبکہ وہ روزے سے ہے تو اسے اپنا روزہ مکمل کرنا ہوگا کیونکہ اللہ نے اسے کھلایا اور پلایا ہے۔ (صحیح بخاری)

جہاں تک دوائی کا سوال ہے کوئی بھی دوا جو ناک اور منہ کے راستے سے جسم میںداخل ہو منع ہے البتہ دوا کو جلد پر لگایا جاسکتا ہے۔

ایک حدیث کے مطابق رسولؐ نے فرمایا:’ میری آنکھ میں ایک پریشانی ہے، تو کیامیں سرمہ لگا سکتا ہوں؟  آپ ؐ نے جواب دیا ’ہاں‘۔

میاں اور بیوی کے درمیان بوس و کنار کرنا مسنون و مستحب ہے۔

عائشہؓ سے روایت ہے:’  رسولؐروزے کے وقت مجھے بوسہ دیا کرتے تھے اور تم میں سے کون اپنی خواہشات پر قابو لگا سکتا ہے جس طرح رسولؐ اپنی خواہشات پر ضبط کرتے تھے۔‘ (صحیح مسلم)

پھر بھی رسولؐ نے اس حدیث میں استدلال پیش کیاہے:’ ایک آدمی نے آپؐ سے پوچھا کہ کیا روزے کی حالت میں وہ  اپنی بیوی کو بوس و کنار کر سکتا ہے اور آپ نے اس شخص کو اجازت دی: لیکن جب ایک دوسرے آدمی آپؐ کے پاس آیا، اور آپ سے اسی چیز کی اجازت مانگی تو آپ ؐ نے اسے منع کیا۔  جس آدمی کو آپ نے اجازت دی تھی، ایک ضعیف انسان تھا اور جس کو آپ نے منع کیا تھا، وہ ایک نوجوان تھا۔ (سنن ابی دائود)

’اگر ایک انسان بیمار ہوجائے جس سے روزہ رکھنا اس کے لئے بہت مشکل ہوجائے اور وہ تھک جائے، تو وہ اپنا روزہ توڑ سکتا ہے۔‘ (موطا)

سفر کے دوران روزے کے شروط و قیوددرجِ ذیل ہیں:

حمزہ بن عمر الاسلمی، نے رسولؐ سے پوچھا: ’ کیا سفر کے دوران روزہ رکھوں؟‘  رسولؐ نے جواب دیا’’اگر تم چاہو تو روزہ رکھ سکتے ہو، اور اگر تم چاہوتو روزہ نہ رکھو۔‘ ( صحیح بخاری)

یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ سفر کے دوران روزہ رکھے یا نہیں۔  اگر مسافر کولگے کہ روزہ اسے کمزور کردے گاتوسفر کے دوران روزہ نہ رکھنا کوئی گناہ نہیں ۔  اللہ نے اپنے رحم و کرم کی بدولت دورانِ سفرانسان کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے۔  اسے معلوم ہے اس کے بندے یہ تکلیف برداشت نہیں کرپائیں گے۔

انسؓ سے روایت ہے:’’ ہم رسولؐ کے ساتھ سفر پر تھے، ہم میںسے کچھ لوگوں کا روزہ تھا اور کچھ لوگوں کا روزہ نہیں تھا۔  ہم شدید گرمی کے ایک دن ایک جگہ پر اترے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کے پاس گرمی سے بچنے کے لئے کپڑا تھااور ہم میں سے کچھ اپنے ہاتھوں سے سورج کی تپش سے خود کو محفوظ کررہے تھے۔  روزے کی کمزوری کی وجہ سے روزہ دار نیچے گر گئے۔  جو روزے سے نہیں تھے وہ اٹھ کر خیمہ بنانے میں منہمک ہوگئے۔  اس پر حضرت محمد ؐنے فرمایا ’آج روزہ نہ رکھنے والوں نے ثواب پالیا۔‘  (صحیح مسلم)

رسول ؐ نے فرمایا’ جوسحر سے پہلے روزہ رکھنے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں۔‘  (سنن ابی دائود)

روزے کے لئے سحری کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔

رسولؐ نے فرمایا’’ سحری سے پہلے کچھ کھا لو کیونکہ اس وقت کے کھانے میں برکت ہے۔‘‘  (صحیح مسلم)

کئی لوگ تھکان کی وجہ سے اٹھ نہیں پاتے اور اس عظیم برکت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اگر سحری کے وقت کھانا دستیاب نہ ہو تو کم از کم ایک کھجور یا پانی کی ایک گلاس سے سحری کرنی چاہئے۔  سحر کا وقت متبرک اوقات میں شامل ہے کیونکہ یہ رات کی آخری تہائی کا حصّہ ہے، جب خدا سب سے نیچے آسمان پر اترتا ہے اور معافی دینے کے لئے منتظر رہتا ہے۔  یہ دعا کی قبولیت کا ایک خاص وقت ہے۔سحور اور فجر کی اذان کے درمیان کچھ وقفہ ہونا ضروری ہے۔

’’ ہم نے رسولؐ کے ساتھ سحری لی۔  پھر آپؐ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔  میں نے پوچھا ’ سحر اور اذان کے درمیان کتنا وقت تھا؟ اس نے جواب دیا وہ وقت قرآن کی پچاس آیات پڑھنے کے لئے کافی تھا۔‘‘  (صحیح بخاری)

روزہ کھولنے میں جلدی کرنی چاہئے۔  رسولؐ نے فرمایا ’ جب تک لوگ افطار کے لئے جلدی کریں گے وہ صحیح راستے پر رہیں گے ۔‘  (صحیح مسلم، صحیح بخاری)

کھجور کے ساتھ افطار کرنا سنتوں میںشامل ہے۔

رسولؐ نے فرمایا:’’ تم میں سے جب کوئی روزہ رکھتا ہے، اسے پہلے کھجوروں سے افطار کرنا ہے، لیکن اگر اسے کوئی کھجور نہ مل سکے تو وہ پانی پی سکتا ہے۔  کیونکہ پانی صاف کرتا ہے۔‘‘  (سنن ابی دائود)

اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ مغرب کی نماز کے لئے بلا وجہ تاخیر نہیں ہو اورافطارکرنے کے فوراً بعد ہی مغرب کی نماز ادا کی جائے۔

ابو عاطیہ نے فرمایا:’ میں اور مشرق عائشہؓ  کے پاس گئے اور مشرق نے ان سے کہا: ’’ رسولؐ کے صحابیوں میں سے دو نوںاچھائی کو ترک نہیں کرتے، لیکن ان میں سے ایک مغرب کی نماز اور افطار کے لئے جلدی کرتا ہے اور دوسرا مغرب کی نماز اور روزہ توڑنے میں تاخیرکرتا ہے۔  اس پر آپؓ نے کہا: ’ کون مغرب کی نماز اور افطار میں جلدی کرتا ہے؟ اس نے کہا:’وہ عبد اللہ ہے۔‘  اس پرآپ ؓ نے فرمایا’ یہ رسولؐ کا وطیرہ تھا۔‘ (صحیح مسلم)

مسواک کا استعمال کرنا بھی سنتوں  میں شامل ہے۔

رسولؐ روزے کے دوران مسواک چباتے تھے۔ (صحیح بخاری)

منہ، دانت اور مسوڑھوں کاہر وقت خیال رکھنے کی تائید کی گئی ہے خاص طور پر روزے کے دوران۔  مسواک کے استعمال سے دانتوں کو صاف اور مسوڑھوں کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔

روزے دار کے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مشک سے بھی میٹھا ہے۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

روزے کے آداب و ضوابط کے ضمن میں اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے:

گنتی کے چند روز؛ پھر جو کوئی تم میں سے بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلے، اور ان پر جو اس کی طاقت رکھتے ہیں فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا، پھر جو کوئی خوشی سے نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔(۱۸۴: ۲)

بیمار اور ضعیف لوگوں کے علاوہ رسولؐ نے ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے جو رمضان میں روزے نہیںرکھ سکتے۔

اللہ نے سفر کرنے والوں کی نماز آدھی رکھی ہے، اور مسافر کا روزہ، وہ مائیں جو بچے کو دودھ پلاتی ہیں اور وہ خاتون جو حاملہ ہیں ان پر روزہ فرض نہیں۔  بخدا رسولؐ نے دونوں دودھ پلانے والی ماں اور حاملہ خاتون یا ان میں سے ایک کا ذکر کیا ہے۔ (سنن ابی دائود)

لیکن کسی خاص وجہ کے بغیر روزہ نہ رکھا جائے تو اگر پوری زندگی روزہ رکھا جائے اس چھوٹے ہوئے روزے کی تلافی نہیں ہوپائے گی۔

رسول ِ اقدس ؐنے فرمایا: ’ اگر کوئی رمضان کے ایک دن کا روزہ بغیر کوئی خاص وجہ یا رعایت کے چھوڑے، تواس روزے کے لئے مسلسل روزہ بھی اس کا کفارہ نہیں۔ (سنن ابی دائود)

رسولؐ نے ہمیں قولاً اور عملاًسکھایا کہ جب رو زہ فاسد ہوجائے یا چھوٹ جائے،تو اس اثنا میںکیا کیا جاسکتاہے۔  ایک انسان نے رمضان کا روزہ توڑا اور رسولؐ نے اسے کفارہ کرنے کو کہا کہ وہ ایک غلام کو آزاد کرے، یا مسلسل دو مہینوں کے لئے روزہ  رکھے یا ساٹھ غریبوں کو کھانا کھلائے اور اس نے کہا:’ میں یہ نہیں کرسکتا۔  کسی نے کھجور کی ایک بڑی ٹوکری رسولؐ کے سامنے رکھی اور آپ نے کہا’اس کو لے جائو اور صدقہ کے طور پر دے دو۔‘  اس نے کہا ’ رسولؐمجھ سے زیادہ حاجتمند کوئی نہیں ہے۔‘  رسولؐ ہنسنے لگے۔  یہاں تک کہ آپ کے دانت نظر آنے لگے اور آپ نے کہا: ’انہیں کھا جائو۔‘ (موطاء)

رمضان میں اگر کسی بھی دن روزہ چھوٹ جائے، تو اگلے رمضان سے پہلے اس کو قضاکرنا چاہئے۔  مسلم عام طور پر جلداز جلد وہ روزے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ چھوٹا ہوا روزہ اللہ کے نزدیک فرض ہے۔

رسولؐ نے فرمایا:’ جس نے وفات پائی اور وہ روزہ قضا نہیں کرپایا،  تو اس کے سرپرستوں کو اس کی جگہ روزے رکھنے چاہئے۔‘  (صحیح بخاری)

غرض کہ خدا نے ہمارے لئے بہت ساری رعایتیں عنایت فرمائیں ہیں۔  روزہ ہر حال میں مومن کی بھلائی کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے اور اس کے تمام احکام اور شرائط و ضوابط کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہی روزوں کا پورا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔  اس مہینے میںرضائے الٰہی حاصل کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے اور خالقِ دو جہاں سے التماس کیا جاتاہے کہ ہمیں توفیقِ ارزانی عطافرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔