سود اور اس کی حرمت (قسط 5)

جمشید عالم عبد السلام سلفؔی

سود کی ہلاکت خیزی

      اسلامی شریعت میں سود ہلاک کرنے والی کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔ اس کی حرمت پر امت کا اجماع و اتفاق ہے، بس چند صورتوں سے متعلق اختلاف ہے۔ اس سے معاشرے کا امن اور آپسی بھائی چارہ تہہ و بالا ہو کر رہ جاتا ہے، لوگوں کے درمیان بغض و عداوت اور دشمنی کو بڑھاوا ملتا ہے، شخصی طور پر انسان سنگ دل اور خود غرض ہو جاتا ہے، حرص و لالچ بڑھ جاتی ہے، الفت و محبت ناپید ہو جاتی ہے، احسان و بھلائی کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے اور انسان معصیت و گناہ کے کام کرنے پر جری ہو جاتا ہے۔ یہ عناد و سرکشی، حرام و مفت خوری، اور مجبور و بے سہارا لوگوں پر ظلم و زیادتی کی انتہائی بد ترین شکل ہے۔

      قرآن کریم میں جتنی سخت وعید اس گناہ کے مرتکبین پر آئی ہے، شرک کے علاوہ اور کسی معصیت کے ارتکاب پر اُتنی سخت وعید نہیں آئی ہے کیوں کہ سود اسلامی تعلیمات اور شریعتِ مطہرہ کے نظامِ عدل و انصاف اور اخوت و صلہ رحمی کے بالکل خلاف و مُنافی اور اسلام کے معاشی نظام سے براہ راست متصادم ہے۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام قرار دینے کے بعد اس سے باز آنے کا حکم دیا ہے، اور پھر اللہ کا حکم آجانے کے بعد اگر کوئی جان بوجھ کر حلال سمجھتے ہوئے اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے یہ وعید دی گئی ہے :

﴿وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾

      ترجمہ : ’’اور جو دوبارہ ایسا کرے تو ایسے ہی لوگ آگ والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ [البقرۃ : 275]

      سود جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہنے کا سبب بن سکتا ہے، یہ ایسا قبیح و شنیع عمل ہے کہ اگر بندہ کا ایمان و عقیدہ درست اور مضبوط نہ ہو تو یہ عمل اس کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا باعث ہوگا۔ جو لوگ سود کی حرمت کو جانتے ہوئے محض اپنی سرکشی کی بنیاد پر سود خوری سے باز نہیں آتے ان کے لیے یہ بڑی سخت وعید ہے۔

      سود خوری جیسی عناد و سرکشی کے ذریعہ انسان اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال قرار دیتا ہے اور اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال قرار دینا اللہ کے ساتھ کفر کرنا ہے اس لیے اس کی سزا دائمی جہنم ہے، ورنہ کتاب و سنت کے بیشتر نصوص اور إجماعِ امت کے بموجب توحیدِ خالص اور ایمانِ کامل جہنم میں ہمیشہ رہنے کے لیے رکاوٹ ہیں۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :

      (إن الإيمان بوجوب الواجبات الظاهرة المتواترة، وتحريم المحرمات الظاهرة المتواترة هو من أعظم أصول الإيمان وقواعد الدين، والجاحد لها كافر بالاتفاق.)

      ’’یقیناً ظاہری متواتر واجبات کے وجوب اور ظاہری متواتر محرمات کی تحریم پر ایمان رکھنا اصولِ ایمان اور قواعدِ دین میں سب سے عظیم اصل ہے۔ اور ان کا انکار کرنے والا بالاتفاق کافر ہے۔‘‘ [مجموع الفتاوى 12 / 497]

      لہذا سود کی حرمت کا انکار اور اسی پر جمے رہنا کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہنے کا مستحق ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص سود کی بعض ان شکلوں میں سے کسی سودی شکل کا انکار کرے جس میں علما کا اختلاف ہے اور اس پر امت کا اجماع نہیں ہے تو ایسا شخص کافر نہیں ہوگا لیکن اگر اپنی خواہش نفسانی کی وجہ سے اسے حلال سمجھے تو وہ فاسق ہوگا اور اگر جہنم رسید ہوا تو ہمیشہ ہمیش جہنم میں نہیں رہے گا کیوں کہ عربی زبان میں خلود طویل مدت کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور اگر ایسا شخص مجتہد ہے تو وہ اپنے اجتہاد پر اجر کا مستحق ہوگا اور اگر کوئی  شخص اس سے لاعلم ہے اور اپنی لاعلمی کی بنا پر وہ اس کارِ بد میں ملوث ہوگیا تو وہ اپنی لا علمی و جہالت کی بنا پر معذور بھی ہو سکتا ہے۔

سود عذابِ الٰہی کا باعث

      جب کسی ملک، گاؤں یا قوم میں سود کی وبا عام ہوجاتی ہے تو وہ اللہ کے عذاب کی مستحق ہو جاتی ہے، اللہ ان کے مالوں کی برکت کو چھین لیتا ہے اور انھیں مختلف طرح کی آفات و بلیات اور بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((إذا ظهرَ الزِّنا والرِّبا في قَريةٍ، فقد أَحَلُّوا بأنفسِهم عذابَ اللهِ.))

      ترجمہ : ’’جب کسی گاؤں میں بدکاری اور سود پھیل جاتی ہے تو وہ اپنی جانوں پر اللہ کے عذاب کو حلال کر لیتے ہیں۔‘‘ [طبرانی، حاكم بحوالہ السراج المنیر 1 / 424]

      موجودہ دور میں مسلم امہ جن مصائب و تکالیف، آزمائش و مشکلات اور مختلف النوع پریشانیوں میں گھِر کر جس ذلت و نکبت سے گذر رہی ہے اس کے جہاں اور بہت سے اسباب ہیں وہیں سودی لین دین کا عام رواج بھی اس کا ایک اہم سبب ہے۔ یہ اللہ کے ساتھ کھلی بغاوت ہے اور جب قومیں عناد و سرکشی کی روش اختیار کر کے حدودِ الٰہی کی پامالی پر آمادہ ہو جاتی ہیں تو ان پر عذابِ الٰہی کا نزول یقینی ہو جاتا ہے اور ذلت و پستی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ ایمان و ایقان کی کمی اور احساس کی پژمردگی انسان کو اس مقام پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں وقتی طور پر بظاہر معمولی سا فائدہ اسے بہت زیادہ نظر آنے لگتا ہے اور وہ خود کو کامیاب ترین انسان متصور کرنے لگتا ہے۔

سود خور کے متعلق خوابِ نبوی

      آدمی سودی مال و دولت اکٹھا کر کے یہ تصور کرتا ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی بن چکا ہے اور اس کا بینک بیلنس کئی نسلوں کے لیے کافی ہے، حالانکہ جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ ہوگی تو ساری دولت و ہیکڑی اور ہر طرح کی احتیاطی تدابیر دھری کی دھری رہ جائے گی۔ اور بظاہر سود خور کا جو یہ بیلنس کافی وافی دکھائی دیتا ہے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کے اعمال نامے کا بیلنس صفر کو پہنچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے مال و جائداد کی برکتوں کو چھین لیتا ہے۔ اس لیے ہمیں دنیوی جاہ و حشمت کے بجائے اپنے حقیقی نامہ اعمال کا جائزہ لے کر اخروی کامیابی کی فکر کرنی چاہیے اور آخرت کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سود خور کو عذابِ الٰہی میں گھِرا ہوا دیکھا تھا۔ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي فَأَخْرَجَانِي إِلَى أَرْضٍ مُقَدَّسَةٍ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ، وَعَلَى وَسَطِ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ، فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ، فَإِذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ يَخْرُجَ رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ، فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: الَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ آكِلُ الرِّبَا.))

      ترجمہ : ’’رات میں نے (خواب میں) دو آدمیوں کو دیکھا کہ وہ میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سرزمین کی طرف لے گئے، پھر ہم وہاں سے چلے یہاں تک کہ ایک خون کی نہر پر آگئے وہاں ایک آدمی کھڑا تھا اور ایک آدمی بیچ نہر میں کھڑا تھا، اس آدمی کے سامنے پتھر تھے، بیچ نہر والا آدمی متوجہ ہوتا اور جوں ہی باہر نکلنا چاہتا فوراً ہی باہر والا آدمی اس کے منہ میں پتھر دے مارتا اور اسے اس کی پہلی جگہ پر واپس لوٹا دیتا، اور جب جب وہ نکلنے کے لیے آتا تو دوسرا پتھر اس کے منہ میں دے مارتا اور وہ اپنی جگہ واپس لوٹ جاتا۔ میں نے پوچھا : یہ کیا ہے؟ جواب دیا : نہر میں جس آدمی کو آپ نے دیکھا ہے وہ سود کھانے والا ہے۔‘‘[صحيح بخاری کتاب البیوع باب آکل الربا و شاهده و كاتبه]

سود کی نابودی اور صدقات کی بڑھوتری

      معلوم ہوا کہ سودی مال میں بظاہر جو اضافہ نظر آتا ہے اور دنیا دار لوگ اسے منافع تصور کرتے ہیں، درحقیقت اللہ اس مال سے اور اس طرح کے کاروبار سے خیر و برکت کو چھین لیتا ہے۔ بظاہر دنیوی بیلنس میں تو اضافہ ہوتا ہے مگر بندے کا نامۂ اعمال رفتہ رفتہ صفر ہو کے رہ جاتا ہے نیز دنیا میں بھی ایسے شخص پر لعنت برستی ہے اور آخرت میں بھی اس کا برا انجام ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سودی مال کی خیر و برکت کو چھین کر اسے نابود کر دیتا ہے، اس حقیقت کی وضاحت اللہ پاک نے قرآن کریم میں اس طرح فرمائی ہے  :

﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ﴾

      ترجمہ : ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ ہر سخت ناشکرے اور گنہگار کو پسند نہیں کرتا ہے۔‘‘ [البقرۃ : 276]

      دوسری جگہ فرمایا :

      ﴿وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾

      ترجمہ : ’’اور جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال زیادہ ہوں تو اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کے چہرے کا ارادہ کرتے ہوئے دیتے ہو تو وہی لوگ کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔‘‘ [الروم : 39]

      سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((مَا أَحَدٌ أَكْثَرَ مِنَ الرِّبَا إِلَّا كَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهِ إِلَى قِلَّةٍ.))

      ترجمہ : ’’جو کوئی سود سے مال بڑھائے تو اس کا آخری انجام اس میں کمی ہی ہوتی ہے۔‘‘[ابن ماجہ کتاب التجارات باب التغلیظ فی الربا]

      دراصل سودی نظام سرمائے کو چند ہاتھوں میں محصور کر دیتا ہے اور پوری قومی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیتا ہے جب کہ اسلام کا نظامِ زکوٰۃ و صدقات سرمائے کو مسلسل گردش میں رکھتا ہے اور پھر سود کے بالمقابل صدقات کو اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے، اس میں خیر و برکت عطا فرماتا ہے، اور صدقہ و خیرات دینے والے شخص کو قلبی و ذہنی سکون و اطمینان میسر ہوتا ہے اور اللہ کے ہاں ریا و نمود سے پاک حلال کمائی سے دیے جانے والے صدقات کا وزن مسلسل بڑھتا رہتا ہے اور اس کا اجر و ثواب یقینی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

      ﴿قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾

      ترجمہ : ’’کہہ دو! بے شک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، اور جو چیز بھی تم خرچ کرتے ہو تو وہی تم کو اس کی جگہ اور دیتا ہے، اور وہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔‘‘ [السبا: 39]

      ایک دوسرے مقام پر فرمایا :

      ﴿مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾

     ترجمہ : ’’جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی طرح ہے جس میں سات بالیاں اُگیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اللہ جس کے لیے چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے اور اللہ بڑی کشادگی والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ [البقرة : 261]

      سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

      ((مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ، وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ، وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ، حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ.))

      ترجمہ : ’’جو شخص پاک کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے، اور اللہ صرف پاک کمائی کا صدقہ قبول فرماتا ہے، تو اللہ اس صدقہ کو اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، پھر صدقہ دینے والے کے لیے اس صدقہ کی پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے جانور کے بچے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔‘‘ [صحيح بخاری کتاب الزکاۃ باب لا یقبل صدقۃ من غلول، صحیح مسلم کتاب الزکاۃ باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا]

      سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

      ((مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ.))

      ترجمہ : ’’صدقہ مال میں کمی نہیں لاتا ہے، اور عفو و درگزر کرنے کی وجہ سے اللہ بندے کی عزت میں اضافہ ہی فرماتا ہے، اور جو کوئی اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اسے بلند کر دیتا ہے۔‘‘ [صحيح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب استحباب العفو والتواضع]

      مزید یہ کہ علمِ معیشت کی رو سے بھی یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ سود سے مال بڑھنے کے بجائے گھٹتا ہے اور صدقہ دینے سے مال گھٹنے کے بجائے بڑھتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جس معاشرہ میں صدقات کا نظام رائج ہوتا ہے، اس میں غریب طبقہ (جو عموماً ہر معاشرہ میں زیادہ ہوتا ہے) کی قوتِ خرید بڑھتی ہے اور دولت کی گردش کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے جس سے خوش حالی پیدا ہوتی ہے اور قومی معیشت ترقی کرتی ہے اور جس معاشرہ میں سود رائج ہوتا ہے وہاں غریب طبقہ کی قوتِ خرید کم ہوتی ہے اور جس امیر طبقہ کی طرف دولت کو سود کھینچ کھینچ کر لے جا رہا ہوتا ہے، اس کی تعداد قلیل ہونے کی وجہ سے دولت کی گردش کی رفتار نہایت سست ہو جاتی ہے جس سے معاشی بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں، امیر اور غریب میں طبقاتی تقسیم بڑھ جاتی ہے اور بعض دفعہ غریب طبقہ تنگ آکر امیروں کو لوٹنا اور مارنا شروع کر دیتا ہے، آقا و مزدور میں، امیر اور غریب میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہتی ہے جس سے کئی قسم کے مہلک نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ [ماخوذ از : تیسیر القرآن 1 / 227]       (جاری)

تبصرے بند ہیں۔