روک دے پرواز میری، کاٹ دے صیاد پر

افتخار راغبؔ

روک دے پرواز میری، کاٹ دے صیاد پر

تو مجھے مجبور کر سکتا نہیں فریاد پر

چین سے سونے دو ہم کو، چھوڑ دو یہ چھیڑ چھاڑ

سنگ باری مت کرو جذبات کے فولاد پر

ہم کو بس اک ذات سے امّید ہے اور کچھ نہیں

آپ کو تکیہ ہے اپنی طاقت و تعداد پر

شخصیت اُن کی ہے اک اونچی عمارت کی طرح

وہ عمارت جو کھڑی ہے ریت کی بنیاد پر

اُن کی ہی شہ پر تو ڈھایا جا رہا ہے ہر ستم

لب کشائی کیوں کریں وہ جبر و استبداد پر

جن کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں یہ اردو کے حروف

کس قدر اِترا رہے ہیں وہ بھی ’’زندہ باد‘‘ پر

شعر کی تاثیر دیکھو اور دو ہم کو دعا

دوستو حیران کیوں ہو دشمنوں کی داد پر

کیسے راغبؔ وہ ہمیں دے گا محبت کا ثمر

جو شجر اٹھّا ہے اونچا نفرتوں کی کھاد پر

تبصرے بند ہیں۔