ہزار رنجِ سفر ہے حضر کے ہوتے ہوئے

عرفان وحید

ہزار رنجِ سفر ہے حضر کے ہوتے ہوئے

یہ کیسی خانہ بدوشی ہے گھر کے ہوتے ہوئے

وہ حبسِ جاں ہے برسنے سے بھی جو کم نہ ہوا

گھٹن غضب کی ہے اک چشم تر کے ہوتے ہوئے

مرے وجود کو پیکر کی ہے تلاش ابھی

میں خاک ہوں ہنرِ کوزہ گر کے ہوتے ہوئے

سحر اجالنے والے کرن کرن کے لیے

ترس رہے ہیں فروغِ سحر کے ہوتے ہوئے

ہر انکشاف ہے اک انکشافِ لاعلمی

کمالِ بے خبری ہے خبر کے ہوتے ہوئے

گریزاں مجھ سے رہا ہے ہر ایک سایۂ دیوار

میں دھوپ دھوپ جلا ہوں شجر کے ہوتے ہوئے

ہم اس سے مل کے کریں عرضِ حال کچھ عرفان

محال ہے یہ دلِ حیلہ گر کے ہوتے ہوئے

تبصرے بند ہیں۔