روہنگیا : حل ہمیں ہی ڈھونڈنا ہوگا

 ڈاکٹر عابد الرحمن

میانمار میں مسلم مقتولین محروصین اور مغلوبین کی اصل تعداد کا تو علم نہیں لیکن اقوام متحدہ کے مطابق اب تک چارلاکھ روہنگیا مسلمان اپنا گھر بار زمین جائیداد اور اثاثہ چھوڑ چھاڑ کر بنگلہ دیش میں یا بنگلہ میانمار سرحد پر آ گئے ہیں اور ان کے پیچھے ان کے گھر بار اور چھوڑا ہوا اثاثہ بھی محفوط نہیں ہے ، ان کا اثاثہ لوٹ لیا گیا ہے اور گھر بلکہ پورے پورے گاؤں جلا کر راکھ کر دئے گئے ہیں ۔ میانمار کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ آتش زنی خود روہنگیا مسلمانوں نے کی ہے لیکن جن صحافیوں کو خود میانماری حکومت نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرایا ہے انہوں نے اپنی آنکھوں سے بدھشٹ لوگوں کو پولس کی موجودگی میں مسلمانوں کے گھروں اسکولوں اور مدرسوں سمیت پورے گاؤں کو آگ لگاتے دیکھا ہے اسی طرح اس ضمن میں بدھشٹوں نے جو تصاویر انہیں دکھائی ہیں جن میں مسلمانوں کو اپنے گھروں کو آگ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ان کے جعلی ہونے کی بھی تصدیق ان صحافیوں نے کر لی ہے یعنی متاثرہ علاقوں کا منظر خود حکومت کے جھوٹ کو عیاں کر رہا ہے ۔

میانمار حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی کارروائی دراصل روہنگیا دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہے جنہوں نے ۲۵، اگست کو پولس چوکیوں اور ملٹری بیس پر حملہ کر کے کئی افراد کو ہلاک کر دیا تھا ،لیکن جو ٹارگیٹیڈ گروپ لاکھوں کی تعداد میں اپنا ملک چھوڑ کر پڑوسی ممالک کی طرف بھاگ رہا ہو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا نشانہ صرف دہشت گرد نہیں بلکہ پوری روہنگیا کمیونٹی ہے۔ حکومت اس کارروائی میں ہوئی ہلاکتوں کی تعداد چار سو تیس بتا رہی ہے لیکن جو حکومت ایک جھوٹ بول سکتی ہے اس کی ہر بات جھوٹ ہو سکتی ہے ۔ میانمار سے بنگلہ دیش آنے والوں کی جو داستانیں میڈیا رپورٹرس کے ذریعہ ہم تک پہنچ رہی ہیں ان سے تو ایسا لگتا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد کئی ہزاروں میں ہو گی اوریہ ہلاکتیں بھی ایسے ہی دلدوز انداز میں کی گئی ہوں گی جیسی سوشل میڈیا پر آ ئی ویڈیوز میں دکھائی گئی ہیں ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سر براہ نے میانمار میں مسلمانوں پر ہو رہا ظلم ’ نسل کشی کی کتابی تصویر اور واضح مثال ‘ قرار دیا ہے ۔

اقوام متحدہ نے میانمار میں مسلمانوں کی اس صورت حال کو ’تباہ کن (Catastrophe) ‘ قرار دیا ہے ۔ لیکن دیکھئے کہ اقوام متحدہ مسلمانوں پر ہونے ولی اس واضح نسل کشی کو روکنے میں کتنی بے بس ہے کہ اتنی سخت بات کہنے کے باوجود وہ میانمار کے خلاف ابھی تک کوئی ہلکی سی عملی کارروائی بھی نہیں کر سکی۔اسی طرح بیشتر ممالک نے میانمار کی حکومت اور ملٹری کی مذمت کی ہے لیکن عملی طور پر کسی نے بھی اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا سوائے مالدیپ کے کہ جس نے میانمار سے تمام تجارتی تعلقات منقطع کر لئے ۔ مطلب صاف ہے کہ مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کی روک تھام کے لئے اور مظلومین کو انصاف دلانے کے لئے اقوام متحدہ یا بین الاقوامی قوتوں اور حکومتوں کی طرف دیکھنا، ان سے امید رکھنا سادہ لوحی نہیں بے وقوفی ہے اور اب ہمیں اس بے وقوفی سے باز آ جانا چاہئے ۔ یہ دراصل مسلم حکمرانوں کا کام ہے کہ وہ کوئی متحد اور مضبوط قوت بنائیں تاکہ اس طرح کی صورتوں سے نمٹا جا سکے وگر نہ جو آج میانمار میں ہو رہا ہے کل پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں یہی ہو سکتا ہے۔

میانمار کی حکومت اور ملٹری کو جہاں تقریباً پوری دنیا تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے ،آنگ سان سوچی کو شرم دلا رہی ہے،انہیں انکی نوبیل پرائز قبول کرتے وقت کی تقریر یاد دلا رہی ہے وہیں ہماری حکومت پوری طرح میانمار کے ساتھ کھڑی ہے ،پچھلے دنوں مودی جی میانمار کے دورے پر گئے تھے،اس وقت بھی ہم نے بے وقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے روہنگیا اشو پر میانمار حکومت سے بات کرنے کی آس باندھی لیکن صاحب ہوا الٹا،مودی جی میانمار پہنچے تو وہاں انہوں نے سوچی کی قیادت کی تعریف کی ،ملٹری پر روہنگیا شدت پسندوں کے حملوں کی مذمت کی ، دہشت گردی کے خدشات میں میانمار کی حکومت کے پارٹنر ہونے کا یقین دلایا لیکن روہنگیا مسلمانوں پر کئے جانے والے سرکاری ظلم و ستم پر ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ اور اور تو اور ان کے میانمار جاتے ہی وطن عزیز میں پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کر نے کے معاملہ میں شدت آ گئی ،یوں تو شاید اپریل میں ہی یہ خبر آئی تھی کہ حکومت ملک میں رہ رہے تمام روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر  کردے گی لیکن اب جبکہ ان کا اپنا ملک انہیں قبول ہی نہیں کرتا بلکہ ان پر مظالم کی انتہا کے ذریعہ انہیں ان کی نسلی صفایا کررہا ہے اور اسی سے بچنے کے لئے وہ انڈیا سمیت پڑوسی ملکوں میں نقل مکانی پر مجبور کر ہیں تو ایسے حالات میں اس فیصلہ میں شدت لانے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں ؟ کیا یہ فیصلہ انہیں دیشہ و دانستہ موت کے منھ میں دھکیلنا نہیں ہے؟بے شک روہنگیا انڈیا میں غیر قانونی رہائشی ہیں اور انہیں ملک بدر کر نے کا قانونی حق حکومت کو ہے لیکن ابھی ان کے ملک میانمار کے قیامت خیز حالات میں ہی اس حق کو استعمال کر نے کا کیا مقصد ؟میانمار کے حالات ان کے لئے قابل رہائش ہونے پر بھی تو اس فیصلہ پر عمل کیا جاسکتا ہے ،اس وقت تک دوسرے پناہ گزینوں کی طرح انہیں بھی تو عارضی پناہ دی جا سکتی ہے۔

اسی طرح جب حکومت انہیں میانمار کا شہری سمجھتی ہے جیسا کہ انہیں ملک بدر کر میانمار بھیجنے کی تیاری ہے تومودی جی نے اس ضمن میں میانمار حکومت سے کوئی بات کیوں نہیں کی ؟کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناتے یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے؟کیا ہم انسانی بنیاد پر بھی ایسا نہیں کرسکتے؟ لیکن اس ضمن میں جو کچھ حکومت کر رہی ہے کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ دراصل ایک خاص پالسی کے تحت ہو رہا ہے جس کا مقصد بین الاقوامی طور پر چین کے خلاف میانمار سے دوستی برھانے اور قومی سیاست میں اسے ہندو مسلم پولرائزیشن کے طور پر استعمال کر کے سیاسی فوائد حاصل کر نا ہے ۔ اس کے ذریعہ ایک چال حال ہی میں دلت مسلم اتحاد کی ہورہی کوششوں کو سبو تاژ کر نے کی بھی ہو سکتی ہے ۔ہوسکتا ہے سرکار روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار حکومت یعنی وہاں کے بدھشٹوں کی حمایت کر کے دراصل دلت پریم درشانا چاہتی ہو تاکہ یہاں کے دلتوں میں جو اس کے خلاف ماحول بن رہا ہے اسے بھی ختم کیا جاسکے  اور ساتھ ہی انہیں مسلمانوں سے بر گشتہ کر کے دلت مسلم اتحاد کی جو کوششیں ہو رہی ہیں انہیں بھی زک پہنچا ئی جا سکے۔

اس معاملہ میں خاص بات یہ ہے کہ ہم میانمار سرکار کو لے کر یا ملک میں روہنگیا پناہ گزینوں کی آبادکاری کو لے کر جتنا شور شرابہ کریں گے سرکار اور بی جے پی کو جتنا لعن طعن کریں گے اس کی پوزیشن اتنی ہی مضبوط ہو گی اور وہ اپنی کھلی اور چھپی چالوں میں اتنی ہی کامیاب ہو تی جائیں گی ،سو ضروری ہے کہ اس ضمن میں ہم بے وقوفی کی بجائے انتہائی وقوف سے کام لیں ۔جو کچھ کریں بہت سوچ سمجھ کر ،جذبات اور جوش کی بجائے پوری طرح ہوش کے ساتھ اور پختہ منصوبہ بندی کے ساتھ کریں ، اس طرح کریں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔