زخم پر زخم کھا رہا ہوں میں
احمد علی برقیؔ اعظمی
زخم پر زخم کھا رہا ہوں میں
زیرِ لب مُسکرا رہا ہوں میں
…
نذرِ طوفاں ہے میری کشتیٔ دل
خیر اپنی منا رہا ہوں میں
…
اِس پُرآشوب دور میں مَت پوچھ
کیسے خود کو بچا رہا ہوں میں
…
دیکھ کر بے حسی زمانے کی
خوں کے آنسو بہا رہا ہوں میں
…
وہ بجھانے پہ ہے تُلا جس کو
شمعِ ہستی جلا رہا ہوں میں
…
صورتِ شعر اپنا سوزِ دروں
اہلِ دل کو سنا رہا ہوں میں
…
دورِ قحط الرجال میں برقیؔ
خود کو محصور پا رہا ہوں میں
تبصرے بند ہیں۔