زخم پر زخم کھا رہا ہوں میں

احمد علی برقیؔ اعظمی

زخم پر زخم کھا رہا ہوں میں

زیرِ لب مُسکرا رہا ہوں میں

نذرِ طوفاں ہے میری کشتیٔ دل

خیر اپنی منا رہا ہوں میں

اِس پُرآشوب دور میں مَت پوچھ

کیسے خود کو بچا رہا ہوں میں

دیکھ کر بے حسی زمانے کی

خوں کے آنسو بہا رہا ہوں میں

وہ بجھانے پہ ہے تُلا جس کو

شمعِ ہستی جلا رہا ہوں میں

صورتِ شعر اپنا سوزِ دروں

اہلِ دل کو سنا رہا ہوں میں

دورِ قحط الرجال میں برقیؔ

خود کو محصور پا رہا ہوں میں

تبصرے بند ہیں۔