ماہِ رمضان اور مسلمانانِ عالم

محمد حسن

رمضان کا مہینہ ہرسال اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ آتا ہے اور یوں ہی نامراد چلا جاتا ہے، اس کی آمد سے قبل لوگ کیا کیا سپنے نہیں سجاتے اور کیا کیا امنگیں نہیں جگاتے، اس سال رمضان کا مہینہ ضائع نہیں ہونے دیں گے اور خوب نیکیاں بٹوریں گے جہاں عبادات میں پیش پیش رہیں گے وہیں صدقات وخیرات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے، پچھلے برس کئی ساری مجبوریاں درپیش تھیں اور کتنے مسائل سامنے نمبر لگائے کھڑے تھے لیکن اس بار چاہے کوئی بھی دقت اور پریشانی ہو بنا اس کی فکر کئے ساری مشغولیات کو طاق پر رکھ کر پورا ایک مکمل مہنیہ ذکرواذکار اور صوم وصلاۃ میں گزارنا ہے، صرف انہی دوستوں سے تعلق رکھنا ہے اور انہی لوگوں کے ساتھ اٹھ بیٹھ کرنا ہے جو نیک ہیں اور نیکی کے کام میں سبقت لیتے ہیں، کچھ لوگ تو ماہ شعبان اور شب برات سے ہی اپنے ارادے پختہ اور نیت مضبوط کرنے لگتے ہیں اورتبھی سے اپنی زندگی اعتکاف کی شکل میں بنا ڈالتے ہیں اور ہو بھی کیوں نہ جو شخص ایمان رکھتا ہے اور اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کرتا ہے اس کے لئے تو واجب ہے کہ نیک اعمال کرے، نمازوروزوہ کی پابندی کرے اور ذکرالہی کا خاص خیال رکھے کیوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے سے ہی رمضان کی تیاری میں لگ جاتے، رمضان کے استقبال کے لئے پوری طرح سے تیار ہوجاتے اور رمضان کا پورا مہینہ قیام اللیل اور دیگر عبادتوں میں گزارتے۔

رمضان کی آمد سے قبل بچوں اور بڑوں میں اس کے لئے ایک جوش اور جنون دیکھا جاتا ہے جہاں بچے ماہ رمضان سے لطف اندوز ہونے اور اس کی نعمتوں سے فرحت حاصل کرنے کے لئے بے چین نظرآتے ہیں وہیں بڑے بھی اس کے فیوض وبرکات سے دامن بھرنے کے لئے فکرمند دیکھے جاتے ہیں، رمضان کی آمد اپنے آپ میں ایک بہت بڑی خوشی او فرحت وسرور کا سامان ہوتا ہے، جن کے ارادے مضبوط ہوتے ہیں وہ پورا مہینہ نیکیوں سے اپنے دامن کو بھرتے ہیں، توبہ واستغفار سے رحمت طلب کرتے ہیں، کثرتِ اذکار سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں اور اپنی آنے والی زندگی کو ایک نئی سمت میں لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں انہیں دلی اطمینان، چین وسکون کے لمحات، امن کا آشیانہ اورراحتِ رزق کا سامان حاصل ہوسکے، اس مہینے میں نیکیوں کی قدرواہمیت بڑھا دی جاتی ہے، ثواب ستر گنا زیادہ کردیا جاتا ہے، شیاطین قید کردئے جاتے ہیں، آسمان سے رحمت وبرکت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور نیکیاں تقسیم کرنے کے لئے فرشتے تعینات کردئے جاتے ہیں جو ہمہ وقت یہ آواز لگاتے رہتے ہیں کہ جس کو جس قدر نیکی کی حاجت ہو وہ عبادات گاہوں میں آئے اوراپنے بساط بھرنیکی سمیٹ لے جائے۔

 رمضان کا مہینہ بہت ساری خصوصیات اور بے شمار صفات کا حامل ہوتا ہے، صرف اس ایک مہنے کو کتنے درجوں میں تقیسم کیا گیا ہے اور ہر درجے کی اپنی ایک الگ اور منفرد خوبی بیان کی گئی ہے جہاں قرآن پاک میں اس ماہ کو قرآن جیسی عظیم آسمانی کتاب کے نزول کا مہینہ بتایا گیا ہے وہیں حدیث میں اس کی بے شمار خوبیوں کے ساتھ اس ماہ میں کتنے نبیوں کے دنیا میں آنے، کافروں سے ان کے نجات حاصل کرنے اور دین الہی کے غلبے کا مہینہ بھی بتا یا گیا ہے جیسے اسلام اور کفر کا سب سے پہلا معرکہ جنگ بدر بھی اسی مہینے میں پیش آیا اور صرف تین سو تیرہ نہتھے روزہ دار اہل ایمان نے ہزاروں کی تعداد میں ہھتیاروں سے لیس کافروں کو مار بھگایا اور پرچمِ اسلام کو لہرا کر پہلی بار خوشی کی لہر اپنے چہروں پر دوڑتے ہوئے محسوس کیا۔ بڑے ہی خوش قسمت اور خوش بخت ہیں وہ لوگ جو اس خوبصورت اور پاک مہنے کو پاتے ہیں، اپنی طاقت بھر نیک اعمال کرکے اور عبادات میں اپنا وقت لگا کر اپنے رب کی رضا حاصل کرتےہیں، اپنے آپ کو جنت کا موجب بناتے ہیں اور جہنم کی آگ کو اپنے اوپر حرام کرڈالتے ہیں جو ہمیشہ منہ کھولے کسی بھی چیز کو نگلنے کے لئے تیاررہتی ہے، جنت کی لامحدود فصیلوں میں اپنا حصہ طے کرتے ہیں اور چنگھاڑتی جہنم سے اپنا دامن بچا لیتے ہیں۔

ماہ رمضان کی بڑی فضیلت واہمیت ہے یہ مہینہ بابرکت کہے جانے کے ساتھ جہاں رحمت ومغفرت کا مہینہ قرارد یا گیا ہے وہیں اس کے روزوں کے ثواب سے متعلق حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ پاک کہتا ہے کہ میرا بندہ میرے لئے روزہ رکھتا ہے اس لئے میں اس کے روزوں کا اجر اسے دوں گا، دوسری حدیثوں میں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ پاک کے نزدیک مسک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے کیوں کہ وہ بو پورا دن اللہ کے حکم سے کھالی پیٹ رہ کر روزہ رکھنےکے سبب پیدا ہوتی ہے اور اللہ اس سے خوش ہوتا ہے، روزہ میں بھوکا رہنا اور عبادتوں میں اپنے اوقات صرف کرنا، اللہ پاک کو بے حد پسند ہے، حدیث میں ہے کہ اللہ جن لوگوں کی دعائیں بہت جلدی قبول کرتا ہے ان میں سے وہ روزہ دار بھی ہیں جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور اپنی دعاؤں میں اسے پکار کر اس سے اپنی ضرورتوں کا سوال کرتے ہیں اور اپنی بگڑی بنانے کے لئے اس سے  گریہ زاری کرتےہیں، نماز اور روزہ یہ دونوں عبادتیں اللہ کو بے حد پسند ہیں اور ماہ رمضان میں پورے ایک مہینے کے لئے یہ دونوں ایک ساتھ جمع ہوجاتیں ہیں اس لئے ان کی قدرو اہمیت اور فضیلت ومرتبت میں چار چاند لگ جاتا ہے۔

اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ رمضان کے شروع ایام میں جو گرمجوشی ہوتی ہے وہ آہستہ آہستہ اور بسا اوقات پہلے ہفتے میں ہی ختم ہوجاتی ہے اور پھر کئی طرح کے بہانے پیدا ہو نے لگ جاتے ہیں، جن کا عزم پختہ اور ایمان بھرپور ہوتا ہے ان کا بیڑا تو پار لگ جاتا ہے لیکن جن کا ماضی غفلت وسستی میں گزرا ہوا ہوتا ہے، جن کے ایمان کا معیار نہیں ہوتا ان کا دم ٹوٹ جاتا ہے، وہ شکست خوردہ ہوجاتے ہیں اورانہیں کف افسوس ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا لیکن اس کے برعکس اگرحوصلہ بنائے رکھا جائے اورنیک کاروں کی صحبت اختیار کرلی جائے توجہاں نیک صحبت میں نیکی کے راستے آسان ہوتے چلے جائیں گے وہیں نیک اعمال کی عادتیں بھی مستحکم ہوتی جائیں گی ورنہ کاہلوں اور بہانہ بازوں کی صحبت میں تو صرف ناکامی ہی حاصل ہوگی اور گئے وقت پچھتانا کچھ کام نہیں دیتا۔

جس پرتپاک انداز میں ماہ رمضان کا خیرمقدم کیا جاتا ہے اسی طرز پر اگر اس ماہ کو کامیاب بنانے کے لئے من میں ٹھان لیا جائے تو نعمتوں کے علاوہ فیوض وبرکات بھی ہاتھ لگیں گے اور بہانہ بازی سے خود کو رسوا کرنے کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔ رمضان میں مریضوں اور مسافروں کے علاوہ کچھ مخصوص عورتوں کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن خاص طور سے ایسے لوگوں کو اس سے پرہیزاورازحد احتیاط برتنی چاہئے جو بیماریوں کا بہانہ بناتے ہیں اور اس مقدس مہینے میں جہاں شیطان قید ہوجاتا ہے اس کا رول ادا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ماہ رمضان کی سعادتوں سے محروم کرڈالتے ہیں۔

رمضان کا مہینہ سعادتوں کا مہینہ ہے یہ مہینہ صرف نیک اعمال کرنے اور گناہوں کو مٹانے کے لئے آتا ہے اگر اس مہینے میں بھی نیکیاں کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق نہ بنایا جائے اور اپنے دامن کو جہنم کی بھڑکتی آگ سے نہ بچایا جائے تو دنیا کسی طرح تو حاصل ہوجائے گی لیکن آخرت کی کامیابی سے ہاتھ دھونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے خطبے کے لئے ممبر پر چڑھ رہے تھے اور آمین بول رہے تھے بعد میں صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ممبر پر چڑھتے وقت آمین کہنے کی وجہ کیا تھی تو ان وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی بتائی گئ ہے کہ معزز فرشتے جبرئیل یہ کہ رہے تھے کہ جس شخص نے رمضان جیسا مبارک مہینہ پایا اور اپنی مغفرت نہ کرا پایا وہ ہلاک ہو تو اللہ کے نبی نے آمیں کہا، اس بیان سے جہاں اس ماہ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے وہیں اس مہینے میں کئے جانے والے نیک اعمال کے مقدار کا بھی پتہ چلتا ہے ظاہر ہے مبارک مہینے میں ڈھیر سارے نیک اعمال ہی جہنم سے نجات کا باعث بن سکتے ہیں۔

سعادتوں اور برکتوں والے اس مہینے میں جہاں تک ہوسکے عبادات، صدقات وخیرات اور نیک اعمال کرنے کی کوششوں کے ساتھ اپنے اہل خانہ اور بچوں کو بھی اس کی ترغیب دلائی جانی چاہئے اور نیکیاں لُٹ کر جنت میں اپنا مقام بنا لیا جانا چاہئے ایسی ایک سعی کی لہر ہمارے اندر دوڑنی چاہئے اور ایسا ایک بیدار مغز ہمارے ذہن میں پیدا ہونا چاہئے تبھی ہم کامیاب وکامران ہوسکتے ہیں ۔ اس مہنے میں کارخیر سمجھ کر بہت فضول خرچی بھی کردی جاتی ہے اور بہت سی نعمتیں ضائع وبرباد ہوجاتی ہیں جس کے بارے میں خرچ کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچا جانا چاہئے اور مناسب تدبیرات اپنا کر کسی بھی چیز کا استعمال کیا جانا چاہئے ورنہ کار خیر سمجھ کر کیا جانے والا عمل بھی ایسی فضول خرچی کی صورت میں کارشر بن سکتا ہے اور اللہ نے ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے والوں اورغیرمناسب جگہ میں نعمت استعمال کرنے والوں کو ناپسند فرمایا ہے۔ ویسے تو کبھی بھی ہمارے کسی بھی عمل سے کسی بھی انسان کو کوئی تکلیف نہیں پہونچنی چاہئے لیکن خاص طور سے چونکہ اس مہینے میں چہل پہل زیادہ رہتا ہے اس لئے ہمیں اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور کسی ناگہانی صورت میں ہنگامہ کرنے کے بجائے سکون سے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی جانی چاہئے، حدیث میں ہے کہ ایک اچھا مسلم وہ شخص ہے جس کے سارے اعضاء سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔

مسلمانانِ عالم ماہ رمضان کے اس سعید اور مبارک ایام کو لغو اور لہوولعب میں رائیگاں نہ ہونے دیں، عبادات اور صدقات وخیرات میں اپنے اوقات صرف کرنے کے ساتھ خرچ کرنے میں فضول خرچی سے بچیں اور نعمتوں کو ضائع وبرباد نہ ہونے دیں جو ایک بہت بڑا گناہ ہےاور جس گرمجوشی سے اس سعادتوں اور برکتوں والے مہینے کا خیر مقدم کرتے ہیں اسے پورے مہنے برقرار رکھیں اور پورے سال صوم وصلاۃ کا پابند رہنے کی کوشش کریں اور اللہ رب العزت سے اس کی توفیق مانگیں، شروع میں پیدا ہونے والی کاہلی اور سستی کو عزم وحوصلے سے دور کریں، کسی بہانہ بازی کا شکار نہ ہوں اور اگر ہوسکے تو نیک کاروں کی صبحبت اخیتار کریں اور نیک اعمال کو اپنی قسمت بنائیں، رمضان میں کی جانے والی پارٹیوں اور افطار کی عام دعوتوں سے زیادہ ان غرباء ومساکین کا خیال کریں جن کو کھانا کھلانا اورکپڑا پہنانا ایک بہت بڑا کارخیر ہے اور قرآن وحدیث میں بیشتر مقامات پر اس کی تاکید کی گئ ہے۔ کسی دولت مند کو پارٹی دینے سے زیادہ بہتر ہے کسی محتاج کے گھر کا چولہا جلایا جائے، پورا سال تو اس کا خیال نہیں رکھا جاتا کم سے کم اس مبارک اور مقدس مہینے میں کھوج کھوج کر ان محتاجوں کی مدد کی جانی چاہئے جن کا گزارا بمشکل ہوپاتا ہے اور جہاں ان کے رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا وہیں ان کے  بدن پر کافی کپڑے بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے معدوں میں اچھی غزا ہوتی ہےجس کے بارے میں سوچنا اور ضروری اقدام کرنا ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے اگر مسلمانِ عالم اس غریبی اور تنگی کے بارے میں نہ سوچیں تو بھلا کس سے اس کی امید کی جاسکتی ہے، غربت کسی مذہب کو نہیں دیکھتا اور نہ ہی کسی غریب کا کوئی ذات پات ہوتا ہے جس کے پاس زندگی گزارنے کے کافی سامان نہ ہوں اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، انسانوں کی مدد کریں جو مدد کے لئے ہمیشہ اپنی نظریں دولت مندوں پر جمائے رکھتے ہیں اور ڈھیر سارا ثواب حاصل کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ اس مہینے میں ایک نیکی کا ستر ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔ رمضان روزہ رکھنے، نیک اعمال کرنے اور عبادتوں میں تن من دھن سے لگ جانے کا مہینہ ہوتا ہے لیکن افسوس ہمارا زیادہ تر وقت پارٹیوں، افطار کی دعوتوں، نئے پوشاک خریدنے اور زیورات بنوانے میں صرف ہوجاتا ہے اور یہ مبارک مہینہ نامراد ہی گزرجاتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔