زندہ دِل مدیرسید محمد اجمل فرید…

پہلی برسی کے موقع پرخصوصی تحریر

شاہد الاسلام
آج رمضان المبارک کی 27تاریخ ہے۔آج کے ہی دن پورے ایک سال قبل بہار کی اُردو صحافت سے وابستہ ایک ایسی محترم شخصیت نے اس دنیائے فانی کو خیر باد کہاجن کے تذکرہ کے بغیر بہار کی اردوصحافت کی تاریخ نامکمل کہی جاسکتی ہے۔جناب سید محمداجمل فریدکو مرحوم ہوئے کوئی ایک سال کی مدت گزر گئی ۔قمری سال کے لحاظ سے اِن کایوم وفات آج ہی ہے،جبکہ شمسی تاریخ کے مطابق 15جولائی کوان کی پہلی برسی ہے۔جناب اجمل فریدکو اُن کی پہلی برسی کے موقع پر یاد نہ کرنابڑی زیادتی ہوگی کیونکہ یہ ادائیگی رسم کا معاملہ نہیں ہے بلکہ مرحوم سے خاکسارکا ایک ایسا جذباتی رشتہ رہا ہے،جسے کوئی نام تونہیں دیاجاسکتا لیکن اُسے نظر انداز بھی نہیں کیاجاسکتا۔ایک ایسا’’ خاص تعلق‘‘جس کے اظہارکیلئے کوئی بامعنی لفظ موجود نہیں!۔کبھی کبھی ایسا مرحلہ آجاتا ہے،جب بہت کچھ لکھنا ضروری ہوتا ہے،مگر کچھ بھی تحریر کرپانا ممکن نہیں ہوپاتا۔ سیدمحمداجمل فرید مرحوم کے حوالہ سے کچھ ایسی ہی صورتحال سے پورے ایک سال تک دوچار ہونا پڑا ،جن کی ہشت پہلو شخصیت متقاضی ہے کہ انہیںیوم وفات کے موقع پر اُسی شان سے خراج عقیدت پیش کیاجائے،جس کے اصلاًوہ حقدار ہیں لیکن ستم ظریفی کہہ لیجئے کہ اِن کی رحلت کے ایک سال بعدبھی اُس قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہوپارہی ہے،جو واجب الادا ہے۔ پچھلے سال اوقات سحرمیں برین ہیمرج کااُن پر دورہ پڑااور اطباء کی تمام کوششوں کے باوجود انہیں بچایا نہ جاسکا۔واقعی یہ بہارکی اردو صحافت سے سروکار رکھنے والوں کیلئے صدمہ انگیز خبرتھی کہ ایک زندہ دل صحافی اور قومی تنظیم کا مدیر چلتے پھرتے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
راقم الحروف کیلئے قومی تنظیم کے مدیر کا گزرجانا محض ایک ایڈیٹر کی موت نہیں تھی،بلکہ ایک ایسے کشادہ ذہن اور مردم شناس شخصیت کا درمیان سے چلے جانابھی تھا،جن کی کمی کااحساس ہر دن اور ہر وقت ایک سایے کی مانند ہنوزپیچھاکرتارہاہے۔اِس وجہ سے نہیں کہ اِن سے قربت کچھ زیادہ رہی بلکہ اِس بناء پر بھی کہ اُن کی شخصیت ہی کچھ عجیب وغریب تھی۔ 1995سے2006 تک مرحوم اجمل فرید سے جو تعلق رہا، اُسے کاروباری کہاجاسکتا ہے لیکن’’ مکمل کاروباری ‘‘بھی نہیں،لیکن 2006سے اُن کی زندگی کے آخری دن تک جو پائیدار رشتہ قائم رہا،اُسے اعلیٰ اخلاقی اقدارکا انمول نمونہ کہاجاسکتاہے۔ایک نو آموز کی حیثیت سے 1995 میں(بطورنامہ نگارقومی تنظیم) دشت صحافت میں قدم رکھنا اگرچہ محض ایک اتفاق تھالیکن یہ مرحوم اجمل فرید کی سحر انگیزی تھی کہ’صحافت‘کواوقات گزاری کا ذریعہ بنانے کی بجائے بہ طور کریئر اِسے اپنانے کی ترغیب ملی۔ یوں مونگیر سے بہ طور نامہ نگار جڑنے والا تعلق دیکھتے ہی دیکھتے اس قدرمستحکم ہوتا چلاگیاکہ اِن کی خواہش کے مطابق صحافت کے اسرارورموز سیکھنے کی خاطر پہلے مونگیر چھوڑکر عظیم آباد کو جائے قیام بنایااور پھر اُن کی مرضی کے مطابق رانچی پہنچ کر قومی تنظیم کے اشاعتی سلسلوں کے آغاز کا’تاریخ ساز حصہ‘ بننے کا موقع بھی ہاتھ آگیا۔یہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ زمانۂ طالب علمی میں صحافت سے جڑنے والا یہ تعلق صرف اس وجہ سے پائیدار ثابت ہوا کیونکہ ایک شفیق مدیر کی سرپرستی حاصل ہوئی، ورنہ شایداستقامت کی گنجائش نہ نکل پاتی۔اجمل فرید کی دریادلی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب رانچی کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر حقیر نے دہلی کیلئے رخت سفر باندھنا چاہاتو مرحوم نے نہ صرف یہ کہ خوش دلی سے اِس کی اجازت دی بلکہ دہلی کیلئے ٹکٹ کانظم کیااور دعاؤں کے ساتھ رخصت بھی کیا جبکہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جب ایک ملازم کسی ادارہ کوچھوڑ کر جانا چاہتا ہے تو ادارہ کے ذمہ داران نالاں ہو جاتے ہیں، خوشدلی سے کسی کو دعائیں دے کر رخصت نہیں کرتے لیکن مرحوم اجمل فرید نے ایک عجیب قسم کی فراخدلی کا ثبوت دیا۔
عام طورپر صحافت میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے جملہ کاروبار میںیہ روایت رہی ہے کہ ملازمین کا خواہ کسی بھی لحاظ سے تقرر کیوں نہ ہو،تنخواہیں کیاملنی ہیں،معاملہ پہلے طے پاتا ہے اورپھر رہنماہدایات کے مطابق ذمہ داریاں دی جاتی ہیں،مگریہاں معاملہ عجیب وغریب ہی نہیں بلکہ نہایت دلچسپ تھا۔وہ یہ کہ 1995 سے 2006 کے ماہ اپریل تک قومی تنظیم سے مکمل وابستگی تو رہی لیکن اجرت یا حق المحنت کی ادائیگی کا معاملہ جناب اجمل فرید کی صوابدید پر منحصر رہا اوراِس طویل مدت میں کبھی خود مرحوم بھی یہ طے نہیں کر پائے کہ اجرت کیا دی جائے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ علی الحساب جو ادائیگیاں ان اوقات میں کی گئیں،وہ معقول رہیں بلکہ کئی لحاظ سے حوصلہ افزا بھی۔اس سے بھی زیادہ دلچسپ اورحیرت انگیزمعاملہ قومی تنظیم کو خیر باد کہنے کے بعدکا رہا کیونکہ مرحوم کی قربتیں اور فیاضیاں ادارہ سے عملاًعلاحدگی کے بعد کچھ زیادہ ہی بڑھ گئیں۔عام طورپریہ دیکھاجاتا ہے کہ ملازمت والا تعلق ختم ہوجانے کے بعد قربتیں دوریوں میں بدل جاتی ہیں،لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹا تھا اوراِس کی وجہ واقعتاکیا تھی،ہنوز یہ بات سمجھ میں نہیں آسکی۔
مرحوم کے اندرذاتی تعلق کو نباہنے کاجوسلیقہ تھا،اُسے اپنی مثال آپ کہاجاسکتاہے۔ مونگیرکے زمانۂ قیام کے دنوں کی بات ہے،جب خاکسار کی ایک ایسی خبر قومی تنظیم میں شائع ہوگئی،جس کے تعلق سے ہتک عزت کا مقدمہ قائم ہوگیا۔مونگیر کے اُس زمانہ کے رکن اسمبلی اور بہار سرکار کے اُس وقت کے بااثروزیر ڈاکٹر مناظر حسن نے کوشش کی کہ یہ مقدمہ کسی طرح ختم ہو۔مدعی نے مدیر قومی تنظیم کے سامنے یہ شرط رکھی کہ نامہ نگارکو معزول کردیاجائے، بلاشرط مقدمہ اُٹھالیاجائے گا،حقیرکوبہ وجوہ یہ شرط پسند آگئی اوریہ امید بھی پیدا ہوگئی کہ اب یہ معاملہ ختم ہوجائے گا لیکن مدیرقومی تنظیم نے اس شرط کوماننے سے انکار کردیاکہ یہ اُن کے اصولوں سے سمجھوتہ کے مترادف قدم ہوگا۔یہ بھی بڑی دلچسپ سچائی ہے کہ ناچیزکی تمام تر کوششوں کے باوجود خاکسار کی معزولی پر موصوف راضی نہ ہوئے اور یوں آج بھی یہ مقدمہ عدالتی چارہ جوئیوں کے عمل سے گزر رہاہے۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ اعلیٰ انسانی اقدارسے مرحوم اجمل فرید اِس قدرآراستہ تھے، جس کی عمومی طورپر توقع آج کے دورکے کسی بھی اردو کے مدیر سے کم از کم نہیں کی جاسکتی!۔اعلیٰ درجہ کی خلاقی اور حسن سلوک کا یہ معاملہ کسی فردِخاص تک محدود نہیں تھا بلکہ پٹنہ،رانچی اور لکھنؤکے دفاتر کے ادنی سے ادنی کارکنان کے تئیںیہی عمومی جذبہ دیکھنے کو ملتا جسے ان کی مرنجان مرنج شخصیت کاخاصہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
ایک کامیاب مدیر کی جو خصوصیات ہونی چاہئیں،وہ تقریباًتمام کی تمام خوبیاں مرحوم اجمل فرید میں موجود تھیں،سوائے اس کے کہ وہ اخبار کے کارکنان کی کوتاہیوں،غلطیوںیا بے جاغفلتوں کی سرزنش کریں! ۔ کہاجاتا ہے کہ پھلدار درخت ہمیشہ جھکا رہتا ہے،جناب اجمل فرید کامعاملہ بالکل ایسا ہی تھا۔انہیں شرافت کا مجسمہ بھی کہاجاسکتا ہے۔ایسی شرافت جو کبھی کبھی ادارہ کے حق میں بھی غیر مفیدثابت ہوسکتی ہے اور بعض مواقع پرایساہوابھی لیکن اِن کی حلیمی اورانکساری’’ چٹان ‘‘کی طرح ثابت قدم رہی۔یہی وجہ تھی کہ مرحوم کے دورِ ادارت میں قومی تنظیم نے غیر معمولی ترقی کی۔1986میں سید محمداجمل فرید نے اپنے والد مرحوم سیدعمر فریدکی خواہش کے مطابق بہ حیثیت مدیر و مالک اخبار کی ذمہ داری سنبھالی اور تقریباً30 برسوں تک بہ حسن و خوبی موصوف قومی تنظیم کی ترقی و استحکام کیلئے کوشاں رہے۔ کہاجاسکتاہے کہ روزنامہ قومی تنظیم کو ایک پودے سے تناور درخت میں بدل ڈ النے اور اس کی شاخ درشاخ قائم کرنے میں ایس ایم اجمل فریدمرحوم نے جو کارہائے نمایاں انجام دئے، وہ قومی تنظیم کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ایک کامیاب منتظم کی حیثیت سے اخبار کو بہ تدریج آگے بڑھانے کی جو کوشش بہ حیثیت مدیر انہوں نے کی، وہ کامیاب کہی جاسکتی ہے۔عام اردو والوں کی طرح جوش میں ہوش کھو دینے کی کوششوں سے انہوں نے ہمیشہ پرہیز کیابلکہ ہر قدم پلاننگ کے تحت بڑھایا۔خواہ قومی تنظیم کی رانچی سے اشاعت کے آغاز کا معاملہ ہو یا پھر لکھنؤ ایڈیشن کی شروعات کا فیصلہ،یاپھرپٹنہ میں رنگین اخبار کی اشاعت کی غرض سے ملٹی کلر پرنٹنگ مشین کی تنصیب کا مسئلہ ہو،جناب اجمل فرید نے اخبارکے دائرۂ عمل کو سلسلہ وار انداز میں بڑھانے کاایسا فیصلہ کیاجسے دانائی کا مظہر گردانا جاسکتا ہے۔
مرحوم ایس ایم اجمل فرید کے دورِادارت میں قومی تنظیم کا دائرہ اِس وجہ سے بھی خاصا بڑھا،کیونکہ انہوں نے جہاں ایک طرف قومی تنظیم کے صفحات کو کبھی بھی مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی، وہیں دوسری اہم اور خاص بات یہ بھی رہی کہ اخبار کو ’’عوام دوست‘‘ بنانے کی بھی خاص کوشش کی گئی۔اس ضمن میں جو سعی قابل ذکر اور لائق ستائش کہی جاسکتی ہے ،وہ ہے جگہ جگہ قومی تنظیم کے علاقائی دفاتر کا قیام اور مقامی سطح پر خبروں کے حصول اور صفحات کی تیاری کی گنجائش پیدا کرنا۔اس کی وجہ سے ایسی خبروں کی اشاعت کا دائرہ وسیع تر ہوتاچلا گیا،جس کی مقامی سطح پر افادیت اور اہمیت تو بہت زیادہ ہوا کرتی ہے لیکن ریاستی سطح پر اسے اہم نہیں کہاجاسکتا۔
اسی کے ساتھ قومی تنظیم میں ہفتہ وار ایڈیشن کے سلسلے کاآغاز بھی ایک ایسا’’ عمل مسلسل ‘‘ثابت ہوا جو ریاست کے اردو دوست قلمکاروں کو اخبارِمذکور سے جوڑنے کا اہم ذریعہ بن گیا۔علاوہ ازیں اضلاع کے علاوہ بلاکوں،سب ڈویژنوں اوربہت سے قصبوں میں بھی نامہ نگاروں کے تقرر کی ایسی بناء بھی انہوں نے نہایت فراخ دلی کے ساتھ ڈال دی،جوخبروں کی ریل پیل کو بڑھاتی چلی گئی اور نتیجتاًایسی سرگرمیوں کو بھی بآسانی قومی تنظیم کے صفحات میں جگہ ملنے لگ گئی ،جو اس سے قبل تک اخباروں کے صفحات کی زینت نہیں بناکرتی تھیں۔اس کا ایک اہم فائدہ اخبار کو یہ ملاکہ یہ اخبار دن دونی اور رات چوگونی والے انداز میں مقبول عام ہوتا چلا گیا۔فی الواقع اردوصحافت کومقبولیت کی معراج عطاکرنے میں یہ کوششیں اتنی بامعنی ثابت ہوئیں کہ ایسے وقت میں بھی جبکہ ایک نہیں دو دو کارپوریٹ گھرانوں سے متعلق اخبارات بہار کی وادئ صحافت میں مقام بنانے کیلئے کوشاں ہیں،قومی تنظیم اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ منظر عام پر آرہاہے۔
اجمل فرید مرحوم جتنے سلیم الطبع شخص تھے،اُتناہی وہ صحافت کے سفر کو سلیم الفطرت انداز میںآگے بڑھانے میں بھی یقین رکھتے تھے۔خاص طورسے نوآموز کو اُن کی جانب سے ملنے والی نصیحتیں بعض اوقات بڑی دلچسپ ہوا کرتی تھیں۔خاص طور سے ’احساسِ ذمہ داری‘دلانے اور جوابدہی پوری کرنے کے حوالہ سے وہ صرف زبانی جمع خرچ میں یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ خود اپنے ماضی کے اُن واقعات اوراحوال کو بھی دلچسپ اندازمیں وقتاًفوقتاًسنانا نہیں بھولتے ،جوان کیلئے یادگارکہلانے کے مستحق تھے۔ مصر کے سابق صدر انور سادات کے قتل کے دن کا واقعہ ایک دن سناتے ہوئے انہوں نے بتایاتھاکہ انہیں کس طرح والد بزرگوار سے اخبارکی ہاکری کی ہدایت ملی اور کس طرح انہوں نے سبزی باغ کی سڑک پر کھڑے ہوکر سیکڑوں کاپیاں خود فروخت کیں ۔اس طرح کے واقعات سناتے ہوئے موصوف یہ کہنا نہیں بھولتے کہ کوئی بھی شخص چھوٹا کام کرنے سے چھوٹا نہیں ہوجاتا۔بہرحال !برسی کے موقع پر یہی دعاکی جاسکتی ہے کہ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل عطاکرے کہ ہرکسی کی موت کا ایک دن معین ہے اوربقول مرزا شوق لکھنوی ؂
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے

تبصرے بند ہیں۔