حیرت انگیز قرآن- The Amazing Quran قسط (آخری)

از: پروفیسر گیری ملر        ترجمہ: ذکی الرحمن فلاحی مدنی

اگر ہم آج سے چودہ سو سال پہلے کی دنیا میں لوٹ جائیں تو ہم پائیں گے کہ اس وقت کے ترقی یافتہ متمدن معاشروں کو بھی مناطق زمنیہ یا بالفاظِ دیگرٹائم زون(Time Zone) کے متعلق کچھ خبر نہ تھی۔ لیکن قرآن اس ضمن میں جو اظہارِ خیال کرتا ہے وہ انتہائی حد تک حیرت انگیز ہے۔ یہ تصور کہ ایک خاندان کے بعض افرادکسی ملک میں صبح کا ناشتہ تناول فرما رہے ہوں، دریں اثناء اسی خاندان کے بعض دوسرے افرادکسی دوسرے ملک میں ڈنر ٹیبل پر تشریف رکھتے ہوں، اپنے آپ میں بڑا تعجب خیز ہے اور آج بھی اس کو عجوبہ سمجھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے کا انسان اپنے کمزور وسائلِ سفر کے باعث اس قابل نہیں ہو سکا تھا کہ عام حالات میں وہ ایک دن میں تیس میل سے زیادہ مسافت طے کر سکے۔ مثال کے طور پر صرف ہندوستان سے مراکش(Morocco) کا سفر کئی مہینوں میں ہوتا تھا، اور گمان غالب یہی ہے کہ مراکش میں موجود ہندوستانی مسافر دوپہر کا کھانا تناول کرتے ہوئے یہی خیال کرتے ہوں گے کہ ہندوستان میں ان کے اہلِ خانہ بھی اس وقت دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں، کیونکہ ان کو علم نہیں تھا کہ وہ اپنے سفر کے دوران ٹائم زون کو پار کر آئے ہیں۔
لیکن قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے جس کا علم مطلق ہے اور جس سے کائنات کی کوئی حقیقت پوشیدہ نہیں، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن جب قیامت کی بات کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ قیامت کا معاملہ پلک جھپکتے واقع ہوگا:
(وَمَا أَمْرُ السَّاعَۃِ إِلاَّ کَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ ہُوَ أَقْرَبُ)(النحل :77) ’’اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک چھپک جائے، بلکہ اس سے بھی کچھ کم۔‘‘
تو وہ کہتا ہے کہ یہ قیامت بعض لوگوں کو دن میں آ لے گی اور بعضوں کو رات میںآ دبوچے گی:
(أَفَأَمِنَ أَہْلُ الْقُرَی أَن یَأْتِیَہُمْ بَأْسُنَا بَیَاتاً وَہُمْ نَآئمُونَ*أَوَ أَمِنَ أَہْلُ الْقُرَی أَنیَأْتِیَہُمْ بَأْسُنَا ضُحًی وَھمْ یَلْعَبُونَ*أَفَأَمِنُواْ مَکْرَ اللّہِ فَلاَ یَأْمَنُ مَکْرَ اللّہِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ)(الاعراف :97۔99) ’’کیا بستیوں کے لوگ اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے جب وہ سوتے پڑے ہوں؟ یا انہیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔‘‘
ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ وقت کے مختلف مناطق کا علم کائنات کے خالق کے کلام میں موجود ہے، حالانکہ یہ معلومات چودہ صدیوں پہلے کسی کے حیطۂ خیال میں نہیں تھیں۔ ٹائم زون کی آفاقی سچائی، قدیم انسان کی نظروں سے اوجھل اور اس کے تجربات کے دائرہ سے خارج تھی، اور تنہا یہ حقیقت قرآن کو منزل من اللہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
گزشتہ مثالوں کی روشنی میں اگر آپ متبادل احتمالات کا فارمولہ استعمال کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ہر مثال کے ذریعہ قرآن کی صداقت کچھ اور واضح ہوکر سامنے آتی ہے۔ ایسی سینکڑوں مثالیں اور پیش کی جا سکتی ہیں اور ان کے ساتھ صحیح احتمالات کی فہرست بھی دراز تر ہوتی جائے گی۔
ہم ان تمام قرآنی موضوعات سے سرِ دست نہ تعرض کرتے ہوئے صرف ایک چیز کہنا چاہیں گے:یہ احتمال کہ محمدﷺ جو ایک ناخواندہ انسان تھے، انہوں نے بیشمار موضوعات پر بالکل درست اندازے لگائے اور اپنے کسی بھی اندازے میں ان سے غلطی کا ارتکاب نہ ہوا، بذاتِ خود اس احتمال کی صحت کا تناسب اس درجہ کم ہے کہ عقلِ سلیم کا حامل کوئی اسلام کا بدترین دشمن بھی اس کو ماننے سے انکار ی ہوگا۔ لیکن قرآن اس احتمال کے چیلینج کو بھی بڑے معقول انداز میں ختم کر دیتا ہے۔
یہاں میں ایک مثال پر اپنی بات ختم کروں گا، اگر کوئی اجنبی شخص آپ کے علم کی حد تک پہلی بار آپ کے ملک میں داخل ہوتاہے اور آپ سے کہتا ہے :میں تمہارے والد کو جانتا ہوں، میں پہلے ان سے مل چکا ہوں۔ غالب گمان یہی ہے کہ آپ اس نووارد کے بیان میں شک کریں گے اور آپ کا سوال ہوگا :تم یہاں ابھیپہلی بار آئے ہو، تمہیں میرے والد سے تعارف کیسے ہو گیا؟پھر آپ اس اجنبی سے اپنے والد سے متعلق چند باتیں دریافت کریں گے مثلاًمیرے والد کا قد لمبا ہے یا چھوٹا؟ان کا رنگ گورا ہے یا سفید؟ان کی داڑھی کتنی بڑی ہے؟وغیرہ وغیرہ۔
اب اگر اس نووارد اجنبی نے ان تمام سوالات کے صحیح جوابات دے دیے تو آپ کے لیے شک میں مبتلا ہونے کے باوجود سوائے یہ کہنے کے کوئی چارہ نہ ہوگا:مجھے یقین ہے کہ تم میرے والد کو جانتے ہو، مجھے نہیں معلوم تم نے انہیں کیسے جانا؟لیکن بظاہر تمہارا ان سے تعارف ہے۔
قرآن کا اپنے مخاطبوں کے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ ہے، وہ دعوی کرتا ہے کہ وہ خالقِ ارض وسما ء کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ سارے انسانوں کا حق ہے کہ وہ اپنے طور پر سوالات اور مباحثوں کے ذریعہ اس کی
صداقت کے بارے میں اپنا اطمینان کرلیں، یعنی اگر یہ خالقِ کونین کا کلام ہے تب یہ فلاں فلاں چیز کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوگا ………وغیرہ۔
اس ضمن میں یقینی بات یہ ہے کہ جوانسان بھی خود سے قرآن میں بحث وتحقیق کرے گا وہ خود ہی حقیقت کا ادراک کر لے گا۔ ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن ایک ایسا خزانہ ہے جو رہتی دنیا تک کو اپنے بیش بہا لعل وجواہر سے نوازتا رہے گا اور جو انسان جتنا اس کی گہرائی میں غواصی کرے گا اتنے ہی قیمتی موتی اس کی جھولی میں آتے جائیں گے۔چنانچہ ہرصاحبِ عقل انسان پر لازم ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے میں اس کتابِ ہدایت سے مستنیر ہوتا رہے۔

تبصرے بند ہیں۔