عید کی ختم ہوتی اہمیت

صفدر امام قادری
شہرکاری سے پہلے عید عوامی اجتماع کے طور پر زندگی میں ہما ہمی اور خوشی کاپیغام بن کر آتی تھی لیکن اب رسومیات اور ذاتی شناخت کے معاملات زیادہ ہیں اور تہوار کا عوامی روپ کہیں غائب ہوتا جارہا ہے۔
شہروں کی ترقی اور زندگی میں رونق کے اضافے کے ساتھ نہ جانے کئی مورچوں پر تہذیبی شکست و ریخت کے احوال سامنے آتے رہے لیکن ہمیں اس کی خبر بھی نہ ہوئی۔ کبھی عید اور ہلالِ عید ہماری شاعری اور ادبی زندگی کی گھٹّی میں پڑی ہوئی اصطلاحیں تھیں۔ محبوب کی تعریف میں ہلالِ عید کا تذکرہ پرانی شاعری میں بھرا پڑا ہے۔ عید کے روز بچھڑے عاشقوں کو برسرِ عام اپنی کھوئی محبت کو انجام تک پہنچانے کے مضامین سے شعراے قدیم کے دواوین بھرے پڑے ہیں۔ نظیر اکبر آبادی نے تو کسی غیر اہم تہوار کو بھی نہیں چھوڑا لیکن عید پر نظم کہتے ہوئے اپنی عاشقانہ اور ظریفانہ دونوں لہجوں کو کچھ اس طرح سے یکجا کردیتے ہیں کہ ایسے موقعے کا انتظار پورے ایک برس تک کرتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں۔ عید کے روز یوں تو روزہ رکھنا جائز نہیں لیکن ہمارے شعرا نے نہ جانے کتنی آزادیاں حاصل کرنے کی تمنائیں کی تھیں۔
ترقی پسند ادب کا دور آیا اور بیسویں صدی کے ممتاز شعرا نے جب عید کے مضمون کو برتنے کی کوشش کی تو مفلسی اور عدم مساوات کے سوالوں پر ان کی نگاہ گئی۔ مفلس کی عید پر تو پوری نظم لکھی گئی۔ بعض شعرا نے اپنے محبوب سے دور ہونے کی کیفیت پر عید کے موقعے سے دردوغم کا بھی اظہار کیا۔ سب سے زیادہ اسی موضوع پر گفتگو ہوئی کہ دولت کی نابرابری میں آخر کمزور لوگوں کی عید کیا معنی رکھتی ہے؟ تہوار اور عمومی مذہبی مواقع جب معیشت کے دباو میں کسمسارہے ہوں تب شاعر کو کہنا ہی پڑتا ہے:
ہم اب کے عید سے پہلے محرم اوڑھ سوئیں گے نئی فرمایشوں کے ڈھیر اب بچے لگاتے ہیں
تقریباً۸۵؍ برس پہلے پریم چند نے ایک کہانی لکھی تھی’ عیدگاہ‘۔ اس کہانی کا مرکزی کردار حامد اور اس کی دادی امینہ ہمارے اجتماعی حافظے کا مظہر ہیں۔ پریم چند نے صرف معیشی مسئلے تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ تہذیبی، ثقافتی اور جبرِ مشیت کے امور کو بھی اس میں شامل کرتے ہوئے حامد کا کردار کچھ ایسے تراشا تھا جس سے نہ صرف وہ کہانی یادگار ہوگئی بلکہ اردو اور ہندی زبانوں میں اب بھی پریم چند کے کسی منتخب مجموعے میں اس کی شمولیت کے بغیر کام نہیں چلتا۔ عید گاہ کہانی میں حامد کے ذاتی مسائل اپنی جگہ لیکن حامد کو تہوار کے جشن میں الگ تھلگ ہوجانے کی مجبوریوں کو پریم چند نے بڑے سلیقے سے ایک خاص ایجنڈا کے طور پر پیش کیا ہے۔ حامد کا گھر سے نکلنا، راستے بھر اپنے دوستوں سے جھڑکیاں سننا، عید کے میلے میں مٹھائی اور کھلونوں کی جگہ دست پناہ (چمٹا) خریدنا اور اپنی خوشی کے مقابلے میں اپنی دادی کی تکلیفوں کا تدارک کرنا جیسے معاملات اس کہانی کو یادگار بناتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آج ہماری شاعری اور ہماری نثر سے عید اور عیدگاہ کہاں غائب ہیں؟ رمضان کا تو یوں بھی مذہبیت اور مذہبی ماحول کے فقدان کے سبب نئے حالات میں زیادہ اثر ہونا مشکل ہے۔ ہندستانی ماحول میں غور کریں تو عید اب بھی مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار ہے لیکن صارفیت کے نشانات کے مطابق تو عید ضرور آتی ہے ۔ سب کے نئے کپڑے تیار ہوجاتے ہیں ۔ مقدور بھر خریداری اور رنگینی کے نشانات ہماری زندگی اور ہمارے گھروں میں متعین ہوجاتے ہیں۔ پڑوسیوں اور دوستوں سے ایک ہوڑ بھی ہوتی ہے اور نہ جانے کتنے لوگوں کی اپنی صلاحیت سے زیادہ دکھاوے میں خود کو لٹا دینے کا انداز سالانہ بجٹ پہ بار بنتا ہوگا۔ یہ سب ہوتا ہے لیکن اس سے عید کی اجتماعیت کبھی ابھر کر سامنے نہیں آتی۔
عید سے عیدگاہ کا تصور تھا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور شہرکاری نے ہمیں بڑی حد تک مجبور کیا کہ اپنے محلے کی مسجدوں میں ہی عید کی نماز ادا کرلیں۔ شہری زندگی کی سہل پسندی اور کاہلی کا بھی اس میں دخل تھا۔ ایسے میں عید اور جمعہ میں کتنا فرق رہ جائے گا؟ گاؤں اور شہر کے لوگ ایک جگہ جمع ہوں اور اپنی اجتماعیت کی شناخت کے طور پر نمازِ عید یا نمازِ عید الضحیٰ ادا کریں، اس کا تصور ہی شہری زندگی سے رفتہ رفتہ پھسلتا چلا گیا۔ عید الضحیٰ میں تو بالکل پاس کی مسجد میں نماز ادا کرکے جلد از جلد قربانی سے فراغت پالیں ، شہری سماج کا یہ ایسا مذہبی اصول ہے جس پر پوری تاریخ قربان جائے گی۔ جب اجتماعیت کو اپنی سہولت کے نام پر قوم قربان کرنے لگے گی تو بھلا عید عوامی تہوار کیوں مانا جائے؟
عید کا مطلب تھا؛ زکوٰۃ، فطرات اور صدقات سے فارغ ہوکر ، اپنی اور پرائے کی ضرورتوں میں حصہ بن کر رمضان سے عید تک کا سفر طے کرنا۔ فطرے کی رقم کم ہوتی ہے، لوگ اسے ادا کردیتے ہیں۔ زکوٰۃ اس صارفی سماج میں کون حساب کتاب کا جوکھم اٹھائے۔ صحیح غلط مدارس کے افراد دروازے تک پہنچ گئے اور رسیدیں پیش کردیں تو سو پچاس یا پانچ سو ہزار ادا کرکے زکوٰۃ سے ہم اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں۔ آج نہ علماے کرام ، نہ عام مسلمان ایسی کوئی مہم چلاتے ہیں کہ صاحبِ نصاب کو بہر طور زکوٰۃ ادا کرنا چاہیے اور اس کی ادائیگی کے وقت زکوٰۃ کے احکام اور فلسفے کو بھی بہ غور سمجھنا چاہیے۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق نے جنگوں سے پریشان قوم سے زکوٰۃ نہ وصول کیا جائے، اس مشورے پر تلوار کھینچ لی تھی اور تنہا میدان میں اتر آنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ آج کون ہے جو زکوٰۃ کے فلسفے کو سمجھتے ہوئے عوامی طور پر میدان میں اتر آئے اور اپنے مذہبی برادران سے ایمان کے ساتھ اس کی ادائیگی کے لیے مجادلہ کرے؟
زکوٰۃ کی رقم کی تقسیم سے عید کے موقعے سے چند لوگوں کے چہرے پر تہوار کی رونق لوٹ سکتی تھی۔ لیکن یہ تو ہم نے ہونے ہی نہیں دیا۔ مذہبی اور قومی ادارے ایسے بنیادی سوالوں پر بہت کم متوجہ ہوتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی تحریک بھی نہیں چلتی۔ جس قوم میں زکوٰۃ کے سلسلے سے بیداری نہ ہو ، وہاں صدقات کے بارے میں ہوش مندی کیسے آئے گی۔ دکھاوے پر زور بہت ہے لیکن کاموں کو اجتماعی رنگ میں سمجھنا اور انجام دینا ہمیں کم آتا ہے۔ اپنے علما کو سیاست دانوں کے انداز میں استقبالیہ پیش کرنا ہم نے خوب سیکھا ہے لیکن مذہبی احکامات کو عوام الناس تک ان کے واضح مذہبی اور عوامی فلسفے کے ساتھ پیش کرنے میں ہمیں زیادہ دلچسپی نہیں۔
عید کی رونق اور بھائی چارے کا پیغام یوں ہی سمٹ کر ہمارے کمروں میں نہیں آگیا۔ آج نمازِ عید کے بعد عید مبارک کہنے یا مصافحہ و معانقہ میں بھی کوئی عوامی رغبت دکھائی نہیں دیتی۔ عیدگاہ اور مسجدوں میں بھی ہم اپنے رشتہ داروں اور دوستوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ نئے شہری مزاج نے اپنے اپنے فلیٹ میں خود پکاؤ خود کھاؤ کی ایسی مکمل تہذیب پیدا کردی ہے کہ عید اب برتھ ڈے پارٹی سے بھی کم جوش اور جذبے کا تہوار ہوگیا ہے۔ جب اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کرنا ہم بھول جائیں ، خاص طور سے اس وقت جب اس کے لیے مذہبی احکام بھی نازل ہوئے ہوں تب ایسا عتاب آنا ہی تھا۔ اب عید زیادہ سے زیادہ چھٹی کا ایک دن ، آرام کرنے کا ایک موقع یا رمضان کے روزوں سے تھکے ہارے لوگوں کو کھاتے پیتے دنیا سے بے خبر رہ کر اپنے گھروں میں تھکا ن مٹانے کا ذریعہ ہے۔ کاش! رمضان کے روزوں کا اجر حاصل کرنے اور اجتماعی زندگی میں عید سب کے لیے باعثِ خوشی ہوجائے، اس مقصد سے اگر اس تہوار کو منایا جائے تو ہندستانی مسلمانوں کا مذہبی، عوامی اور سماجی ہر اعتبار سے فائدہ ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔