زہریلی ہوئی پھر دہلی کی فضا 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

سردی کے دستک دیتے ہی دہلی والوں کی سانس پھولنے لگی۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے، گزشتہ کئی برسوں سے اکتوبر آتے ہی لوگ سانس لینے میں پریشانی، گلے میں گھر گھرایٹ اور کھانسی کی شکایت کرنے لگتے ہیں۔ اسپتالوں میں سانس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ میڈیا میں ہوا کے خراب ہونے کا شور سنائی دینے لگتا ہے۔ سرکار اور سماج ہوا کی کثافت کو دور کرنے کے لئے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ سیاست میں گرمی آجاتی ہے۔ مرکز ریاست کو اور ریاست مرکزی حکومت کو خراب ہوا کے لئے قصور وار ٹھہرانے لگتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صاف ہوا سب کی ضرورت ہے۔ اور ہوا کے خراب ہونے کی آہٹ بہت پہلے سے سنائی دینے لگتی ہے پھر آلودگی کے خلاف جنگ کے لئے اکتوبر کا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟

دیوالی سے پہلے ایئر کوالٹی پر آئی سسٹم آف ائیر کوالٹی اینڈ ویدر فورکاسٹنگ ریسرچ (سفر) کی رپورٹ نے سب کو چونکا دیا۔ رپورٹ کے مطابق سال میں پہلی مرتبہ نومبر کے شروع میں انڈیکس 500 کے پار گیا۔ پانچ نومبر کو ہوا کی کوالٹی دہلی کے شاہدرہ میں 757، مندر مارگ پر 707، میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم کے پاس 676،جواہر لال نہرو اسٹیڈیم کے قرب وجوار میں 681، آنند وہار 752 اور پوسا روڈ پر 748 ریکارڈ کی گئی تھی۔ جو ہوا کی انتہائی خطرناک سطح ہے۔ غور طلب ہے کہ انڈیکس صفر سے 50 ہونے پر ہوا کو اچھا، 51 سے 100 پر اطمنان بخش، 101 سے 200 کے بیچ نارمل، 201 سے 300 خراب، 301 سے 400 بہت خراب اور 401 سے 500 خطرناک کہا جاتا ہے۔ دہلی کی ہوا میں پی ایم 2.5 ( ہوا میں 2.5 مائیکرو میٹر سے بھی کم موٹائی والے زرات کی موجودگی)  کی سطح 268 اور پی ایم 10 کی سطح 391 ریکارڈ کی گئی۔ جس کے بعد سرکاری مشینری حرکت میں آگئی۔ دہلی کے افسران کے ذریعہ اٹھائے گئے قدموں سے ہوا کی کوالٹی تھوڑی بہتر ہوئی لیکن ایک دن بعد ہی دہلی کی فضا دم گھوٹو ہو گئی تھی۔

ہوا کی آلودگی پر عالمی ادارہ صحت کی اکتوبر میں آئی رپورٹ میں ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ آلودہ ہوا میں (جیسی کہ دہلی کی ہوا ہے) سانس لینا ان کے لئے موت کی سزا کے برابر ہے جو پھیپھڑوں یا دوسری سانس کی بیماریوں سے متاثر ہیں۔ اسی طرح کی بات سر گنگا رام اسپتال کے سرجن ڈاکٹر شری نواس کے گوپی ناتھ نے کہی۔ جس کے بعد ہی این جی ٹی نے این سی آر میں دو نومبر سے پندرہ نومبر تک تمام تعمیراتی کاموں پر پابندی لگا ئی تھی۔ دہلی کے آس پاس کے کریشر بھی بند کر دئے گئے۔ سپریم کورٹ کو ہوائی آلودگی روکنے کے لئے سخت اقدامات جاری کرنے پڑے۔ ان میں دیوالی پر رات کو دس بجے تک پٹاخے جلانے کی اجازت اور پندرہ سال پرانی گاڑیوں کو ضبط کیا جانا شامل ہے۔ اب تک چالیس لاکھ گاڑیوں کے ایسے مالکان کو نوٹس جاری کیا جا چکا ہے، جن کی گاڑیاں پندرہ سال سے پرانی ہو چکی ہیں۔ لیکن دیکھا گیا کہ عوام نے دیوالی پر عدالت عظمیٰ کی پرواہ کئے بغیر جم کر پٹاخے چھوڑے اور بعض مقامات پر احکامات کی خلاف ورزی کی گئی۔ دیر رات تک پٹاخوں کے چلنے کی آوازیں آتی رہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام فضائی آلودگی کو لے کر کتنے حساس ہیں۔

دہلی کی ہوا میں زہر گھولنے کے لئے اتر پردیش، ہریانہ، پنجاب کے کسانوں کے ذریعہ عدالت کی سخت پابندی کے باوجود فصلوں کی سوکھی جڑیں (پرالی) جلانے کو ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ جس کا دھواں دہلی میں داخل ہو کر لوگوں کے لئے مصیبت بنتا ہے۔ اور دہلی کی فضا کو زہریلا بناتا ہے۔ ایس اے ایف اے آر (سفر) کی ویب سائٹ کے مطابق یہ موسمی حالات کی وجہ سے ہے، پرالی جلنے کی حصہ داری اس میں بہت کم رہ گئی ہے۔ دہلی کے تین سو کلومیٹر کے دائرے میں تیرہ کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانے ہیں۔ جو دن رات دھواں اگلتے رہتے ہیں۔ کئی سیمنٹ کی فیکٹریاں ہیں جن سے نکلنے والی دھول فضا کا حصہ بنتی ہے۔ اس میں ہریانہ کے اسٹون کریشر مزید اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی کی سرحد پر بنائے گئے ڈمپنگ یارڈ میں کوڑا سال بھر جلتا رہتا ہے۔ دہلی کے باہر سے آنے والی پرانی موٹر گاڑیاں بھی دہلی کی فضا کو آلودہ بنانے میں اہم کردار نبھاتی ہیں۔ باقی رہی سہی کسر دہلی کا جگہ جگہ لگنے والا جام پوری کر دیتا ہے۔ ٹریفک پولیس کی دلچسپی جام کھلوانے کے بجائے چلان کاٹنے اور پیسے وصولنے میں زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ کبھی کبھی ٹریفک چیکنگ از خود ٹریفک جام کی وجہ بنتی ہے۔ عام طور پر یہ چیکنگ پیک آور میں کی جاتی ہے جو تکلیف کا سبب بنتی ہے۔ دہلی کے موسمی حالات بھی ہوائی آلودگی کے لئے کافی حد تک ذمہ دار ہیں۔ ان کی بدولت ہی دھواں اور دھول دہلی والوں کا دم گھونٹتا ہے۔

جو کوششیں اکتوبر، نومبر میں کی جاتی ہیں اگر ان پر سال بھر دھیان دیا جائے تو دھواں اور دھول سے دہلی والوں کو نجات مل سکتی ہے۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ فضائی آلودگی کبھی اس کا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ ہوا کی کوالٹی سدھارنے کو حکومت نے اپنی ترجیحات اور قومی پالیسی میں شامل کیا۔ سرکار اور عوام نے ہوا کی کثافت کو دور کرنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں تک کہ ہفتہ میں ایک دن موٹر گاڑیوں کے بجائے سائیکل کی سواری کو رواج دیا۔ دنیا کے آلودہ شہروں میں سب سے زیادہ شہر بھارت میں ہیں۔ آلودگی کو دور کرنے کی کوششوں کے ساتھ عوام کو جوڑنے اور نگرانی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی آلودگی پیدا کرنے والے ذرائع کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ آلودگی کو کنٹرول کرنے والی تکنیک کو استعمال کریں۔ کثافت کے معاملہ میں سیاست کرنے کے بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اسے دور کرنے کے لئے سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے کیونکہ سانس سب کو لینا ہے۔ سانس کے لئے صاف ہوا کی ضرورت ہے۔ ہم نے اسے خراب کیا ہے اس کی کوالٹی کو سدھارنے کی ذمہ داری بھی ہماری ہی ہے۔ ترقی ضرور ہو لیکن زندگی کی قیمت پر نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔