سائنس کے لیے دورِ حاضر کا سب سے بڑا راز

ادریس آزاد

ہزاروں سال سے انسان کائنات کے بارے میں سوچتے آرہے ہیں، خصوصاً یہ سوال کہ کائنات اور اس کے یہ سارے ستارے، سیارے کیسے بنے ہونگے؟ لیکن کائنات کے بارے میں جس قدر علم پچھلی صدی اور موجودہ صدی میں انسان کے پاس آیا ہے پوری علمی تاریخ میں انسان کے پاس کبھی نہیں رہا۔ مثال کے طور پر،

اگر آپ فزکس کے طالب علم ہیں تو Pair Production اور Annihilation سے ضرور واقف ہونگے۔ یہ ایک تجربہ شدہ حقیقت ہے کہ آپ ایک فوٹان کو کسی نیوکلی سے ٹکرائیں تو دو لیپٹانز پیدا ہوجاتے ہیں جن میں سے ایک الیکٹران کہلاتا اور دوسرا پازیٹران کہلاتاہے۔ اب چونکہ فوٹان خود مادے کا ذرہ نہیں سو یہ یعنی فوٹان مادہ نہیں اور اس کے ٹکراؤ سے الیکٹران پیدا ہوگئے جو مادے کے ذرے ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ آپ نے آؤٹ آف نتھنگ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مادہ پیدا کرلیا ہے۔ جو لوگ کوانٹم فلیکچوئشن سے واقف ہیں وہ بھی یہ جانتے ہیں کہ مادہ کے آؤٹ آف نتھنگ پیدا ہونے پر موجودہ دور کی فزکس کو یقین ہے۔ اب آپ کچھ کوارکس Quarks لیں اور کچھ لیپٹانز (مثلاً الیکٹران) لیں تو آپ اُن کے ملاپ سے نیا ایٹم تخلیق کرسکتےہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے، یعنی نیا ایٹم تخلیق کرنا گویا مادہ تخلیق کرنا ہے اور مادہ تخلیق کرنا گویا کائنات تخلیق کرنا ہے۔ بہترین اندازے ہمیں بتاتے ہیں کہ کائنات میں ایٹمز کی کُل تعداد، ایک کے بعد اسی صفروں کے برابر عدد جتنی ہے۔ یہ باتیں ہم نیوکلیئر فزکس یا کیمسٹری میں ہرروز پڑھتے ہیں۔ تاہم اگر ہم اِس کائنات میں موجود تمام ستاروں اور سیاروں کا مادہ جمع کریں تو یہ کائنات میں، مادےاور توانائی، کی کُل مقدار کا فقط 0.5 فیصد ہے۔ یعنی پورا ایک فیصد بھی نہیں بلکہ ایک کا بھی آدھا۔ حتیٰ کہ اگرہم اس میں وہ تمام ہائیڈروجن گیس بھی جمع کردیں جو ستاروں اور سیاروں کے درمیان خلا میں موجود ہے اور جسے ہم روشنی کی موجودگی میں بھی نہیں دیکھ سکتے تو تب بھی کُل ملا کر یہ کائنات میں موجود مادے اور انرجی کا4.0 فیصد بنتاہے۔ تو وہ باقی چھیانوے (96) فیصد کہاں ہے ؟ اور ایسا کیوں ہے کہ ہم اُسے دیکھ بھی نہیں سکتے؟سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات تین مختلف قسم کے مواد سے مل کر بنی ہے،

۱۔ 4 فیصد عام مادہ

۲۔ 23 فیصد وہ مواد جسے ڈارک میٹر (Dark Matter) کہاجاتاہے۔

۳۔ 73 فیصد وہ مواد جسے ڈارک انرجی (Dark Energy) کہا جاتاہے۔

ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگرچہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ملتے جلتے نام ہیں لیکن یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔

سائنس دان ایک عرصہ سے جانتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ اور یہ بِگ بینگ کی وجہ سے ہے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ لیکن جب ہم گریوٹی (کشش ثقل) کی مقدار کا مطالعہ کرتے ہیں تو واضح طور پر نظر آتاہے کہ بالآخر کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کو سست ہونا پڑیگا۔ کیونکہ اب تک ہم صرف یہ جانتے تھے کہ گریوٹی ایک قوتِ کشش ہےاور یہ نہیں جانتے تھے کہ گریوٹی کی کوئی قسم قوتِ دفع یعنی پرے دھکیلنے کی بھی ہوسکتی ہے۔ اگر ہم ایک گیند کو اُوپر کی طرف پھینکیں تو وہ واپس زمین پر آگرتی ہے کیونکہ اوپر کی طرف جاتے وقت اس کی حرکت سست پڑتے پڑتے ایک مقام پر ختم ہوجاتی ہے، تب وہ واپس گرتی ہے۔ چنانچہ کشش ِ ثقل کی موجودگی میں یہ واضح تھا کہ تیزی سے باہر کی طرف پھیلتی ہوئی کائنات کی رفتار یقیناً وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جارہی ہوگی، بالکل ویسے جیسے اوپر کی طرف جاتی ہوئی گیند کی۔ اس وقت تک کائنات کے پھیلاؤ اور اس کے مستقبل کے بارے میں تین نظریات تھے۔

۱۔ کائنات ہمیشہ ہمیشہ پھیلتی چلی جائے گی اور کبھی نہ رکے گی۔

۲۔ کائنات پھیلتی رہے گی اور آخر ایک خاص وقت میں کسی خاص مقام پر بالکل رُک جائے گی اور پھر رکی رہے گی۔

۳۔ کائنات ایک خاص وقت تک پھیلتی چلی جائے گی اورپھر ایک وقت آئے گا جب گریوٹی کی قوت اس کو واپس کھینچنا شروع کردے گی اور کائنات واپس سکڑنا شروع ہوجائے گی، جیسے ہم گیند کو اُوپر پھینکتے ہیں تو وہ ایک مقام تک جاکر واپس نیچے کی طرف گرتی ہے۔

ان میں سے کونسا جواب درست تھا، یہ معلوم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کو ٹھیک ٹھیک ماپا جاسکتا۔ چنانچہ دورِ حاضر کی فلکیات کے پاس اس رفتار کی پیمائش کا ایک طریقہ تھا۔ اور وہ تھا ” سپرنووا” کے پھٹنے کا منظر۔ سپرنووا دھماکہ ایک مرتے ہوئے ستارے کا آخری دھماکہ ہوتاہے جس کے بعد وہ پھٹ جاتاہے۔ اور بہت ہی بڑا آگ کا شعلہ طاقتور دوربینوں کے ذریعے آسمان پر صاف دیکھا جاسکتاہے۔ سپرنووا کی یہ قسم کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کی پیمائش کے لیے مناسب ترین ذریعہ ہے۔

چنانچہ ٹیکنیک یہ ہے کہ چونکہ دور کی روشنی مدھم اور نزدیک کی روشنی تیز اور زیادہ چمکدار ہوتی ہے سو ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر کوئی سپر نووا زیادہ چمکدار دھماکے سے پھٹا ہے تو وہ نزدیک ہے اور جو مدھم دھماکے سے پھٹاہے تو وہ دور ہے۔ پیمائش کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ علم فلکیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ جو ستارے ہماری طرف یعنی زمین کے نزدیک آتے جاتے ہیں وہ نیلے سے نیلے ہوتے جاتے ہیں۔ اور جو ستارے ہم سے دور جارہے ہیں وہ سُرخ دکھائی دیتے ہیں۔ جتنا کوئی ستارہ زیادہ سُرخ ہوگا اتناہی زیادہ رفتار کے ساتھ وہ ہم سے دور جارہاہوگا۔ کسی ستارے کا سُرخ سے سُرخ ہوتے چلے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ستارہ زیادہ سے زیادہ رفتار پکڑتے ہوئے ہم سے دور جارہا ہے۔ کہکشائیں سرخ دکھائی دیتی ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ ہم سے دور جارہی ہیں۔ چنانچہ جب ہم ایک ہی رُخ پر دو کہکشائیں دیکھتے ہیں جن میں سے ایک کم سُرخ اور دوسری زیادہ سُرخ دکھائی دیتی ہے تو ہم کہتے ہیں زیادہ سُرخ کہکشاں زیادہ تیز رفتار سے کم سُرخ کہکشاں سے بھی دور جارہی ہے اور ہم سے بھی۔ اور اس طرح ہم جان جاتے ہیں کہ ایک کہکشاں دوسری کہکشاں سے دوگنا یا اس سے زیادہ فتار سے دور جارہی ہے۔ سو کسی کہکشاں کا رنگ اس کی رفتار کو ظاہر کرتاہے۔

کہکشاؤں کی پیمائش کے ان دو طریقوں میں ماہرین ِ فلکیات کو کوئی اختلاف نہیں۔ چنانچہ 1998ء میں یہی ٹیکنیک استعمال کرتے ہوئے دو بڑے تجربات کیے گئے۔ جس میں ‘دور سے دور’ موجود سپرنووا کی ولاسٹی کا مطالعہ کیا گیا۔ ان تجربات کے ذریعے معلوم ہوا کہ کائنات کے پھیلاؤ والے نظریے کے مطابق کی جانے پیش گوئیوں کی نسبت کائنات کا سب سے دور سپر نووا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قدرے زیادہ مدھم تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ستارے ان فاصلوں سے کہیں زیادہ دور تھے جن کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ اس نتیجے نے ماہرینِ فلکیات کو شش و پنج میں ڈال دیا۔ کیونکہ اب تک یہ سمجھا جاتاتھا کہ گریوٹی صرف قوت ِ کشش ہے اور چونکہ ستارے دور سے دور ہوتے جارہے ہیں اس لیے ان کے درمیان یہ کشش کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہے اور اس لیے کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار بھی سست سے سست ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہی حساب کتاب لگا کر 1998 کے تجربات کیے گئے اور سائنسدانوں کو یقین تھا کہ انہوں نے ‘دور سے دور’ موجود سپرنووا کے فاصلے کا جو اندازہ گریوٹی کے اعدادو شمار سے لگایا تھا وہ بالکل درست ہوگا۔ لیکن سپرنوووا اندازے سے زیادہ مدھم نکلا تو سائنسدان کو حیرت ہوئی۔ گویا کائنات کے ستارے کشش ثقل کے ذریعے لگائے گئے اندازوں پر پورے نہ اُترتے تھے۔ لیکن انہی تجربات میں جو زیادہ حیران کردینے والے نتائج سامنے آئے وہ یہ تھے کہ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کم نہیں ہورہی بلکہ بڑھ رہی ہے۔ اس نتیجے نے سائنسدانوں کو چکرا دیا۔ کیونکہ ہم گریوٹی کے بار ے میں جس قدر جانتے ہیں اس حساب سے کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کو وقت کے ساتھ ساتھ سست ہوتے چلے جانا چاہیے تھا۔ لیکن 1998 ء کے تجربات سے جو ڈیٹا حاصل ہوا وہ پرانے خیال کی نفی کررہا تھا۔

چنانچہ یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جس ولاسٹی سے کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جارہی ہیں اور جس تیزی کے ساتھ وہ ولاسٹی بڑھتی جارہی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے پرے دھکیلنے والی گریوٹی ایک اور قسم کی گریوٹی ہے جو چیزوں کو ایک دوسرے سے پرے دھکیلتی ہے۔ اسے ہم "Repulsive Gravity” (قوتِ دفع والی گریوٹی) کہہ سکتے ہیں۔ نہایت حیرت کی بات یہ ہے کہ آئن سٹائن نے جب جنرل تھیوری آف ریلیٹوٹی پیش کی تو اس نے اپنی مساوات میں ستاروں کو ایک دوسرے سے پرے رکھنے کے لیے ایک “Cosmological Constant” لیا تھا۔ یعنی آئن سٹائن نے بھی ایک طرح کی قوتِ دفع والی گریوٹی فرض کی تھی۔ اسے اس فرضی گریوٹی کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ سپیس مادے کی قربت میں Bend ہوجاتی اور گریوٹی کو بالآخر ایک قوتِ کشش بناتی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ گریوٹی کی کشش، کسی قسم کی قوتِ دفع کی غیر موجودگی میں کائنات کو واپس پیچھے کی طرف کھینچ کر سکیڑ دےگی۔

لیکن بعد میں جب ہبل نے یہ بتایا کہ کائنات تیزی کے ساتھ باہر کی طرف پھیل رہی ہے تو آئن سٹائن نے اپنے کاسمولوجیکل کانسٹینٹ کو اپنی مساواتوں سے نکال دیا اور اُسے اپنی زندگی کا Biggest Blunder کہہ کر پکارا۔ لیکن اب آکے تازہ تجربات سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے مشاہدات کی تسکین اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم ایک قوتِ دفع (Repulsive Kind of Gravity) کی حامل گریوٹی تصور میں نہ لائیں۔ گویا آئن سٹائن کا پہلا خیال جو قوت ِ دفع کی گریوٹی فرض کرنے پر مشتمل تھا، درست تھا۔ 1998 ء کے تجربات کے بعد جن نئی باتوں کا پتہ چلا ہے کہ کائنات کی ہر کہکشاں نہایت تیزی کے ساتھ باہر کی طرف دوڑتی چلی جارہی ہے اور ان کی رفتار میں ہرگزرنے والے وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے تو ہمیں ایک ایسی بے پناہ توانائی کی ضرورت پیش آگئی ہے جو ان سب اجرام ِ فلکی کو پوری قوت سے باہر کی طرف پھینک رہی ہو۔ لیکن پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ اس قسم کی گریوٹی کا سورس کیا ہوسکتاہے؟

چنانچہ سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات میں ایک خاص قسم کی توانائی موجود ہے جو طاقت میں حد سے زیادہ ہے۔ اور وہی توانائی ہے جو تمام اجرام ِ فلکی کو باہر کی طرف پھینک رہی ہے۔ نہ صرف باہر کی طرف دھکیل رہی ہے بلکہ ان کی رفتار میں اسراع (ایکسیلیریشن) بھی پیدا کررہی ہے یعنی ان کی رفتار مسلسل بڑھارہی ہے۔ پس سائنسدانوں نے اس انرجی کو "ڈارک انرجی” کا نام دیا۔ سائنسدان اگرچہ ڈارک انرجی کے مفروضے سے سوفیصد مطمئن نہیں ہیں لیکن اب تک پیش کی جانے والی تمام تر توجیہات میں یہ سب سے بہتر یہی سمجھی جارہی ہے کیونکہ اس کے حق میں بے شمار تصورات گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔