ساری دنیا پر ہے احسانِ حسین

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی

اللہ تبارک وتعالیٰ نےسال میں کل بارہ مہینے بنائےہیں، اُن میں چار مہینے ایسے ہیں جو اِنتہائی حرمت، عظمت اور برکت والے ہیں (توبہ:36)، اُنھیں میں سے ایک ماہِ محرم الحرام بھی ہے جو بے پناہ خیروبرکت کا حامل ہے۔ حدیث پاک کے مطابق محرم الحرام اللہ رب العزت کا مہینہ ہے۔ ( مسلم:1163)

ثاس مہینے سے اسلامی نئے سال کا آغاز ہوتا ہے، اس لیے یہ مہینہ اس بات کی دعوت بھی دیتا ہے کہ اپنےگذشتہ سال کا محاسبہ کیاجائے اوریہ عہد بھی دوہرایاجائےکہ گذشتہ سال میں دینی واخلاقی اعتبارسے جو کچھ کمیاں رہ گئیں اُنھیں اِمسال یقینی طورپر  دور کرلیاجائےگا اور اِس طرح ایک نئے جوش وعزم کے ساتھ دینی واخلاقی دونوں محاذ وں پر استقامت کا مظاہرہ کیا جائے۔

ثاس مہینے میں ایک خاص دن بھی آتا ہے جسے ہم اور آپ عاشورہ کے نام سے جانتے ہیں۔ عاشورہ کادن اپنے اندر بےپناہ  خوبیاں رکھتاہے، مثلاًایک حدیث پاک کے مطابق یومِ عاشورہ کا روزہ سال بھرکے گناہوں کا کفارہ بنتاہے( مسلم:1162)، ایک حدیث پاک کے مطابق ماہِ رمضان کے بعد نفلی روزوں میں سب سے افضل عاشورہ کاروزہ ہے( مسلم:1163)، تمام انبیاو مرسلین نےیومِ عاشورہ کا باضابطہ روزہ رکھا، خود سرورکائنات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےماہِ رمضان کے روزوں کے ساتھ عاشورہ کے نفلی روزے کا خاص اہتمام فرمایا، اور اپنی امت کو بھی اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب دی۔ (بخاری:3942)

ایک حدیث پاک میں ہے کہ عاشورہ کے دن اپنے اہل وعیال کے ساتھ غرباومساکین پر خرچ کرناسال بھر کے لیے رزق میں کشادگی کا باعث ہے۔ (شعب الایمان:3515) حضرت سفیان ثوری نےاس کاتجربہ کیاتوصحیح پایا۔ (غنیۃ الطالبین، ص:54)

ث اسی مہینےمیں عاشورہ کے دن نواسۂ رسول، جگرگوشۂ خاتون جنت سیدنااِمام عالی مقام نےجامِ شہادت نوش فرمایا اور اپنی جان دےکراِسلام کوتقویت بخشی، ساتھ ہی اپنے بہتّر (72) جانثاروں کو ایک ایک کرکے اسلام کی بقاکے لیےقربان کردیا، لیکن فاسق وفاجراَمیر کی نہ تو بیعت کی اور نہ ہی اِس کے آگے سرنگوں ہوئے۔

ثیہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنالازم ہے کہ اِمام حسین رضی اللہ عنہ کی پرورش وپرداخت اورتعلیم وتربیت معلم کائنات، مولائے کائنات اورخاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراکی نگرانی میں ہوئی، گویاآپ بچپن ہی سے اِن تینوں پاکیزہ ترین شخصیات، یعنی تاجدارِنبوت، تاجدارِولایت اورتاجدارِخواتین جنت کی خاص عنایات کامرکزرہے، نتیجتاً صالحیت اور زہدوتقویٰ کےاعلیٰ صفات سے متصف ہوئے، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نےآپ کوجنتی جوانوں کا سردارقراردیا، اورپھر اَپنے جسم کاٹکڑا بھی بتایا، تاکہ ہرعام و خاص پر اِمام حسین رضی اللہ عنہ کی عظمت ورفعت واضح ہوجائے۔

مذکورہ بالافرمودات کی روشنی میں دیکھاجائے توجہاں محرم الحرام کی فضیلت وعظمت فرمان الٰہی او رقول نبوی وعمل نبوی سے ثابت ہے، وہیں اِمام عالی مقام کی عظمت ورفعت بھی فرمان الٰہی اور قول نبوی و عمل نبوی سے ثابت ہے۔ چنانچہ اس تناظرمیں عوام و خواص کا ایک بڑا طبقہ جہاں محرم کی خیرات وبرکات سے حصہ پانے کے لیے روزہ رکھتا ہے، اہل وعیال کے ساتھ ساتھ غرباو مساکین کے لیےکھانے پینے کا انتظام کرتا ہے، وہیں امام عالی مقام کی یاد میں مجلس خیر کا اہتمام بھی کرتا ہے، اورمحض ثواب کی نیت سے عاشورہ کے دن سبیل لگاکر لوگوں میں میٹھی چیزیں بھی تقسیم کرکے صدقے کاکام کرتا ہے۔

لیکن اِنتہائی افسوس کی بات ہے کہ بعض افرادجوصبح وشام اللہ ورسول کا نام لیتےہیں، پابندی سے نمازیں اداکرتے ہیں، اورکلمہ اوردرودپاک کا ورد بھی کثرت سےکرتے ہیں، اِس کے ساتھ ہی وہ ایک طرف توقول رسول اور عمل رسول کے مطابق محرم کی فضیلت اور عاشورہ کے روزے کےقائل نظرآتےہیں مگردوسری طرف اِمام عالی مقام کی صالحیت وفضیلت پر قول رسول ہونے کے باوجودنہ تواُن کی یادمیں منعقدمجلس خیر کو اَہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی اُن کی شہادت اُن کے نزدیک کچھ معنی رکھتی ہے، بلکہ وہ لوگ آپ کے اِس مجاہدانہ عمل کومحض سیاسی جنگ اور حکومت کی خاطرایک لڑائی قراردیتے ہیں (معاذاللہ)، جب کہ اِمام عالی مقام کی شہادت کی خبرخود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی، اور اِس پر قول رسول موجودہے۔ ( ترمذی:3771)

لہٰذامحرم اورعاشورہ کےدن مسنون اعمال کے ساتھ اِمام حسین کی عظمت ورفعت، اُن کی پاکیزہ سیرت واخلاق، اُن کی شہادت اور اُن کے صبروتحمل کے بیان کے لیے اگرکوئی شخص یادِحسین کی مجلس کا انعقاد کرتاہے، صدقات وخیرات کے طورپر سبیل کا اہتمام کرتا ہے، یااپنے اہل وعیال کے ساتھ غرباومساکین کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے تو اِس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ ایک مستحب ومباح عمل ہے کہ اس کے نہ کرنے سے گناہ تو نہیں، مگرایسا کرنےپر اللہ رب العزت کی طرف سے ثواب ضرور ملتا ہے، بلکہ ایک نہج سے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مجلس خیر، صدقات وخیرات اور غرباو مساکین کو کھانا کھلاناایسےمنصوص ومسنون اعمال ہیں، جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندوں کو اَپناخاص قرب عطا فرماتا ہے۔ البتہ! ایسے مواقع پر فضول خرچی، نام ونمود اور خرافات سےبہرحال پرہیز کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ یہ باتیں شیطانی عمل سے تعلق رکھتی ہیں اوربہترسے بہتر اعمال کو ضائع اور تباہ کردیتی ہیں۔

 یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اِمام حسین نے کربلا میں یزیدیوں کے خلاف جوجہادکیا تھا، وہ دین کی سربلندی کے لیے نہیں، بلکہ وہ محض سیاسی اورحکومت کی خاطرایک جنگ تھی، اُنھیں معلوم ہوناچاہیے ہیں کہ جن کی طہارت پرنص قرآنی:’’اے اہل بیت!اللہ آپ لوگوں سے ہرگندگی کودور کردیتا چاہتا ہے اور خوب اچھی طرح پاک صاف کردینا چاہتا ہے۔ ‘‘احزاب:33)شاہد ہو، اور جن کی زندگی صبرورضا کے سائےمیں پروان چڑھی ہو، صبر باللہ(اللہ پرصبر)، صبر مع اللہ(اللہ کے ساتھ صبر) اور صبرللہ(اللہ کے لیے صبر) جن کے خمیرمیں شامل ہو، اورجنتی جوانوں کی سرداری جن کے حصے میں لکھ دی گئی ہو، کیاوہ اِس فانی دنیاکی فانی چیزوں کے لیے اپنی ضمیر کا سودا کریں گے، اورجو ہر چیزپرقدرت رکھنے کے باوجودکبھی پیاس سےآزمائے جائیں، کبھی بھوک سے آزمائے جائیں، کبھی مال کے تلف ہونےسے آزمائےجائیں، کبھی آل واحباب کی جدائی سےآزمائے جائیں اور کبھی جان سے آزمائے جائیں، پھربھی وہ ہر آزمائش اورہر امتحان میں کامیاب وکامراں ہوتے نظرآئیں، کیا وہ محض دنیوی تخت وتاج کے لیےاپنے ناناجان، یعنی اللہ کے محبوب سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام رسالت کو داغدار کریں گے؟ہرگزنہیں !

ثپھریہ کہ اگر اِمام عالی مقام کودنیوی جاہ ومرتبت اوردنیوی حکومت چاہیے تھی تواِس کےلیے اپنی اور اپنےاحباب و اقارب کی جان قربان کرنے کی کیا ضرورت تھی، بلکہ یہ چیزیں تو آپ یزیدکی بیعت کرکے بھی حاصل کرسکتے تھے، جس کے لیے خود یزید تیاربھی تھا۔

ث مزیدیہ کہ امام عالی مقام کو باغی قراردینا اورماہِ محرم کی حرمت کے خلاف جنگ کرنےکاملزم بتانابھی کسی طرح سے درست نہیں، اس کی دو وجہیں ہیں :

1۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اورحضرت امیرمعاویہ کے معاہدےمیں یہ شق شامل تھی کہ حضرت امیرمعاویہ کے بعد خلافت امام حسن، یا اُن کے چھوٹے بھائی امام حسین کو سونپ دی جائےگی۔ اس اعتبارسے قانونی طورپریزیدکاامیرہونا ہی طے نہیں، پھریہ کہناکہ امام عالی مقام نے بغاوت کیا، چہ معنی دارد؟پہلے یزیدکا قانونی طورپر امیرہوناتو طے ہوجائے، پھربغاوت کی بات آئے۔ کیوں کہ امام عالی مقام کی بغاوت، یزیدکی امارت پر موقوف ہے، اور جب تک اُس کی امارت ثابت نہ ہوجائے، اس وقت تک امام عالی مقام کو باغی کہنا نادانی وناسمجھی ہے۔

2۔ امام عالی مقام نے یزید سے مقابلہ آرائی کے لیے نہیں، بلکہ کوفیوں کے بےپناہ اصرار اوردعوت پر مدینہ منورہ کی جدائی برداشت کی تھی۔ پھر جب یزیدی فوجیوں نے آپ کوہرطرف سےگھیرلیااور جنگ پرمجبور کیا، توایسے عالم میں بھی آپ نے جنگ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس کے لیے یہ تین شرطیں بھی رکھیں کہ جہاں سے میں آیاہوں مجھے وہاں جانے دیاجائے۔ سرحدکی طرف نکل جانےدیاجائے، یا پھریزیدسے گفتگوکاموقع دیاجائے۔ لیکن ان میں سےکسی ایک بھی شرط کو نہیں ماناگیا۔ پھر اگر امام عالی مقام مقابلہ آرائی کے لیے جاتے تو بہتّر(72)افرادکے ساتھ کیوں جاتے، اُنھیں تو ایک عظیم لشکر لے کر جانا چاہیے تھا، جب کہ ایسا نہیں ہوا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے امام حسین کی یہ قربانی کسی بھی نہج سےحصولِ دنیا، بغاوت یاماہِ محرم کی حرمت کی پامالی کے زمرے میں شامل نہیں، بلکہ یہ ہراعتبارسے دین کی بقاوتحفظ اور اللہ ورسول کی رضا وخوشنودی کے لیے تھی۔

ان تمام باتوں کے باوجودجو اَفراد اِمام عالی مقام سے محبت وعقیدت کادم بھرتے ہیں اُن پر لازم ہے کہ وہ خودکو اُن کی سیرت واخلاق کےسانچے میں ڈھا لیں، یعنی جس طرح آپ نےکبھی کسی فاسق وفاجر امیر کی طاعت وبیعت قبول نہیں کی، اپنی پوری زندگی اسوۂ حسنہ کی روشنی میں بسر کی، اور اللہ کی محبت میں اپنا گھربار، آل اولاد، جان ومال سب کچھ قربان کردیا، اسی طرح آپ کے محبین بھی فاسق وفاجر امیر کی طاعت وبیعت سےہمیشہ بچیں، اُسوہ ٔ حسنہ کی روشنی میں اپنی زندگی بسرکریں، نیز اللہ ا ور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنی عزیزترین چیز قربان کرنے کا حوصلہ بھی رکھیں، تبھی وہ دین ودنیامیں کامیاب وسرخرو ہوسکتے ہیں۔

ایک مجھ خستہ جگر پر ہی نہیں

ساری دنیا پر ہے احسانِ حسین

تبصرے بند ہیں۔