حافظ شیرازی کی ایک فارسی غزل کے چند اشعار کا منظوم اردو مفہوم

احمدعلی برقیؔ اعظمی

اے کاش مجھ پہ بھی وہ نگاہِ کرم کریں

کرتے ہیں اک نظر میں جو مٹی کو کیمیا

اچھا ہے اُن طبیبوں سے مخفی ہو میرا درد

اپنے وہ گنجِ غیب سے میری کریں دوا

معشوق جب اُٹھاتا نہیں اپنا خود نقاب

کیوں پیش کررہے ہیں خیالی وہ ماجرا

رندی و زہد سے جو میسر نہیں وہ حسن

بہتر ہے اپنا چھوڑ دیں خود اس پہ مدعا

واقف ہیں راز عشق سے جو اہلِ معرفت

رکھتے ہیں اُن سے ربط جو ہیں ان سے آشنا

درپردہ اُن کے فتنوں کا ہے ایک سلسلہ

جب تک اُٹھے گا پردہ نہ جانے کریں وہ کیا

سن کر یہ بات چیخ اٹھے پتھر بھی کیا عجب

کرتے ہیں خوش ادائی سے اظہارِ مدعا

درپردہ سو گناہ سے بہتر ہے میکشی

بیکار ایسا زہد ہے جو محض ہو ریا

پوشیدہ حاسدوں سے تو رہ کیونکہ اہلِ خیر

کرتے ہیں کام جس میں خدا کی ہو بس رضا

حافظؔ ہمیشہ وصل نہیں ہے نصیب میں

ہوتے ہیں لطفِ شاہ سے کم بہرہ ور گدا

غزل حافظ فارسی حافظ شیرازی

آنان کہ خاک را بہ نظر کیمیا کنند

آیا بود کہ گوشۂ چشمی بہ ما کنند

دردم نہفتہ بہ ز طبیبان مدعی

باشد کہ از خزانۂ غیبم دوا کنند

معشوق چون نقاب ز رخ در نمی کشد

ھرکس حکایتی بہ تصور چرا کنند

چون حسن عاقبت نہ بہ  رندی و زاھدیست

آن بہ کہ کار خود بہ عنایت رھا کنند

بی معرفت مباش کہ در من یزید عشق

اھلِ نظر معاملہ با آشنا کنند

حالی درون پردہ بسی فتنہ میرود

تا آن زمان کہ پردہ برافتد چہ ھا کنند

گر سنگ از این حدیث بنالد عجب مدار

صاحب دلان حکایت دل خوش ادا کنند

می کہ صد گناہ ز اغیار در حجاب

بھتر ز طاعتی کہ بہ روی و ریا کنند

پنھان ز حاسدان بہ خودم خوان کہ منعمان

خیر نھان برای رضای خدا کنند

حافظ دوام وصل میسر نمی شود

شاھان کم التفات بہ حال گدا کنند

تبصرے بند ہیں۔