تیری ضد اور اپنی وحشت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو

افتخار راغب

تیری ضد اور اپنی وحشت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو

جنگ پھر چھڑ گئی ہے قسمت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو

 کیا کہا اب میں بھول جاؤں تجھے، اب تو ممکن نہیں یہ رہنے دے

سہمی سہمی تری ہدایت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دو تجھ کو

 مہرباں مجھ پہ شومیِ قسمت، ٹوٹ جائے کہیں نہ اب ہمّت

تلخیِ زیست کی عنایت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو

 دل نے بھی کشمکش کی ٹھانی ہے، غیر پر تیری مہربانی ہے

بدلی بدلی نگاہِ الفت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو

روز درپیش اک نئی الجھن، چاک ہے صبر و ضبط کا دامن

لرزشِ پاے استقامت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو

 دل نہ راغب ہو وسوسوں پہ کہیں، ڈھہہ نہ جائے کبھی یہ قصرِ یقیں

گردشِ وقت کی شرارت سے ڈر رہا ہوں کہ کھو نہ دوں تجھ کو

تبصرے بند ہیں۔