سحر کی جنبش قدِ متانت پہ رہ گئی تھی

عامرؔ نظر

سحر کی جنبش قدِ متانت پہ رہ گئی تھی

قفس کی تلخی لبِ شکایت پہ رہ گئی تھی

زمیں پہ ”شعلات” اگ رہی تھی مگر وہ چپ تھی

شعاعِ تیرہ لباسِ وحشت پہ رہ گئی تھی

طناب شہرگ اکھاڑ ڈالی غمِ سکوں نے

حیات،، دنیا کی خستہ حالت پہ رہ گئی تھی

فصیلِ ششدر کے بام پر ہو رہی ہے افشاں

جو شمعِ ساعت جبینِ حسرت پہ رہ گئی تھی

بساط!! گردش کے دائروں میں سمٹ چکی تھی

مگر وہ ذوقِ کرم کی وسعت پہ رہ گئی تھی

خرد کے پہلو کی سہمی سہمی نگاہ عامرؔ

ستونِ بے در کی تنگ قامت پہ رہ گئی تھی

تبصرے بند ہیں۔