سر سید کا دو صد سالہ جشن: ملک و قوم نے کیا پایا، کیا کھویا؟

صفدر امام قادری

انسانی تاریخ میں ایسے افراد بڑی تعداد میں نہیں جنھیں اپنی زندگی میں ہی اپنے کام کے نتائج دیکھنے کی خدا نے سعادت نصیب کی ہو۔ سرسید احمد خاں نے اپنے زمانے میں تعلیم اور قوم کے ذہن کی تبدیلی کے جو خواب دیکھے تھے، اس کی ابتدائی تعبیریں ان کی زندگی میں ہی سامنے آنے لگی تھیں ۔زندگی کے آخری لمحے تک سر سید نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ ان کے بعد والوں نے بھی ان کے قائم کردہ ادارے پر اکتفا کرکے بیٹھ جانا مناسب نہیں سمجھا بلکہ اس ادارے کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ آج یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہندستان کے ممتاز تعلیمی اداروں میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا شمار ہوتاہے۔

سر سید کا یہ بھی خواب تھا کہ ملک کے گوشے گوشے میں تعلیمی ترقی کے لیے لوگ انہماک کے ساتھ کام کریں ۔ اسی مقصد کے تحت مسلم ایجو کیشنل کانفرنس کے اجلاس ملک کے مختلف گوشوں میں منعقد ہوتے رہے اور سائنٹفک سوسائٹی کی شاخیں یا اسکول اور کالج کھلنے کا بھی سلسلہ ہمیں ہر جگہ نظر آتاہے۔اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ علی گڑھ تحریک میں سر سید احمد خاں کو ایسے رفقا اور نئے لوگ سامنے آتے گئے جنھیں جہاں موقع ملا، انھوں نے وہیں اپنے نئے ادارے قائم کیے اور سرسید نے جو مشعل روشن کی تھی اس کی ایک شاخ ان مقامات پر بھی لہلہا اٹھی جن سے ان کا تعلق تھا۔ اس طرح علی گڑھ میں سر سید نے جو شمع روشن کی، وہ ہندستان اور پاکستان یا بنگلہ دیش کی کون کہے، دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے نتائج سامنے آنے لگے۔ اب سر سید کی وفات کے سوا سو برس ہونے کو آئے، پیدائش کے دو سو برس پورے ہوئے مگر جس طرح دنیا کو تعلیم کی مزید روشنی ہر لمحہ چاہیے، اسی طرح سر سید کے کام بھی روز بہ روز پھیلتے جا رہے ہیں اور اس کی شکلیں بدلتی جا رہی ہیں۔

سر سید کی پیدائش کے دو صد سالہ جشن کا آغاز ہوتے ہی یہ نظر آنے لگا کہ کبھی امریکہ اور انگلینڈ، کبھی عرب کے ریگ زار اور کبھی آسٹریلیائی ٹاپو اخبارات و رسائل میں سر سید کا جشن پیدائش کے دو سو سال مکمل ہونے پر اپنے محسن کو یاد کرنے کا انداز بڑا لبھاونا رہا ہے۔سر سید اگر زندہ ہوتے تو یہ دیکھتے کہ ان کے چراغ سے ان گنت چراغ جلے اور تعلیم کا جو بیج انھوں نے بویا تھا وہ دنیا کے ہر گوشے میں پھل دار درخت کے طور پر اپنی خوشبو اور مٹھاس کو عام کر رہا ہے۔

غالب صدی تقریبات میں قومی اور بین الاقوامی کمیٹیاں بنیں اور دنیا کی سطح پر غالب کی وفات کے سو برس پورے ہونے کے موقعے سے بڑے بڑے جلسے منعقد ہوئے تھے۔ اس میں صدرِ جمہوریہ اور وزیرِ اعظم مختلف گورنرس اور وزراے اعلا تک شامل تھے۔ بہت ساری کتابیں چھپیں ، دیوانِ غالب کے طرح طرح کے ایڈیشن شایع ہوئے اور ملک بھر میں یہ عام ہوا کہ غالب شناسی کو ہمیں اپنے ایجنڈے کے طور پر لینا چاہیے۔ اس موقعے سے غالب کے ترجموں کی طرف بھی لوگوں کا دھیان گیا۔یورپ اور امریکہ میں غالب کے کلام کی خوشبو پہنچی۔ ہندستان کی علاقائی زبانوں میں بھی غالب کی پہنچانے کی مہم شروع ہوئی۔۲۰۱۴ میں جب سر سید کے رفیقِ خاص شبلی نعمانی کی وفات کے سو برس پورے ہوئے تو شبلی کے قائم کردہ ادارے دار المصنّفین نے شبلی کو اہتمام سے یاد کرنے کا خاکہ بنایا۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ وہی سال حالی کی وفات کا بھی ہے، اس لیے پوری دنیا میں ان دونوں کو یاد کرنے اور ان کے فیضان کو عام کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں ۔ رسائل کے خصوصی شمارے، سے می نار کے مقالہ جات اور آزادانہ طور پر لکھی جانے والی کتابیں بڑی تعداد میں سامنے آئیں جس سے شبلی اور حالی کے کاموں کی طرف پھر سے علمی توجہ پیدا ہوئی۔

دارالمصنّفین، اعظم گڑھ نے شبلی صدی منانے کے مرحلے میں بڑے مرتّب انداز میں کام کیا۔ شبلی کی کتابوں کی اشاعتِ نو کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اسی مرحلے میں وہاں سے شایع شدہ دوسری کتابوں کی باری آئی۔ شبلی کی تحریروں سے نئی سوانح حیات تیار کرنے کی بھی مہم شروع ہوئی۔ شبلی کی یادگار ’الندوہ‘ اور’معارف‘ کے تعلق سے تحقیقی اور ادارتی کام شروع ہوئے۔ پُرانی کتابوں کی اشاعت نئے انداز او رسلیقے کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچی۔ کتابت کے اندازِ قدیم کو چھوڑتے ہوئے کمپیوٹر کی چمک اور روشنی کا اضافہ ہوا۔ حالاں کہ دارالمصنّفین کی مخصوص کتابت کی ہماری قوم خوٗگر بنی ہوئی تھی۔ یہی نہیں اس مرحلے میں دار المصنّفین میں نہ حالی کو چھوڑا اور نہ سیّدِ والا گہر کوجن سے شبلی کے کشیدہ تعلقات پر ہر زمانے میں کتابیں لکھی جاتی رہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ ’معارف‘ کے اداریے دارالمصنّفین نے شایع کیے تو یہ بھی خیال رکھا کہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے شذرات بھی شایع ہو جائیں اور ایک بھاری بھرکم جلد تیار کرکے سر سید پر ہونے والے بڑے سے می نار میں پیش کر دی گئی:

’’دیکھیں کس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا‘‘

سب سے پہلی معذرت یہ کہ سر سید کے دو صد سالہ جشن کے سلسلے سے سر سید کے قائم کردہ ادارے نے اس طرح سے پہل نہیں کی جیسے متوقع تھی۔ دو ضخیم جلدوں میں ببلیو گرافی اور انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے ابتدائی پانچ برسوں کا اشاریہ اور چھوٹی بڑی ذاتی کوششوں سے مکمل ہوئیں دو چار پانچ کتابیں ۔ یہ بھی کسی کو یاد نہ رہا کہ سر سید کی کتابیں نئے سِرے سے خوب اہتمام کے ساتھ دو صدی ایڈیشن کے نام سے پیش کیے جائیں ۔ سر سید کی جن کتابوں کو نئی تدوین در کار ہے، اُنھیں نئے انداز سے شایع کرنے کی ضرورت تھی۔ سر سید کے بعض مسوّدات بھی ابھی شرمندۂ اشاعت ہیں ۔ کچھ چیزیں پاکستان میں مرتب ہوکر شایع ہوئیں ۔ کیاانھیں سلیقے سے ہندستان میں شایع نہیں ہونا چاہیے تھا۔ خدا بخش لائبریری کے سو سال پورے ہو رہے تھے اور اس کے بعد قاضی عبدالودود کی پیدائش کی بھی صدی مکمل ہونے والی تھی۔ وہاں کے اس زمانے کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار نے ایک ساتھ ایک سو کتابوں کی اشاعت کا خیال پیش کیا۔ تنہا قاضی عبدالودود کے سلسلے سے چھوٹی بڑی تین درجن کتابیں سامنے آ گئیں مگر پوری دنیا میں سر سید کے نام لیوا بنیادی کاموں سے اگر سروکار رکھیں تو سرسید شناسی کے نئے ابواب روشن ہو سکتے ہیں ۔سرسید کی کتابوں کی نئی تدوینات، حیاتِ سر سید سے متعلق ہندستان اور دنیاکی مختلف زبانوں میں تفصیلی کتابیں پیش کرنا آخر ہمارے جشن کا حصہ کیوں نہیں ہوتا؟ کیا آج سے سو برس اور اس سے بھی زیادہ پرانے اور مرتب شدہ ایڈیشن ہی ہمارے لیے رہ نما ہوں گے؟ اسماعیل پانی پتی کے اللہ درجے بلند کرے جس شخصِ واحد نے سر سید کے اکثر بکھرے کاموں کو ایک نتیجے تک پیش کر دیا تھا مگر اس کے بعد گہرا سنّاٹا ہے۔حیرت تو یہ ہے کہ پاکستان میں خطباتِ سر سید یا مکتوباتِ سر سید کی جس قدر اچھی اشاعتیں سامنے آئیں ، نہ پورے ہندستان کو اس کی نقلیں بنانے کی سوجھی اور علی گڑھ میں تو خاموشی ہی چھائی رہی۔

دہلی اردو اکادمی کے سہ روزہ قومی سے می نار میں مسندِ صدارت سے جب اچانک گلستانِ سر سید کے فارغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی نے افتتاحی جلسے کی صدارت میں یہ سوال اٹھایا کہ سر سید کا متن آخر کہاں ہے؟ کیا علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور وہاں کے دیگر اداروں کو اس بنیادی کام کو کیوں کر نہیں کرنا چاہیے تھا؟ یہ سوال ہمارے ذہن کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے کافی ہے۔سر سید تقریبات کا شور ہر جگہ ہے۔ مگر بڑے اداروں اور خاص طور پر سر سید کے قائم کردہ ادارے کے فرائض زیادہ ہیں۔

اردو اکادمی، دہلی نے ہی آج سے دو دہا ئی پہلے ’آثار الصنادید ‘ کا خلیق انجم کا مرتب کردہ ایڈیشن شایع کیا تھا جس سے یہ کتاب پھر سے عوام و خواص میں پہنچی۔ دہلی اردو اکادمی کے نائب صدر پروفیسر شہپر رسول نہ صرف یہ کہ مشہور شاعر ہیں بلکہ گلستانِ سرسید کے فیض یافتہ بھی ہیں۔ سید شاہد مہدی کا مشورہ تھاکہ ایک قومی سطح کا بڑی ایڈیٹوریل بورڈ بنا کر سر سید کے بنیادی متن کو مرتب کرکے شایع کر دینا چاہیے۔ علی گڑھ کی طرف قوم کب تک نگاہیں کرکے بیٹھی رہے گی۔کیا اس کام کو شہرِ دہلی کا عظیم فرزند سمجھتے ہوئے دہلی اردو اکادمی اسے صد سالہ جشنِ سر سید کے فیضان کے طور پر اپنا ایجنڈا نہیں بنا سکتی؟ ممکن ہے اس سے دہلی اردو اکادمی ہماری تاریخ کا سنہرا باب رقم کر دے۔

1 تبصرہ
  1. اردو گلشن ممبئی کہتے ہیں

    انتہائی بہترین تجزیہ
    جناب صفدر امام قادری صاحب

تبصرے بند ہیں۔